شمشاد
لائبریرین
توبۃ النصوح از ڈپٹی نذیر احمد (صفحہ 76 تا 100)
نعیمہ : اب تم میرے مرنے کی فال نکالو۔
ماں : نہ کوئی کسی کی فال سے مرتا اور نہ کوئی کسی کی فال سے جیتا۔ جس کی جتنی خدا نے لکھ دی۔
نعیمہ : ورنہ تم مجھ کو کاہے کو جینے دیتیں۔
ماں : اتنا ہی اختیار رکھتی ہوتی تو تجھ کو آدمی ہی نہ بنا لیتی۔
نعیمہ : نوج تو کیا میں حیوان ہوں۔
ماں : جو خدا کو نہیں جانتا وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔
نعیمہ : اب تو ایک حمیدہ تمہارے نزدیک انسان ہے۔ باقی سب گدھے ہیں۔
ماں : حمیدہ کا تجھ کوکیا جلاپا پڑ گیا۔ تو اس کی جوتی کی برابری تو کر لے۔
نعیمہ : خدا کی شان، یہ اٹھک بیٹھک کر لینے سے حمیدہ کو ایسے بھاگ لگ گئے !
فہمیدہ دو مرتبہ بیٹی کو منع کر چکی تھی اور سمجھا دیا تھا کہ اگر پھر دین کی باتوں میں بے ادبانہ کلام کرے گی تو میں بے تامل منہ پر طمانچہ ماروں گی۔ اس مرتبہ جو نعیمہ نے نماز کو اٹھک بیٹھک کہا تو حرارت دین داری نے فہمیدہ کو بے اختیار کیا اور اس نے واقع میں جیسا کہا تھا، نعیمہ کے منہ پر ایک طمانچہ ایسے زور کا مارا کہ منہ ہی تو پھر گیا۔ طمانچے کا لگنا تھا کہ نعیمہ نے ایک آفت توڑ ماری۔ سب سے پہلے تو اس نے " دے دھواں دھواں ، دے دھواں دھواں" اپنے بے زبان معصوم بچے کو پیٹ ڈالا۔ اگر لوگ اس کی گود سے بچے کو نہ چھین لیں تو لڑکے کا خون ہی کر چکی تھی۔ اس کے بعد تو اس نے عجب عجب فیل مچائے۔ گھنٹوں تک تو پٹخیاں کھایا کی۔ کپڑوں کا ایک تار باقی نہ رکھا۔ نہیں معلوم اس کا سر تھا یا لوہے کا گولا تھا کہ ہزاروں دوہتھڑیں اس پر پڑیں، آدھے سے زیادہ کھسوٹ ڈالے، سینکڑوں ٹکریں دیواروں میں ماریں۔ حیرت ہے کہ وہ سر بچا تو کیونکر بچا۔ اس کے پاکھنڈ دیکھ کر سارا گھر تھرا اٹھا اور لوغ ڈرنے لگے کہ ایسا نہ ہو تھانے والے غل سن کر اندر گھس آئیں۔ بارے بہ مشکل پکڑ دھکڑ کر کوٹھڑی کے اندر دھکیل اوپر سے کنڈی لگا دی۔
نیچے گھر میں اتنا غل ہوا مگر بالا خانہ کچھ ایسا الگ سا تھا کہ نصوح کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ جب سلیم باپ سے باتیں کر کے نیچے اترا تو فہمیدہ اوپر گئی۔ اس وقت تک غیظ و غیضب اور رنج و تعجب کے آثار اس کے چہرے سے نمودار تھا۔ دور ہی سے نصوح نے پوچھا : " خیریت تو ہے؟"
فہمیدہ : اللہ تعالٰی خیریت ہی رکھے۔ کیوں تم نے کیا سمجھ کر پوچھا؟
نصوح : تمہارے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ ہونٹھ خشک ہو رہے ہیں۔ سر سے پاؤں تک کھڑی کانپ رہی ہو۔ آخر یہ سب بے سبب تو نہیں ہیں۔
فہمیدہ نہ نعیمہ کی اور اپنی تمام سرگزشت بیان کی۔ نصوح یہ ماجرا سن کر دم بہ خود ہو گیا۔ آدھے گھنٹے کے قریب دونوں میاں بیوی چپ سناٹے میں بیٹھے رہ گئے۔ آخر فہمیدہ نے کہا : " پھر اب کیا صلاح؟"
نصوح : صلاح یہی ہے کہ جو ہونی ہو سو ہو، اب نرمی اور لیعت نہیں کرنی چاہیے۔ معاذ اللہ ایسا برا عقیدہ! بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی اہل اسلام کے خاندان کی لڑکی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا اس کے نزدیک کوئی چیز نہیں۔ مجھ کو تو اس کے ساتھ کھانا حرام ہے۔ بڑی خیریت گزری کہ میں وہاں موجود نہ تھا ورنہ میرے روبرو ایسا کلمہ اس کے منہ نکلا ہوتا تو شاید میں تلوار کھینچ مارتا۔ ایسی اولاد کے ہونے سے نہ ہونا اچھا۔ بہتر ہو گا کہ ابھی پالکی منگا کر اس کو سسرال پہنچا دو۔
