شمشاد
لائبریرین
توبۃ النصوح صفحہ 201 تا 242
اور اس کو بیچ میں بات کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا، یا دوسرے منصوبے سوچ رہا تھا۔ اس کا سرنگوں ہونا بھی کچھ گناہ کی ندامت سے نہ تھا، بلکہ حالت کی شناخت سے۔ جب نصوح نے دیکھا کہ وہ ہاں یا نہیں کچھ بھی نہیں کہتا، تو اس نے ذرا گرم ہو کر اتنی بات کہی کہ بڑی دقت تمہارے معاملے میں مجھ کو یہ درپیش ہے کہ تمہاری مافی الضمیر مجھ پر منکشف نہیں ہوتا۔ شروع میں تم نے میرے سامنے آنے سے گریز کیا اور اب مواجہ بھی ہوا تو بے سود۔
ابھی تک کلیم نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا، کہ نصوح کے ہمراہی جو کلیم کے حالات سے واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ دین داری کی تاکید پر گھر سے نکل گیا ہے، بول اٹھے کہ اے حضرت، میاں کلیم ماشا اللہ بڑے ذہین اور زیرک اور عاقل ہیں، جو آپ نے فرمایا انہوں نے گرہ باندھا۔ اگرچہ باقتضائے سن، اب تک لہو و لعب کی طرف متوجہ تھے مگر اب آپ دیکھیے گا کہ انشا اللہ جوانِ صالح اور متشرع اور متقی بنیں گے کہ اپنے ہم عمروں کے لیے نمونہ ہوں گے۔ اپ گھر میں تشریف لے جایئے۔ یہ بھی آپ کے ساتھ جائیں، کپڑے بدلیں اور آپ کی نصیحت پر عمل کریں، جس میں دنیا اور دین دونوں کا فائدہ ہے۔"
نصوح نے پھر کلیم کی طرف مخاطب ہو کر کہا : " کیوں صاحب، کچھ تم بھی تو اپنے دل کا ارادہ بیان کرو۔"
کلیم : " مجھ کو آپ اتنی اجازت دیجئے کہ گھر سے اپنی ضرورت کی چند چیزیں منگوا لوں۔
نصوح : "سخت افسوس کہ تم دنیا کی چند روزہ اور عارضی ضرورتوں کا اہتمام کرتے ہو اور دین کی بڑی ضرورت سے غافل ہو۔
غم دیں خور کہ غم غم دین ست
ہمہ غم ہا فرو تر از ایں ست
ضرورت کی چیزیں منگوا لینا کیا معنی، تم شوق سے گھر میں چلو۔ غالبا میری نسبت کر تم کو اس گھر میں زیادہ دنوں رہتا ہے، بس وہ گھر میرا کیوں فرض کر لیا گیا ہے۔ تمہاری ماں بہت بے تاب ہے۔ چھوٹے بڑے سب فکر مند ہیں۔ میرے جرم کی سزا دوسروں کو دینا شیوہ انصاف سے بعید ہے۔"
کلیم : " مجھ کو معلوم ہے کہ آپ چند روز سے دین داری اور خدا پرستی کے نام سے نئے نئے دستور، نئے نئے طریقے، نئے نئے قاعدے گھر میں جاری کرنے چاہتے ہیں اور اس جدید انتظام میں جیسا کچھ اہتمام آپ کو منظور ہے، میں کیا گھر میں کوئی متنفس اس سے بے خبر نہیں۔ ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سے جان چکا ہے کہ وہ اس انتظامِ جدید کی مخالفت کے ساتھ گھر میں رہ نہیں سکتا۔ پس میں نے اپنی طرف بہتیری کوشش کی کہ مجھ کو اپنی مخالفت آپ کے رو در رو ظاہر کرنے کی ضرورت نہ ہو، مگر آپ کے اصرار نے مجھ کو مجبور کر دیا اور اب ناچار مجھ کو کہنا پڑا کہ میں شروع سے اس انتظام کا مخالف ہوں، اور میرا گریز میری رائے ظاہر کر دینے کے لیے کافی تھا۔ میں ایک بال کے برابر اپنی طرز زندگی کو نہیں بدل سکتا اور اگر جبر اور سخت گیری کے خوف سے میں اپنی رائے کی آزادی نہ رکھ سکوں تو تف ہے میری ہمت پر اور نفرین ہے میری غیرت پر اور میں اس میں کلام نہیں کرتا کہ آپ کو اپنے گھر میں ہر طرح کے انتظام کا اختیار حاصل ہے، مگر اس جبری انتظام کے وہی لوگ پابند ہو سکتے ہیں جن کو اس کی واجبیت تسلیم ہو یا جو اس کی مخالفت پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ اور چوں کہ میں دونوں شقوں سے خارج ہوں، میں نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ گھر سے الگ ہو جاؤں اور اگرچہ میری اس وقت کی حالت پر یہ کہنا زیب نہیں دیتا لیکن ذرا مجھ کو دہلی سے نکلنے دیجئے، تو پھر آپ اور سب لوگ دیکھ لیں گے کہ میں کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ قاعدہ ہے کہ وطن میں آدمی بے قدر ہوتا ہے، چنانچہ آپ کے نزدیک بھی یہ بات ثابت ہے کہ مجھ کو گھر سے نکلنے پر بھیک مانگی نہیں ملے گی۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہی آپ کا فرزند نالائق و ناخلف ہو گا اور کسی امیر کی مصاحبت ہو گی، یا کسی ریاست کی مسندِ وزارت۔ میں ایسا بھی احمق نہیں ہوں کہ آپ پر مہربانی کی تہمت لگاؤں۔ آپ وہی بات فرماتے ہیں جو آپ میرے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن میری بے ادبی اور گستاخی معاف، میں اپنے تئیں محتاج تعلیم و ہدایت نہیں سمجھتا۔ رہا گھر، سو اس میں صرف اس شرط سے چل سکتا ہوں کہ آپ میرے نیک و بد سے بحث، میرے بھلے برے سے تعرض نہ کرنے کا قول واثق اور وعدہ حمتی کریں۔"
نصوح : اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے مجھ کو منصب پدری سے معزول کیا۔
کلیم : نہیں۔ آپ نے مجھ کو فرزندی سے عاق فرمایا۔
اس کے بعد نصوح گھر میں آنے کی نیت سے اٹھا اور اس کا ارادہ تھا کہ طوعا و کرہا جس طرح ممکن ہو، کلیم کو ساتھ لوا جائے۔ مگر کلیم، نہیں معلوم کیوں کر، نصوح کے بطون کو تاڑ گیا کہ اس کو اٹھتا دیکھ چبوترے سے جست کی تو صحن میں تھا اور صحن سے تڑپا تو احاطے کے باہر۔ لوگوں نے دوڑ کر دیکھا تو وہ بازار کے پرلے سرے جا چکا تھا۔ یہ دیکھ کر نصوح ہکا بکا سا ہو کر رہ گیا اور جس طرح اس نے بیٹے کو سپاہیوں کے ہاتھوں میں گرفتار دیکھ کر " انا للہ " کہا تھا، اب بیٹے سے جدا ہوتے وقت بھی وہ " انا للہ " کہہ کر چپ ہو رہا۔
غرض کلیم نہ گھر گیا اور نہ گھر سے اس کو کوئی چیز لینی نصیب ہوئی۔ اسی طرح الٹے پاؤں پھر کر چلا گیا۔ نصوح کے پہنچتے پہنچتے یہ تمام ماجرا کسی نے گھر میں جا کہا اور مستورات میں بیٹھے بٹھائے ایک کہرامچ گیا۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بادلوں کی طرح دروازے میں آ کھڑی ہوئی اور قریب تھا کہ پردے سے باہر نکل آئے، کہ نصوح جا پہنچا۔ بی بی کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا کہ خیر تو ہے، کہاں کھڑی ہو؟ فہمیدہ میاں کو دیکھ کر بلک گئی اور گھبرا کر پوچھا کہ میرا کلیم کہاں ہے؟
