توبۃ النصوح 1- 25

ماوراء

محفلین
تبصرے، تجاویز کے لیے یہاں آئیں۔

توبۃ النصوح

از

ڈپٹی نذیر احمد دہلوی





دیباچہ



الٰہی، خلعت صفت پارچہ، خمسہ و عقل و روح سے سرفرازی دی ہے تو منصب ایمان داری بھی عطا کر کہ خطاب اشرف المخلوقات میری حالت کے مناسب ہو۔ خداوند اپنے حبیب کا امتی بنانے سے امتیاز بخشا ہے تو تقریب بھی نصیب کر کہ الطاف کریمانہ شفاعت اور عواطف خسروانہ رحمت کی مجھ کو قابلیت ہو۔
آدمی اگر اپنی حالت میں تامل صحیح کرے تو اس سے زیادہ عاجز و در ماندہ مبتلا کوئی مخلق نہیں۔

[POEM] گرت چشم خدا بینی بہ بخشذ
نہ بینی سچ کس عاجز تر از خویش[/POEM]

کلہم ساٹھ یا ستر توبہ اعتبار اوسط اس کی معیاد حیات اور اس کی مدت قیام و ثبات ہے۔ وہ بھی شروع سے آخر تک ہر لحظہ عرصہ، خطر، ہر لمحہ ہدف آفت۔ آدھی عمر تو سونے اور کاہل اور بے کار پڑے رہنے میں ضائع کر دیتا ہے۔ باقی بچے تیس یا پینتیس برس، اسی میں اس کی ظفولیت ہے اور اسی میں اس کی جوانی اور پیری، کم سے کم دس برس طفلی اور درماندگی، علالت و پیری کے بھی سمجھ لینے چاہیں۔ غرض ساری زندگی میں بیس یا پچیس برس کام کاج کے دن ہیں۔ مگر کتنے کام، کتنی ضرورتیں، کس قدر بکیھڑے، کتنے مخمصے، خدا کی پرستش، مذہب کی تلاش، کسب کمال، فکر معاش، بزرگوں کی خدمت، اولاد کی تربیت، بیماروں کی عیادت، احباب کی زیارت، تقریبات کی شرکت، شہروں کی سیر، ملکوں کی سیاحت، مردوں کا رونا، جدائی کا ماتم، مولد کی خوشی، ملاقات کی فرحت، فع مضرت، جلب منفعت، گزشتہ کا احتساب، آئندہ کا انتظام، مسرت بے ہودہ، ہوس نام و نمود، تاسف نقصان، حسرت زیان، تلافی مافات، پیش بینی ماھوات، دوستوں سے ارتباط، دشمنوں سے احتیاط، آبرو کا حفظ، ناموس کا پاس، مال کی نگہداشت، محاصل کا احراز۔

ِ
 

ماوراء

محفلین
[poem]زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے[/poem]

اس ضیق فرصت پر کاموں کا اتنا ہجوم، یعنی فراغ دل مفقود و اطمینان کاطر معدوم۔

[poem]فکر معاش، ذکر خدا، یاد رفتگان!
دو دن کی زندگی میں بھلا کوئی کیا کرے[/poem]

ایک عقل اور دنیا بھر کی ذمہ داری۔ سچ کہا ہے:

یک عشق و ہزار گونہ خواری

اناعرضناالامانتہ علی السموات والارض والجبال قابین ان یحملنھا اشفقن مھا و حملھا الانس ان انہ کان ظلوما جھولاط اس کتاب میں انسان کے اس فرض کا مزکور ہے جو تربیت اولاد کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب کے تصنیف کرنے کا مقصود اصلی یہ ہے کہ اس فرض کے بارے میں جو غلط فہمی عموماً لوگوں سے واقع ہو رہی ہے اور اس کی اصلاح ہو، اور ان کے زہن نشین کر دیا جائے کہ تربیت اولاد صرف اسی کا نام نہیں کہ پال پوس کر اولاد کو بڑا کر دیا، روٹی کمانے کھانے کا کوئی ہنر ان کو سکھا دیا، ان کا بیاہ برات کر دیا، بلکہ ان کے اخلاق کی تہذیب، ان کے مزاج کی اصلاح، ان کی عادات کی درستی، ان کے خیالات اور معتقدات کی تصحیح بھی ماں باپ پر فرض ہے۔ افسوس ہے کہ کتنے لوگ اس فرض سے غافل ہیں۔ کوئی شخص تربیت اولاد کے فرض کو پورا پورا ادا نہیں کر سکتا، تاوقتیکہ وہ خود اپنی شائستگی کا نمونہ ان کو نہیں دکھاتا اور اولاد کے ساتھ اپنا برتاؤ محتسبانہ طور پر نہیں رکھتا۔ پرلے درجے کی بےوقوفی ہے، اولاد کو اپنے کردار ناسزا کی بری مثالیں دکھانا اور ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ لوگ بڑے ہو کر زبانی پند یا کتابی نصیحت پر کار بند ہو کر صالح اور نیک وضع ہوں گے۔ بہت لوگ اولاد کے ساتھ غایت درجے کی شیفتگی پیدا کر لیتے ہیں اور بہ مصداق "حبک الشی یعمی و بصم" اولاد کے عیوب پر آگہی نہیں ہوتی اور ہوتی بھی ہے تو عیب کو عیب سمجھ کر نہیں، بلکہ مقتضائے عمر یا نتیجہ ذہانت یا دوسرے طور پر اس کی تاویل کر کے ان کی خرابیوں سے درگزر اور چشم پوشی کیا کرتے ہیں۔
اس کتاب میں یہ خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ اس طرح کی غلطیوں پر لوگوں کو تنبیہہ ہو۔ یہ کتاب لوگوں کو اس بات کا اچھی طرح یقین کرا دے گی کہ تربیت اولاد ایک فرض موقف ہے، یعنی لڑکے جب تک کم سن ہیں تربیت پذیر ہیں اور بڑے ہوئے پیچھے ان کی اصلاح مشکل یا متعذر بلکہ محال ہو جاتی ہے۔
ارادہ یہی تھا کہ بلا تخصیص مذہب، تلقین حسن معاشرت اور تعلیم نیک کرداری اور اخلاق کی ضرورت لوگوں پر ثابت کی جائے، لیکن نیکی کو مذہب سے جدا کرنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص روح کو جسد سے یا بو کو گل سے یا نور کو آفتاب یا عرض کو جوہر سے یا ناخن کو گوشت سے علیحدہ اور منفک کرنے کا قصد کرے۔ انتظام مذہب ایک امر ناگزیر ہے، اور ادھر اختلاف مذہب جو اس ملک میں اس کثرت سے پھیلا ہوا ہے کہ گویا ہر کوڑی آدمی ایک جدا مذہب رکھتے ہیں، ہر شخص آنکھیں دکھا رہا ہے۔ لوگوں میں بلا کا تعصب آ گیا ہے کہ کیسی ہی اچھی بات کیوں نہ کی جائے، دوسرے مذہب والے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ جعلو اصابعھم فی اذانھم مضمون جس کو میں نے ایک فرضی قصے اور بات چیت کے طرز پر لکھا ہے، مذہبی پیرائے سے تو خالی نہیں اور خالی ہونا ممکن نہ تھا، لیکن تمام کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دوسرے مذہب والوں کی دل شکنی اور نفرت کا موجب ہو۔ بلکہ جہاں جہاں ضرورت مذہبی کا تذکرہ آ گیا ہے وہ ایسے طور کا ہے کہ دوسرے مذہب والے بھی اس طرح عقیدے رکھتے ہیں۔ صرف اصطلاح و عبادت کا تفرقہ ہے۔ ولا مشاحتہ فی الاصلاح۔ مثلاً مسلمانوں کا روزہ، ہندوؤں کا برت۔ مسلمانوں کی زکٰوۃ، ہندوؤں کا دان پن و قس علٰی ہذا۔ پس یہ قصہ اگرچہ ایک مسلمان خاندان کا ہے مگر بہ تغیر الفاظ ہندو خاندان بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
خاندان جو فرض کیا گیا ہے، اس میں دو میاں بیوی ہیں، تین بیٹے اور تین بیٹیاں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی تو پکی عمر کے ہیں اور بیاھے جا چکے ہیں، اور لا جرم ان کی عادتیں راسخ، ان کی خصلتیں کا لطیفہ ہیں۔ منجھلا بیٹا، اگرچہ عمر اس کا بھی کم نہیں ہے لیکن اس نے مدرسے میں تلیم پائی ہے اور وہ صرف، صرف توجہ کا محتاج ہے، جیسے گھوڑا کہ بے راہ چلا جا رہا ہے، اس میں رفتار پیدا کرنے کی ضرورت نہیں، فقط باگ کا موڑ دینا کافی ہے۔ منجھلی لڑکی کم سن ہے۔ وہ عمر کے اس درجے میں ہے جب کہ بچوں کی قوت تفتیش و تلاش بہت تیز ہوتی ہے، اور نقل کرنے کی امنگ برسر ترقی ہوتی ہے۔ وہ بھولے پن سے اس طرح کے سوالات کرتی ہے اور سادہ دلی سے ایسی ایسی باتیں پوچھتی ہے کہ ماں قائل ہو جاتی ہے۔ جس طرح پر اس خاندان کے لوگ زندگی بسر کرتے ہوئے فرض کئے گئے ہیں، وہ ایک سچا بلا تصنع نمونہ ہے جو اس زمانے کے ہر ایک خاندان مداعی شرافت کے طرز ماند وبود کا فرض کیا گیا ہے۔
رئیس البیت یعنی خاندان کا سرگروہ جس کا نام نصوح ہے، ایک وبائی ہیضے میں مبتلا ہوا اور اس کی حالت اس قدر ردی ہوتی گئی کہ اس کو اپنے مرنے کا تیقن کرنا پڑا اور چونکہ اسی وباء میں چند روز پہلے اسی گھر کے تین آدمی مر چکے تھے اور شہر میں موت کی گرم بازاری تھی تو ایسی حالت میں نصوح کا اپنی نسبت تیقن ایک معمولی بلکہ ضروری بات ہے۔ نصوح کو ڈاکٹر نے جو اس کا معالج تھا، خواب آور دوا دی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ : 6 - 8