فہمیدہ : بھلا کیسی باتیں کہتے ہو۔ بے طلب بے تقریب بھیج دیں تو ایک تو پہلے ہی سے اس نے اپنی عزت کو خاک میں ملا رکھا ہے، رہی سہی اور بھی غارت ہو۔ مجھ کو کیا خبر تھی، ورنہ تمہاری عیادت کی تقریب سے عورت مرد سارا سمدھیانا آیا تھا اور اس کے لے جانے کے لیے منتیں کرتے تھے۔
نصوح : جو کم بخت عورت خدا کی عزت و حرمت نہ رکھے، وہ دنیا کی ہر طرح کی بے عزتی اور بے حرمتی کی سزاوار ہے۔ جب اس کو خدا کا پاس نہیں، مجھ کو ہرگز ہرگز اس کا پاس محبت نہیں۔
فہمیدہ : میں کہتی ہوں شاید اب بھی یہ درست ہو جائے۔
نصوح : توبہ توبہ! اس کے دل میں مطلق نور ایمان نہیں۔ وہ توسرے سے خدا ہی کی قائل نہیں، پھر کیا درستی کی امید۔
فہمیدہ : سسرال بھیج دینا تو ٹھیک نہیں۔
نصوح : پھر مجھ سے کیا صلاح پوچھتی ہو، جو تمہارے جی میں آئے سو کرو۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کے ایسے خیالات ہوں اور میں اس کو اپنے گھر میں رہنے دوں۔ اور وہ رزق جو ہم کو خدائے تعالٰی اپنی مہربانی اور عنایت سے دیتا ہے، وہ شخص اس میں کیوں شریک ہو جو خدا ہی کو نہین مانتا۔
فہمیدہ : لیکن خدائے تعالٰی اپنا رزق کسی سے دریغ نہیں رکھتا۔ برے بھلے سب اس کے یہاں سے روزی پاتے ہیں۔
نصوح : میں اس کے رزق کا انسداد نہیں کرتا لیکن میں اپنے رزق میں منکر خدا کو شریک نہیں کرنا چاہتا۔
فہمیدہ : ایسی سختی سے گھر میں کوئی کاہے کو رہنے لگا۔
نصوح : میں اس گھر کی فکر میں ہوں جہاں مجھ کو ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا کا گھر چند روزہ گھر ہے۔ آج اجڑا تو اور کل اجڑا تو، ایک نہ ایک دن اجڑے گا ضرور۔ میرے آباد کرنے سے آباد رہ سکتا ہے۔
فہمیدہ : ہاں لیکن ایک مرے پیچھے اجڑنا اور ایک جیتے جی اجڑنا، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
نصوح : لیکن تم دل کی ایسی کچی تھیں تو تم نے ہامی کیوں بھری اور تمہارا یہ حال ہے تو واقع میں خاندان کی اصلاح ہو نہیں سکتی۔
فہمیدہ : کیا اولاد کے واسطے جی نہیں کُڑھتا۔ میں نے ان کو اسی دن کے واسطے پالا تھا کہ یہ بڑے ہو کر مجھے سے چھوٹ جائیں۔ بے شک مجھ سے تو اتنا صبر نہیں ہو سکتا۔
اتنا کہہ کر فہمیدہ کا جی بھر آیا اور وہ رونے لگی۔
(جاری ہے ۔۔۔)
نعیمہ : اب تم میرے مرنے کی فال نکالو۔
ماں : نہ کوئی کسی کی فال سے مرتا اور نہ کوئی کسی کی فال سے جیتا۔ جس کی جتنی خدا نے لکھ دی۔
نعیمہ : ورنہ تم مجھ کو کاہے کو جینے دیتیں۔
ماں : اتنا ہی اختیار رکھتی ہوتی تو تجھ کو آدمی ہی نہ بنا لیتی۔
نعیمہ : نوج تو کیا میں حیوان ہوں۔
ماں : جو خدا کو نہیں جانتا وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔
نعیمہ : اب تو ایک حمیدہ تمہارے نزدیک انسان ہے۔ باقی سب گدھے ہیں۔
ماں : حمیدہ کا تجھ کوکیا جلاپا پڑ گیا۔ تو اس کی جوتی کی برابری تو کر لے۔
نعیمہ : خدا کی شان، یہ اٹھک بیٹھک کر لینے سے حمیدہ کو ایسے بھاگ لگ گئے !