نصوح : میرا کلیم؟ اگر تمہارا کلیم ہوتا تو تمہارے گھر میں ہوتا۔ اور تمہارے اور باپ اور بھائی کے اتنے اصرار اور اتنے سمجھانے اور اتنی منت اور اتنی خوشامد پر، بے پوچھے، بے کہے، گھر سے نہ چلا جاتا۔
فہمیدہ : اچھے، خدا کے لیے مجھ کو اس کی صورت دیکھا دو۔ میں نے سنا ہے کہ سر سے ننگا ہے، پاؤں میں جوتی نہیں۔ اس نے کاہے کو کبھی زمین پر پاؤں رکھا تھا، کنکر تلووں میں چبھتے ہوں گے۔ کون سے وہ مولے سپاہی تھے، میرے بچے کے پکڑنے والے۔ گھورا ہو تو الہٰی دیدے پھوٹیں۔ ہاتھ لگایا ہو تو خدا کرے پور پور سے کوڑھ ٹپکے۔ وارے تھے وہ سپاہی اور قربان کیا تھا وہ کوتوال۔ میرا بچہ اور چوری کرنے کے قابل؟
نصوح : کیسی بد عقلی کی باتیں کرتی ہو۔ چلو گھر میں چل کر بیٹھو۔ باہر گلی میں تمہاری آواز جاتی ہے۔ تمہاری اس بے تابی کی محبت نے اولاد کو دنیا اور دین دونوں سے تو کھو دیا، اب دیکھیے کیا کرے گی۔
فہمیدہ : اچھا تو پھر کلیم گیا تو کہاں گیا؟
نصوح : جانے میری جوتی کہاں گیا۔ مجھ سے پوچھ کر گیا ہو تو بتاؤں۔ نہیں معلوم خدائی خوار کہاں تھا، اور کیسے لوگوں میں تھا کہ جو رسوائی ہفتاد پشت سے نہ ہوئی تھی وہ اس مردک کی وجہ سے ہوئی۔ اب مجھ کو شہر میں منہ دکھانا مشکل ہے۔ یا تو خدا اس کو نیک ہدایت دے، یا میں اس کو تو کیا بدعا دوں، مجھ کو ایمان سے اٹھا لے کہ ان تکلیفوں سے مجھ کو نجات ہو۔
فہمیدہ : کیوں کر تمہارے دل نے صبر کیا اور کن آنکھوں سے تم نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا۔؟
نصوح : جس طرح اس کی گستاخی پر صبر کیا تھا کہ میں نے بار بار بلایا اور وہ نہ آیا، اسی طرح مین نے اس کی وہ حالت دیکھ کر صبر کیا اور جن آنکھوں سے اس کے خلوت خانے، عشرت منزل اور کتب خانے کی رسوائی اور خرابی اور تفضیح کو دیکھا تھا، انہی آنکھوں سے اس کو کھلے سر، ننگے پاؤں، چور بنا ہوا، سپاہیوں کی حراست میں دیکھا ۔ ع :
جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
فہمیدہ : تم سے اتنا نہ ہو سکا کہ اس کو مجھ تک لے آتے۔
نصوح : اگر میں اس کو تم تک نہ لا سکا تو مجھ سے پہلے تم اس کو مجھ تک نہیں لا سکیں اور نہ تم اس کو جانے سے روک سکیں۔
فہمیدہ : کہاں تم مرد، کہاں میں عورت۔
نصوح : تو کیا تمہاری مرضی تھی کہ میں اس سے کشتی لڑتا؟ بس ایسے اخلاص سے مجھ معاف رکھیے۔
غرض نصوح سمجھا بجھا کر بی بی کو گھر میں لے گیا اور یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی کہ رونے سے مطلق فائدہ نہیں۔ البتہ خدا سے اس کے حق میں زار نالی کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ بامراد اس کو واپس لائے۔