وہ سو گیا اور اس کے اگلے پچھلے خیالات ایک خواب بن کر اس کے سامنے آ موجود ہوئے۔ خواب جو نصوح نے دیکھا تمام قصہ کی جان ہے۔ حشر اور اعمال نامہ اور حساب قبر کی تکلیف اور دوزخ کا عذاب یعنیی قیامت کے حالات جن کا وہ مذہب اسلام کے مطابق معتقد تھا، خواب میں اس کو واقعات نفس الامری دکھائی دئیے۔ جاگا تو خائف و ہراساں، بیدار ہوا تو ترساں ولرزاں۔ خوف کا نتیجہ و ہراس کا اثر جو نصوح پر مترتب ہوا قصے کے پڑھنے سے ظاہر ہو گا۔ اس نے نہ صرف اپنے نفس کی اصلاح کی بلکہ سارے خاندان کی اصلاح کو اپنے ذمے فرض و واجب سمجھا۔ چونکہ خاندان کے سب چھوٹے بڑے اس طرز جدید سے نا آشنا تھے، کنفس واحدہ نصوح کے مقابلے پر کمر بستہ ہو گئے اور اس کو بڑی بڑی دقتیں پیش آئیں۔ چوں کہ نصوح کے ارادے میں استحکام تھا اور وہ حق کی جانب داری کرتا تھا، وہ غالب ایا، مگر مشکل سے، اس کو ظفر ہو، مگر دشواری سے۔ اولاد میں جو جتنا عمر رسیدہ تھا اسی قدر عسیرالانقیاد تھا۔
تربیت اولاد، جس پر یہ کتاب لکھی گئی، ایک شعبہ ہے اس عام انسانی ہمدردی اور نفع رسانی کا جوہر فرد بشر پر، اس کی استطاعت کی قدر واجب ہے۔ اس خصوص میں جتنی غفلت اور بے پروائی ہمارے ہم وطنوں سے ہوتی ہے، اصلی بات اس ملک کے تنزل کا ہے۔ لوگ مضمون ہم دردی سے اس قدر ناواقف ہیں کہ اس خصوص میں ان کو بچوں کی طرح تعلیم کی حاجت ہے۔ یہ کتاب اس تعلیم کی ابجد ہے۔ اس واسطے کہ ایک انگریزی مثل کے مطابق، خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے، اگر اولاد اور خاندان کی اصلاح انسان کے ذمے واجب ہے تو ضرور ان لوگوں کی اصلاح کا بھی وہ ذمہ دار ہے جو بہ تعلق خدمت اس کی نگرانی و حکومت میں ہیں۔ پھر خدم و عبید کے بعد “الاقرب فالا قرب“ کے لحاظ سے ہمسائے، پھر اہل محلہ، پھر ہم وطن اور ہم ملک، پھر مطلق ابنائے جنس۔