فہمیدہ دو مرتبہ بیٹی کو منع کر چکی تھی اور سمجھا دیا تھا کہ اگر پھر دین کی باتوں میں بے ادبانہ کلام کرے گی تو میں بے تامل منہ پر طمانچہ ماروں گی۔ اس مرتبہ جو نعیمہ نے نماز کو اٹھک بیٹھک کہا تو حرارت دین داری نے فہمیدہ کو بے اختیار کیا اور اس نے واقع میں جیسا کہا تھا، نعیمہ کے منہ پر ایک طمانچہ ایسے زور کا مارا کہ منہ ہی تو پھر گیا۔ طمانچے کا لگنا تھا کہ نعیمہ نے ایک آفت توڑ ماری۔ سب سے پہلے تو اس نے " دے دھواں دھواں ، دے دھواں دھواں" اپنے بے زبان معصوم بچے کو پیٹ ڈالا۔ اگر لوگ اس کی گود سے بچے کو نہ چھین لیں تو لڑکے کا خون ہی کر چکی تھی۔ اس کے بعد تو اس نے عجب عجب فیل مچائے۔ گھنٹوں تک تو پٹخیاں کھایا کی۔ کپڑوں کا ایک تار باقی نہ رکھا۔ نہیں معلوم اس کا سر تھا یا لوہے کا گولا تھا کہ ہزاروں دوہتھڑیں اس پر پڑیں، آدھے سے زیادہ کھسوٹ ڈالے، سینکڑوں ٹکریں دیواروں میں ماریں۔ حیرت ہے کہ وہ سر بچا تو کیونکر بچا۔ اس کے پاکھنڈ دیکھ کر سارا گھر تھرا اٹھا اور لوغ ڈرنے لگے کہ ایسا نہ ہو تھانے والے غل سن کر اندر گھس آئیں۔ بارے بہ مشکل پکڑ دھکڑ کر کوٹھڑی کے اندر دھکیل اوپر سے کنڈی لگا دی۔
نیچے گھر میں اتنا غل ہوا مگر بالا خانہ کچھ ایسا الگ سا تھا کہ نصوح کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ جب سلیم باپ سے باتیں کر کے نیچے اترا تو فہمیدہ اوپر گئی۔ اس وقت تک غیظ و غیضب اور رنج و تعجب کے آثار اس کے چہرے سے نمودار تھا۔ دور ہی سے نصوح نے پوچھا : " خیریت تو ہے؟"
فہمیدہ : اللہ تعالٰی خیریت ہی رکھے۔ کیوں تم نے کیا سمجھ کر پوچھا؟
نصوح : تمہارے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ ہونٹھ خشک ہو رہے ہیں۔ سر سے پاؤں تک کھڑی کانپ رہی ہو۔ آخر یہ سب بے سبب تو نہیں ہیں۔
فہمیدہ نہ نعیمہ کی اور اپنی تمام سرگزشت بیان کی۔ نصوح یہ ماجرا سن کر دم بہ خود ہو گیا۔ آدھے گھنٹے کے قریب دونوں میاں بیوی چپ سناٹے میں بیٹھے رہ گئے۔ آخر فہمیدہ نے کہا : " پھر اب کیا صلاح؟"
نصوح : صلاح یہی ہے کہ جو ہونی ہو سو ہو، اب نرمی اور لیعت نہیں کرنی چاہیے۔ معاذ اللہ ایسا برا عقیدہ! بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی اہل اسلام کے خاندان کی لڑکی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا اس کے نزدیک کوئی چیز نہیں۔ مجھ کو تو اس کے ساتھ کھانا حرام ہے۔ بڑی خیریت گزری کہ میں وہاں موجود نہ تھا ورنہ میرے روبرو ایسا کلمہ اس کے منہ نکلا ہوتا تو شاید میں تلوار کھینچ مارتا۔ ایسی اولاد کے ہونے سے نہ ہونا اچھا۔ بہتر ہو گا کہ ابھی پالکی منگا کر اس کو سسرال پہنچا دو۔