ادھر کلیم نے خالہ کے جانے کا ارادہ کیا مگر اس وقت تک اس کو نعیمہ کا حال معلوم نہ تھا۔ اگر کہیں خالہ کے یہاں چلا گیا ہوتا تو سب سے بہتر تھا۔ سرِ دست اس کی ہمدردی کرنے کو نعیمہ وہاں موجود تھی اور چوں کہ اس کی خالہ کا سارا خاندان نیک اور دین دار تھا، کلیم کو نصوح کے خیالات سے مانوس کرنے کے لیے وہاں ہر طرح کا موقع تھا۔ لیکن عصیانِ خدا کا وبال اور حقوق والدین کی شامت، ابھی بہت سی گردشیں اس کی تقدیر میں تھیں۔ جوں ہی گلی کے باہر نکلا کہ میاں فطرت اس کو مل گئے۔ یہ حضرت، نصوح کے چچازاد بھائیوں میں تھے اور ان سے اور نصوح سے موروثی عداوت تھی، جیسی کہ دنیا دار خاندانوں میں اکثر ہوا کرتی ہے۔ رشتہ داری کی وجہ سے ایک کے حالات دوسرے سے مخفی نہ تھے۔ فطرت سن چکا تھا کہ نصوح کو دین داری کا نیا خبط اچھلا ہے، جس کی وجہ سے اس کے تمام خاندان میں کھلبلی مچ رہی ہے۔ جو دقتیں بیچارے نصوح کو اصلاح خاندان میں پیش آتی تھیں، فطرت کو سب کی خبر لگتی تھی اور یہاں کے تذکروں کا ایک مضحکہ ہوتا تھا۔ کلیم کی عادت سے تو واقف تھا ہی، فطرت اپنے یہاں خود کہا کرتا تھا کہ میاں نصوح لاکھ دین داری جتائیں مگر جب جانیں کہ بڑے بیٹے کو اپنی راہ پر لائیں۔ کلیم کو جو ننگے سر ننگے پاؤں سر بازار جاتے ہوئے دیکھا تو فطرت نے چھیڑ کر پوچھا کہ میاں کلیم، تم نے ابھی سے احرام حج باندھ لیا؟
(جاری ہے۔۔۔)
اور اس کو بیچ میں بات کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا، یا دوسرے منصوبے سوچ رہا تھا۔ اس کا سرنگوں ہونا بھی کچھ گناہ کی ندامت سے نہ تھا، بلکہ حالت کی شناخت سے۔ جب نصوح نے دیکھا کہ وہ ہاں یا نہیں کچھ بھی نہیں کہتا، تو اس نے ذرا گرم ہو کر اتنی بات کہی کہ بڑی دقت تمہارے معاملے میں مجھ کو یہ درپیش ہے کہ تمہاری مافی الضمیر مجھ پر منکشف نہیں ہوتا۔ شروع میں تم نے میرے سامنے آنے سے گریز کیا اور اب مواجہ بھی ہوا تو بے سود۔
ابھی تک کلیم نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا، کہ نصوح کے ہمراہی جو کلیم کے حالات سے واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ دین داری کی تاکید پر گھر سے نکل گیا ہے، بول اٹھے کہ اے حضرت، میاں کلیم ماشا اللہ بڑے ذہین اور زیرک اور عاقل ہیں، جو آپ نے فرمایا انہوں نے گرہ باندھا۔ اگرچہ باقتضائے سن، اب تک لہو و لعب کی طرف متوجہ تھے مگر اب آپ دیکھیے گا کہ انشا اللہ جوانِ صالح اور متشرع اور متقی بنیں گے کہ اپنے ہم عمروں کے لیے نمونہ ہوں گے۔ اپ گھر میں تشریف لے جایئے۔ یہ بھی آپ کے ساتھ جائیں، کپڑے بدلیں اور آپ کی نصیحت پر عمل کریں، جس میں دنیا اور دین دونوں کا فائدہ ہے۔"
نصوح نے پھر کلیم کی طرف مخاطب ہو کر کہا : " کیوں صاحب، کچھ تم بھی تو اپنے دل کا ارادہ بیان کرو۔"