[poem]بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ در آفرنیژ زیک جوہر اند[/poem]

غرض ہمدردی کا ایک بڑا وسیع مضمون ہے۔ مگر بالفعل اس کے ابتدائی اور ضروری حصے سے آغاز کیا گیا ہے۔

واللہ ولی اللتوفیق



فصل اوّل

[poem]ایک برس دھلی میں ہیضے کی بڑی سخت وبا آئی۔
نصوح نے ہیضہ کیا اور سمجھا کہ مرا چاہتا ہے۔
یاس کے عالم میں اس کو مواخذہ عاقبت کا تصور بندھا۔
ڈاکٹر نے اس کو خواب آور دوا دی تھی۔ سو گیا تو وہی
تصور اس کو خوابِ موحش بن کر نظر آیا[/poem]

اب سے دور ایک سال دہلی میں ہیضے کا اتنا زور ہوا کہ ایک حکیم بقاکے کوچے سے ہر روز تیس تیس چالیس چالیس آدمی بھیجنے لگے۔ ایک بازار موت تو البتہ گرم تھا، ورنہ جدھر جاؤ سناٹا اور ویرانی، جس طرف نگاہ کرو وحشت و پریشانی۔ جن بازاروں میں آدھی آدھی رات تک کھوے سے کھوا چھلتا تھا ایسے اجڑے پڑے تھے کہ دن دوپہر کو بھی جاتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ کٹوروں کی جھنکار موقوف، سودے والوں کی پکار بند۔ ملنا جلنا، اختلاط و ملاقات، آمد و شد، بیمار پرسی و عبادت، باز دید زیارت، مہمان داری و ضیافت کی کل رسمیں لوگوں نے اٹھا دیں۔ ہر شخص اپنی حالت میں مبتلا، مصیبت میں گرفتار، زندگی سے مایوس۔ کہنے کو زندہ پر مردہ سے بدتر۔ دل میں ہمت نہ ہاتھ پاؤں میں سکت۔ یا تو گھر میں اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پر رہا یا کسی تیماداری کی یا کسی یار آشنا کا مرنا یاد کر کے کچھ رو پیٹ لیا۔ مرگِ مفاجات حقیقت میں انہیں دنوں کی موت تھی، نہ سان نہ گمان، اچھےے خاصے چلتے پھرتے، یکایک طبیعت نا مالش کی، پہلی ہی کلی میں حواس خمسہ مختل ہو گئے۔ الا ماشاء اللہ کوئی جزئی بچ گیا تو بچ گیا، ورنہ جی متلانا اور قضائے مبرم کا آ جانا۔ پھر وصیت کرنے تک کی مہلت نہ تھی۔ ایک پاؤ گھنٹے میں تو بیماری، دوا، دعا جان کنی اور مرنا سب ہو چکتا تھا۔
غرض کچھ اس طرح کی عالم گیروبا تھی کہ گھر گھر اس کا رونا پڑا تھا۔ دو پونے دو مہینے کے قریب وہ آفت شہر میں رہی مگر اتنے ہی دنوں میں شہر کچھ ادھیا سا گیا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 9