فہمیدہ : بھلا کیسی باتیں کہتے ہو۔ بے طلب بے تقریب بھیج دیں تو ایک تو پہلے ہی سے اس نے اپنی عزت کو خاک میں ملا رکھا ہے، رہی سہی اور بھی غارت ہو۔ مجھ کو کیا خبر تھی، ورنہ تمہاری عیادت کی تقریب سے عورت مرد سارا سمدھیانا آیا تھا اور اس کے لے جانے کے لیے منتیں کرتے تھے۔
نصوح : جو کم بخت عورت خدا کی عزت و حرمت نہ رکھے، وہ دنیا کی ہر طرح کی بے عزتی اور بے حرمتی کی سزاوار ہے۔ جب اس کو خدا کا پاس نہیں، مجھ کو ہرگز ہرگز اس کا پاس محبت نہیں۔
فہمیدہ : میں کہتی ہوں شاید اب بھی یہ درست ہو جائے۔
نصوح : توبہ توبہ! اس کے دل میں مطلق نور ایمان نہیں۔ وہ توسرے سے خدا ہی کی قائل نہیں، پھر کیا درستی کی امید۔
فہمیدہ : سسرال بھیج دینا تو ٹھیک نہیں۔
نصوح : پھر مجھ سے کیا صلاح پوچھتی ہو، جو تمہارے جی میں آئے سو کرو۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کے ایسے خیالات ہوں اور میں اس کو اپنے گھر میں رہنے دوں۔ اور وہ رزق جو ہم کو خدائے تعالٰی اپنی مہربانی اور عنایت سے دیتا ہے، وہ شخص اس میں کیوں شریک ہو جو خدا ہی کو نہین مانتا۔
فہمیدہ : لیکن خدائے تعالٰی اپنا رزق کسی سے دریغ نہیں رکھتا۔ برے بھلے سب اس کے یہاں سے روزی پاتے ہیں۔
نصوح : میں اس کے رزق کا انسداد نہیں کرتا لیکن میں اپنے رزق میں منکر خدا کو شریک نہیں کرنا چاہتا۔
فہمیدہ : ایسی سختی سے گھر میں کوئی کاہے کو رہنے لگا۔
نصوح : میں اس گھر کی فکر میں ہوں جہاں مجھ کو ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا کا گھر چند روزہ گھر ہے۔ آج اجڑا تو اور کل اجڑا تو، ایک نہ ایک دن اجڑے گا ضرور۔ میرے آباد کرنے سے آباد رہ سکتا ہے۔
فہمیدہ : ہاں لیکن ایک مرے پیچھے اجڑنا اور ایک جیتے جی اجڑنا، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
نصوح : لیکن تم دل کی ایسی کچی تھیں تو تم نے ہامی کیوں بھری اور تمہارا یہ حال ہے تو واقع میں خاندان کی اصلاح ہو نہیں سکتی۔
فہمیدہ : کیا اولاد کے واسطے جی نہیں کُڑھتا۔ میں نے ان کو اسی دن کے واسطے پالا تھا کہ یہ بڑے ہو کر مجھے سے چھوٹ جائیں۔ بے شک مجھ سے تو اتنا صبر نہیں ہو سکتا۔
اتنا کہہ کر فہمیدہ کا جی بھر آیا اور وہ رونے لگی۔
(جاری ہے ۔۔۔)