کلیم : " مجھ کو آپ اتنی اجازت دیجئے کہ گھر سے اپنی ضرورت کی چند چیزیں منگوا لوں۔
نصوح : "سخت افسوس کہ تم دنیا کی چند روزہ اور عارضی ضرورتوں کا اہتمام کرتے ہو اور دین کی بڑی ضرورت سے غافل ہو۔
غم دیں خور کہ غم غم دین ست
ہمہ غم ہا فرو تر از ایں ست
ضرورت کی چیزیں منگوا لینا کیا معنی، تم شوق سے گھر میں چلو۔ غالبا میری نسبت کر تم کو اس گھر میں زیادہ دنوں رہتا ہے، بس وہ گھر میرا کیوں فرض کر لیا گیا ہے۔ تمہاری ماں بہت بے تاب ہے۔ چھوٹے بڑے سب فکر مند ہیں۔ میرے جرم کی سزا دوسروں کو دینا شیوہ انصاف سے بعید ہے۔"
کلیم : " مجھ کو معلوم ہے کہ آپ چند روز سے دین داری اور خدا پرستی کے نام سے نئے نئے دستور، نئے نئے طریقے، نئے نئے قاعدے گھر میں جاری کرنے چاہتے ہیں اور اس جدید انتظام میں جیسا کچھ اہتمام آپ کو منظور ہے، میں کیا گھر میں کوئی متنفس اس سے بے خبر نہیں۔ ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سے جان چکا ہے کہ وہ اس انتظامِ جدید کی مخالفت کے ساتھ گھر میں رہ نہیں سکتا۔ پس میں نے اپنی طرف بہتیری کوشش کی کہ مجھ کو اپنی مخالفت آپ کے رو در رو ظاہر کرنے کی ضرورت نہ ہو، مگر آپ کے اصرار نے مجھ کو مجبور کر دیا اور اب ناچار مجھ کو کہنا پڑا کہ میں شروع سے اس انتظام کا مخالف ہوں، اور میرا گریز میری رائے ظاہر کر دینے کے لیے کافی تھا۔ میں ایک بال کے برابر اپنی طرز زندگی کو نہیں بدل سکتا اور اگر جبر اور سخت گیری کے خوف سے میں اپنی رائے کی آزادی نہ رکھ سکوں تو تف ہے میری ہمت پر اور نفرین ہے میری غیرت پر اور میں اس میں کلام نہیں کرتا کہ آپ کو اپنے گھر میں ہر طرح کے انتظام کا اختیار حاصل ہے، مگر اس جبری انتظام کے وہی لوگ پابند ہو سکتے ہیں جن کو اس کی واجبیت تسلیم ہو یا جو اس کی مخالفت پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ اور چوں کہ میں دونوں شقوں سے خارج ہوں، میں نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ گھر سے الگ ہو جاؤں اور اگرچہ میری اس وقت کی حالت پر یہ کہنا زیب نہیں دیتا لیکن ذرا مجھ کو دہلی سے نکلنے دیجئے، تو پھر آپ اور سب لوگ دیکھ لیں گے کہ میں کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ قاعدہ ہے کہ وطن میں آدمی بے قدر ہوتا ہے، چنانچہ آپ کے نزدیک بھی یہ بات ثابت ہے کہ مجھ کو گھر سے نکلنے پر بھیک مانگی نہیں ملے گی۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہی آپ کا فرزند نالائق و ناخلف ہو گا اور کسی امیر کی مصاحبت ہو گی، یا کسی ریاست کی مسندِ وزارت۔ میں ایسا بھی احمق نہیں ہوں کہ آپ پر مہربانی کی تہمت لگاؤں۔ آپ وہی بات فرماتے ہیں جو آپ میرے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن میری بے ادبی اور گستاخی معاف، میں اپنے تئیں محتاج تعلیم و ہدایت نہیں سمجھتا۔ رہا گھر، سو اس میں صرف اس شرط سے چل سکتا ہوں کہ آپ میرے نیک و بد سے بحث، میرے بھلے برے سے تعرض نہ کرنے کا قول واثق اور وعدہ حمتی کریں۔"