صد ہا عورتیں بیوہ ہو گئیں، ہزاروں بچے یتیم بن گئے۔ جس سے پوچھو شکایت، جس سے سنو فریاد۔ مگر ایک نصوح جس کا قصہ ہم اس کتاب میں لکھنے والے ہیں کہ عالم شاکی تھا، اور وہ اکیلا شکرگزار۔ دنیا فریادی تھی اور وہ تنہا مداح۔
نہ اس سبب سے کہ اس کو اس آفت سے گزند نہیں پہنچا۔ خود اس گھر میں بھی اکھٹے تین آدمی اس وبا میں تلف ہوئے۔ اچھی خاصی طرح گھر بھر رات کو سو کر اٹھے۔ نصؤح نماز صبح کی نیت باندھ چکا تھا۔ باپ بیٹے وضو کر رہے تھے۔ مسواک کرتے کرتے ابکائی آئی۔ ابھی نصوح دوگانہ فرض ادا نہیں کر چکا تھا، سلام پھیر کر کیا دیکھتا ہے کہ باپ نے قضا کی۔ ان کو مٹی دے کر آیا تو رشتے کی ایک خالی تھی، ان کو جاں بحق پایا۔ تیسرے دن گھر کی ماما رخصت ہوئیں۔ مگر نصوح کی شکر گزاری کا کچھ اور ہی سبب تھا۔ اس کا مقولہ یہ تھا کہ ان دنوں لوگوں کی طبیعتیں بہت کچھ درستی پر آ گئی تھیں۔ دلوں میں رقت و انکسار کی وہ کیفیت تھی کہ عمر بھر کی ریاضت سے پیدا ہونی دشوار ہے۔ غفلت کو ایسا کاری تازیانہ لگا تھا کہ ہر شخص اپنے فرائض مذہبی کے ادا کرنے سے سرگرم تھا۔ جن لوگوں نے رمضان میں بھی نماز نہیں پڑھی تھی، وہ بھی پانچوں وقت سب سے پہلے مسجد آ موجود ہوتے تھے۔ جنہوں نے کبھی بھول کر سجدہ نہیں کیا تھا، ان کا اشراق و تہجد تک بھی قضا نہیں ہونے پاتا تھا۔ دنیا کی بے ثباتی، تعلقات زندگی کی ناپئداری، سب کے دل پر منقش تھی۔ لوگوں کے سینے صلح کاری کے نور سے معمور تھے۔ غرض ان دنوں کی زندگی اس پاکیزہ اور مقدس اور بے لوث زندگی کا نمونہ تھی، جو نہ مذہب تعلیم کرتا ہے۔
نصوح یوں بھی دل کا کچا تھا۔ جب اس نے اول اول ننانوے کی گرم بازاری سنی تو سرد ہو گیا اور رنگت زرد پڑ گئی۔ بہ اسباب ظاہری جو تدبیریں انسداد کی تھیں سب کیں۔ مکان میں نئی قلعی پھروا دی۔
 

حسن علوی

محفلین
10-11

پاس پڑوس والوں کو صفائی کی تاکید کی۔ گھر کے کونوں‌میں لبان دھونی دے دی۔ طاقوں میں کافور رکھوا دیا۔ جابجا کوئلہ رکھوا دیا۔ باورچی سے کہہ دیا کہ کھانے میں نمک تیز رہا کرے۔ پیاز اور سرکہ دونوں وقت دسترخوان پر آیا کرے۔ گلاب، نارجیل دریائی، بادیان، تمر ہندی، سکنجبین وغیرہ وغیرہ جو جو دوائیں یونانی طبیب اس مرض میں استعمال کرتے ہیں، تھوڑی تھوڑی سب بہم پہنچا لیں۔ نصوح نے یہاں تک اہتمام کیا کہ انگریزی دوائیاں بھی فراہم کیں۔ کالر اپل کی گولیاں تو وہیں کوتوالی سے لے لیں۔ کالر اٹنکچر الہ آباد میڈیکل ہال سے روپیہ بھیج کو منگوا کر رکھا۔ آگے سےایک دوست کی معرفت کلوروڈائن کی دو شیشیاں خرید لیں۔ ایک اخبار میں لکھا دیکھا کہ بنارس میں ایک بنگالی حکیم علاج کرتا ھے، اور اس کی دوا بھی طلب کی۔ نصوح کو ایک وجہ تسلی یہ تھی کہ ایک طبیب حاذق اسی کے ہمسائے میں‌رہتا تھا۔