نصوح : اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے مجھ کو منصب پدری سے معزول کیا۔
کلیم : نہیں۔ آپ نے مجھ کو فرزندی سے عاق فرمایا۔
اس کے بعد نصوح گھر میں آنے کی نیت سے اٹھا اور اس کا ارادہ تھا کہ طوعا و کرہا جس طرح ممکن ہو، کلیم کو ساتھ لوا جائے۔ مگر کلیم، نہیں معلوم کیوں کر، نصوح کے بطون کو تاڑ گیا کہ اس کو اٹھتا دیکھ چبوترے سے جست کی تو صحن میں تھا اور صحن سے تڑپا تو احاطے کے باہر۔ لوگوں نے دوڑ کر دیکھا تو وہ بازار کے پرلے سرے جا چکا تھا۔ یہ دیکھ کر نصوح ہکا بکا سا ہو کر رہ گیا اور جس طرح اس نے بیٹے کو سپاہیوں کے ہاتھوں میں گرفتار دیکھ کر " انا للہ " کہا تھا، اب بیٹے سے جدا ہوتے وقت بھی وہ " انا للہ " کہہ کر چپ ہو رہا۔
غرض کلیم نہ گھر گیا اور نہ گھر سے اس کو کوئی چیز لینی نصیب ہوئی۔ اسی طرح الٹے پاؤں پھر کر چلا گیا۔ نصوح کے پہنچتے پہنچتے یہ تمام ماجرا کسی نے گھر میں جا کہا اور مستورات میں بیٹھے بٹھائے ایک کہرامچ گیا۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بادلوں کی طرح دروازے میں آ کھڑی ہوئی اور قریب تھا کہ پردے سے باہر نکل آئے، کہ نصوح جا پہنچا۔ بی بی کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا کہ خیر تو ہے، کہاں کھڑی ہو؟ فہمیدہ میاں کو دیکھ کر بلک گئی اور گھبرا کر پوچھا کہ میرا کلیم کہاں ہے؟
نصوح : میرا کلیم؟ اگر تمہارا کلیم ہوتا تو تمہارے گھر میں ہوتا۔ اور تمہارے اور باپ اور بھائی کے اتنے اصرار اور اتنے سمجھانے اور اتنی منت اور اتنی خوشامد پر، بے پوچھے، بے کہے، گھر سے نہ چلا جاتا۔
فہمیدہ : اچھے، خدا کے لیے مجھ کو اس کی صورت دیکھا دو۔ میں نے سنا ہے کہ سر سے ننگا ہے، پاؤں میں جوتی نہیں۔ اس نے کاہے کو کبھی زمین پر پاؤں رکھا تھا، کنکر تلووں میں چبھتے ہوں گے۔ کون سے وہ مولے سپاہی تھے، میرے بچے کے پکڑنے والے۔ گھورا ہو تو الہٰی دیدے پھوٹیں۔ ہاتھ لگایا ہو تو خدا کرے پور پور سے کوڑھ ٹپکے۔ وارے تھے وہ سپاہی اور قربان کیا تھا وہ کوتوال۔ میرا بچہ اور چوری کرنے کے قابل؟
نصوح : کیسی بد عقلی کی باتیں کرتی ہو۔ چلو گھر میں چل کر بیٹھو۔ باہر گلی میں تمہاری آواز جاتی ہے۔ تمہاری اس بے تابی کی محبت نے اولاد کو دنیا اور دین دونوں سے تو کھو دیا، اب دیکھیے کیا کرے گی۔
فہمیدہ : اچھا تو پھر کلیم گیا تو کہاں گیا؟
نصوح : جانے میری جوتی کہاں گیا۔ مجھ سے پوچھ کر گیا ہو تو بتاؤں۔ نہیں معلوم خدائی خوار کہاں تھا، اور کیسے لوگوں میں تھا کہ جو رسوائی ہفتاد پشت سے نہ ہوئی تھی وہ اس مردک کی وجہ سے ہوئی۔ اب مجھ کو شہر میں منہ دکھانا مشکل ہے۔ یا تو خدا اس کو نیک ہدایت دے، یا میں اس کو تو کیا بدعا دوں، مجھ کو ایمان سے اٹھا لے کہ ان تکلیفوں سے مجھ کو نجات ہو۔