گورو سیاہ ہیضے کے توڑ کے واسطے اتنا سامان وافر موجود تھا، مگر آخر نصوح کا گھر بھی فرشتوں‌ کی نظر سے نہ بچا۔ باپ کی اجل آئی تو دوائیں رکھی ہی رہیں۔ دینے اور پلانے کی نوبت بھی نہ پہنچی کہ بڑے میاں سبکیاں لینے لگے۔ وہ رشتے کی خالہ تھوڑی دیر سنبھلی تھیں۔ لیکن وہ کچھ ایسی زندگی سے سیر تھیں کہ انہوں نے خود خبر کرنے میں‌دیر کی۔ غرض دوا ان کو بھی نصیب نہ ہوئی۔ ماما نے البتہ انگریزی یونانی سب طرح کی دوائیں ڈھکوسیں۔ مگر اس کی عمر ختم ہو چکی تھی۔ اول اول نصوح کو اپنی احتیاط پر کچھ یوں ہی سا تکیہ ہوا تھا، مگر جب وبا کا بہت زور ہوا اور اس کے گھر میں تابڑ توڑ ایک چھوڑ تین موتیں ہو گئیں، تو نا چار تن بہ تقدیر صبر و شکر کر کے بیٹھ رہا۔
غرض پورا ایک چلہ شہر پر سختی اور مصیبت کا گزرا۔ نہیں معلوم کتنے گھر غارت ہوئے، کس قدر خاندان تباہی میں‌آ گئے، یہاں تک کہ نواب عمدہ الملک نے ہیضہ کیا۔ کوئی دو تین گھڑی دن چڑھتے چڑھتے شہر میں‌یہ خبر مشہور ہوئی اور نماز جمعہ کے بعد دیکھتے ہیں جنازہ جامع مسجد کے صحن میں‌رکھا ھے۔ یوں تو ہزار ہا آدمی شہر میں تلف ہوئے مگر عمدہ الملک کی موت سب پر بھاری تھی۔ اول تو ان کی ٹکر کا شہر میں‌کوئی رئیس نہ تھا، دوسرے ان کی ذات سے غریبوں کو بہت کچھ فائدہ پہنچا تھا۔ گو ان کے مرنے کا گھر ماتم تھا، لیکن لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ بس اب خدا نے ٹھنڈک ڈالی، کیوں کہ معتقدات عوام میں یہ بھی ھے کہ وبا بےکسی بڑے رئیس کے بھینٹ لیئے نہیں جاتی۔ خیر لوگوں نے کچھ سمجھا ہو، یوں بھی شورش بہت کچھ فرو ہو چکی تھی اور امن و امان ہو جاتا تھا۔ لوگوں نے دکانیں بھی کھولنی شروع کر دیں اور دنیا کا کاروبار پھر جاری ہو چلا۔

انہی دنوں نصوح نے اپنی بیوی سے کہا کہ دو مہینے سے چاولوں کو ترس گئے۔ اب خدا نے اپنا فضل کیا۔ آج زردہ پکواؤ، مگر تاکید کرنا چاول کھڑے نہ رہین۔ شام کو زردہ پکا اور گھر کے چھوٹے بڑے سب نے کھایا اور حسبِ عادت سو رہے۔ کوئی پہر رات باقی رہی ہوگی کہ دفعتہً نصوح کی آنکھ کھل گئی۔ جاگا تو پیٹ میٰں‌آگ پھنکی ہوئی تھی۔ اٹھتے اٹھتے طبیعت نے کئی مرتبہ مالش کی۔ اس نے ننگے سر جلدی سے صحن میں نکل کر ٹہلنا شروع کیا۔ خوب کس کے دونوں بازو باندھے۔ گلے میں توے کی سیاہی تھوپی۔ عطر کا پھویا ناک میں رکھا اور طبیعت کو دوسری طرح مصروف کیا۔ مگر معلوم ہوتا تھا کہ حلق تک کوئی چیز بھری ہوئی ہے۔ بہتیرا ضبط کیا، بہتیرا ٹالا، آخر بڑے زور سے استفراغ ہوا۔ گھر والے سب جاگ اٹھے۔ نصوح کو اس حالت میں‌بیٹھے ہوئے دیکھ کر سب کے کلیجے دھک سے رہ گئے۔ کوئی پانی اور بیسن لے کر دوڑا۔ کوئی الائچی ڈال پان بنا پاس آ کھڑا ہوا۔ کوئی پنکھا جھلنے لگا۔ نصوح کو تو لا کر چارپائی پر لٹا دیا اور اب سب لوگ لگے اپنی اپنی تجویزیں کرنے۔
 

حسن علوی

محفلین
12-13

کسی نے کہا خیریت ہے غذا تھی۔ کوئی بولا زردے میں گھی بُرا تھا۔ کوئی کہنے لگا کھر چن کا فساد ہے۔ غرض یہ صلاح ہوئی کہ ہیضہ وبائی نہیں ہے۔ گلاب اور سونف کا عرق دیا جائے اور گھبرانے کی بات نہیں۔ صبح تک طبیعت صاف ہو جائے گی۔