فہمیدہ : کیوں کر تمہارے دل نے صبر کیا اور کن آنکھوں سے تم نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا۔؟
نصوح : جس طرح اس کی گستاخی پر صبر کیا تھا کہ میں نے بار بار بلایا اور وہ نہ آیا، اسی طرح مین نے اس کی وہ حالت دیکھ کر صبر کیا اور جن آنکھوں سے اس کے خلوت خانے، عشرت منزل اور کتب خانے کی رسوائی اور خرابی اور تفضیح کو دیکھا تھا، انہی آنکھوں سے اس کو کھلے سر، ننگے پاؤں، چور بنا ہوا، سپاہیوں کی حراست میں دیکھا ۔ ع :
جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
فہمیدہ : تم سے اتنا نہ ہو سکا کہ اس کو مجھ تک لے آتے۔
نصوح : اگر میں اس کو تم تک نہ لا سکا تو مجھ سے پہلے تم اس کو مجھ تک نہیں لا سکیں اور نہ تم اس کو جانے سے روک سکیں۔
فہمیدہ : کہاں تم مرد، کہاں میں عورت۔
نصوح : تو کیا تمہاری مرضی تھی کہ میں اس سے کشتی لڑتا؟ بس ایسے اخلاص سے مجھ معاف رکھیے۔
غرض نصوح سمجھا بجھا کر بی بی کو گھر میں لے گیا اور یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی کہ رونے سے مطلق فائدہ نہیں۔ البتہ خدا سے اس کے حق میں زار نالی کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ بامراد اس کو واپس لائے۔
ادھر کلیم نے خالہ کے جانے کا ارادہ کیا مگر اس وقت تک اس کو نعیمہ کا حال معلوم نہ تھا۔ اگر کہیں خالہ کے یہاں چلا گیا ہوتا تو سب سے بہتر تھا۔ سرِ دست اس کی ہمدردی کرنے کو نعیمہ وہاں موجود تھی اور چوں کہ اس کی خالہ کا سارا خاندان نیک اور دین دار تھا، کلیم کو نصوح کے خیالات سے مانوس کرنے کے لیے وہاں ہر طرح کا موقع تھا۔ لیکن عصیانِ خدا کا وبال اور حقوق والدین کی شامت، ابھی بہت سی گردشیں اس کی تقدیر میں تھیں۔ جوں ہی گلی کے باہر نکلا کہ میاں فطرت اس کو مل گئے۔ یہ حضرت، نصوح کے چچازاد بھائیوں میں تھے اور ان سے اور نصوح سے موروثی عداوت تھی، جیسی کہ دنیا دار خاندانوں میں اکثر ہوا کرتی ہے۔ رشتہ داری کی وجہ سے ایک کے حالات دوسرے سے مخفی نہ تھے۔ فطرت سن چکا تھا کہ نصوح کو دین داری کا نیا خبط اچھلا ہے، جس کی وجہ سے اس کے تمام خاندان میں کھلبلی مچ رہی ہے۔ جو دقتیں بیچارے نصوح کو اصلاح خاندان میں پیش آتی تھیں، فطرت کو سب کی خبر لگتی تھی اور یہاں کے تذکروں کا ایک مضحکہ ہوتا تھا۔ کلیم کی عادت سے تو واقف تھا ہی، فطرت اپنے یہاں خود کہا کرتا تھا کہ میاں نصوح لاکھ دین داری جتائیں مگر جب جانیں کہ بڑے بیٹے کو اپنی راہ پر لائیں۔ کلیم کو جو ننگے سر ننگے پاؤں سر بازار جاتے ہوئے دیکھا تو فطرت نے چھیڑ کر پوچھا کہ میاں کلیم، تم نے ابھی سے احرام حج باندھ لیا؟
(جاری ہے۔۔۔)