یر یہ تو تیمارداروں کا حال تھا۔ نصوح اگرچہ تکان کی وجہ سے مضحمل ہو گیا تھا، مگر ہوش و حواس سب خدا کے فضل سے برجا تھے۔ سب کی صلاحیں اور تجویزیں سنتا تھا اور دوا جو لوگ پلاتے تھے پی لیتا تھا، لیکن استفراغ ہونے کے ساتھ ہی اس نے کہہ دیا تھا کہ لو صاحب خدا حافظ، ہم بھی رخصت ہوتے ہیں۔ استفراغ امتلائی مجھ کو بارہا ہوئے ہیں مگر کچھ میرا جی اندر سے بیٹھا جا تا ھے اور ہاتھوں میں سنسنی سی چلی آ رہی ھے۔ اتنا کہنے کے بعد تو نصوح دوسری ہی ادھیڑ بن میں لگ گیا اور سمجھا کہ بس اب دنیا سے چلا۔ صبح ہوتے ہوتے روایت کے کل آثار پیدا ہو گئے۔ برداطراف، تشنج و ضعف، متلی، اسہال، تشنگی، ہر ایک کیفیت اشتداد پر تھی۔ منہ اندھیرے آدمی حکیم کے پاس دوڑا گیا۔ حکیم صاحب خود خفقائی المزاج، ہیضے کے نام سے کوسوں بھاگتے تھے۔ مگر ہمسائیگی، مدت کی راہ و رسم، طوعاً و وکرہاً آئے اور کھڑے کھڑے چھدا سا اتار کر چلے گئے۔ بیماری میں تو بولنے اور بات کرنے کی بھی طاقت نہ تھی۔ ایک پہر ہی بھر کی بیماری میں چارپائی سے لگ گیا تھا۔ عورتوں نے پردے میں سے جہاں تک اس گھبراہٹ میں‌ زبان نے یاری دی، کہا۔ لیکن حکیم صاحب یہی کہے چلے گئے کہ برف کے پانی میں نارجیل دریائی گھس گھس کر پلائے جاؤ۔

تیمارداروں کو ایسی سرسری اور رواداری کی تحقیق سے کیا خاک تسلی ہوتی۔ فوراً آدمی کو شفاخانے دوڑایا اور دوا لیئے صدا کی طرح آ موجود ہوا۔ اوپر تلے چار پڑیاں تو اس نے اپنے سامنے پلائیں۔ چلتے ہوئے ایک عرق دیتا گیا کہ پاؤ گھنے میں پلا کر مریض کو علیحدہ مکان میں اکیلا لٹا دینا۔ کوئی آدمی اس کے پاس نہ رہے تاکہ اس کو نیند آ جائے۔ اگر سو گیا تو جاننا کہ بچ گیا۔ فوراً ہم کو خبر دینا۔
ڈاکٹر کے حکم کے طابق نصوح کو اکیلے دالان میں سلا کر لوگ ادھر اُدھر ٹل گئے۔ مگر دبے پاؤں، آکر دیکھ ایکھ جاتے تھے۔ نصوح کے دل کی جو کیفیت تھی وہ البتہ عبرت انگیز تھی۔ یہ کچھ تو بیماری کا اشتداد ہوا۔ مگر ہوش و ہواس سب بدستور تھے۔ وہ اپنے خیال میں‌ ڈوبا ہوا تھا، لوگ جانتے تھے کہ غش میں پڑا ہے۔ ابتدا میں نصوح بھی اپنی نسبت مرنے کا تصور کرنے سے گریز کرتا تھا اور انہیں چاہتا تھا کہ اپنے تئیں مرنے والا سمجھے، بلکہ جو لوگ اس کی علالت کو سؤ ہضم اور امتلا کی وجہ سے تجوز کرتے تھے، دل میں ان کی رائے کی تحسین کرتا تھا۔ لیکن افسوس یہ مسرت نصوح کو بہت ہی ذرا سی دیر تک نصیب ہوئی۔ دم بہ دم اس کی حالت ایسی ردی ہوتی جا رہی تھی کہ زندگی کے تمام تر احتمالات ضعیف تھے۔ آخر چار و نا چار اس کو سمجھنا پڑا کہ اب دنیا میں چند ساعت کا مہمان اور ہوں۔ اذعان مرگ کے ساتھ پہلا قلق اس کو دنیا کی مفارقت کا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مرنا وہ سفر ہے جس کا انقطاع نہیں، وہ جدائی ہے کہ جس کے بعد وصال نہیں، وہ گمشدگی ہے جس کی کبھی بازیافت نہیں، وہ غشی ہے جس سے افاقہ نہیں، وہ بےگانگی ہے جس کے پیچھے کچھ تعلق نہیں۔ کبھی وہ بیوی بچوں کو دیکھ کر روتا اور کبھی سازو سامانِ دنیا پر نظر کر کے سر کو دھنتا اور کہتا:


حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد


جس جس پہلو سے غور کرتا، اس کو اپنا مرنا بے وقت معلوم ہوتا تھا۔ بیوی کو دیکھ کر اپنے جی میں‌ سوچتا تھا کہ بھلا کوئی اس کی عمر بیوہ ہونے کی ہے۔ نہ تو کوئی اس کے میکے میں اتنا ہے اس کا متکفل ہو، نہ بیٹوں میں کوئی اس قابل ہے کہ گھر کو سنبھال لے۔ اندوختہ جو ہے سو واجبی ہی واجبی ہے۔
 

حسن علوی

محفلین
14

کب تک اکتفا کرے گا۔ دونا کد خدا بیٹیاں‌ اس کے آگے ہیں۔ کچا ساتھ خالی ہاتھ، بچوں‌ کی پرورش، کہیں سے کوڑی کی آمد کا آسرا نہیں۔ کیا ہوگا اور کیوں کر یہ پہاڑ زندگی اس کے کاٹے کٹے گی۔ بڑا لڑکا تو پہلے ہی گویا ہاتھ سے جا چکا ہے۔رہا منجھلا، امسال انٹرنس پاس کرنے کو تھا اور امید تھی یہ کچھ ہوگا مگر اب وہ تمام منصوبہ بھی غلط ہوا چاہتا ہے۔ میری آنکھ بند ہوئی تو کیسا پڑھنا اور کس کا امتحان۔ یہ دو لڑکیوں کا فرض کیسے میں اپنی گردن پر لے چلا۔ بڑی کی نسبت کن کن مصیبتوں سے ٹھہری تھی اور جب میرے رہتے یہ دقت تھی تو اب ان بچیوں کا دیکھیئے کیا ہو۔ پیش بینی اور مال اندیشی کر کے پارسال گاؤں‌لیا تھا۔ ابھی تک پٹی داروں نے اس میں اچھی طرح تسلط نہیں بیٹھنے دیا۔ اب جو چالیس پچاس بیگھ سیر کر کے نیل بولیا ہے وہ سب گیا گزرا ہوا۔ گودام پر جو روپیہ لگا دیا تھا وہ بھی ڈوبا۔ رہنے کے مکان میں کس قدر تنگی سے بسر ہوتی ہے۔ کوئی مہمان آ نکلتا ہے تو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ شمال رویہ دالان در دالان بنوانے کا ارادہ تھا۔ ڈیرہ دون لکڑی کا روپیہ بھیج چکا ہوں، وہ نہیں آئی۔ پزاوے والوں کو اینٹوں کی دادنی دی تھی، وہ نہیں پٹی۔ افسوس کہ موت نے مجھے مہلت نہ دی۔ لوگوں کا لینا دینا، حساب کتاب، بڑے بکھیڑے ہیں۔ آج سمجھانے بیٹھوں تو مہینوں میں‌ جا کر طے ہوں‌ تو ہوں۔ اجل سر آ پہنچی۔ تمام لینا لوانا مارا پڑا۔ اے کاش کچھ نہیں تو میں دس بارہ برس ہی اور جی جاتا تو یہی سب انتظام اپنی خواوہی کے مطابق درست کر لیتا۔ بال بچے بھ ذرا اور سیانے ہو جاتے، کھانے کمانے لگتے۔ ادھر ان کی شادی بیاہ کر چکتا۔ گاؤں کا معاملہ بھی روبراہ ہو جاتا، مکان کو اپنے طور پر بنا لیتا، لوگوں کا حساب کتاب سب صاف کر دیتا، گھر والی کے واسطے کچھ ذخیرہ وافی فراہم کر جاتا، تب فراغت سے مرتا۔ کیا مرنے میں مجھ کو کچھ عذر یا خدانخواستہ کسی طرح کا انکار تھا، یا میں‌ اتنی ذرا سی بات نہیں سمجھتا کہ دنیا میں آکر مرنا ضرور ہے۔
 

حسن علوی

محفلین
15

مگر ہر چیز ایک وقت مناسب پر ٹھیک ہوتی ہے۔ یہ بھی کوئی مرنا ہے کہ ہر ایک کام کو ادھورا، ہر ایک انتظام کو ناقص و ناتمام چھوڑ کر چلا جاؤں۔ ایسا بے ہنگام مرنا نہ صرف میرے لیئے بلکہ میرے تمام متعلقین اور وابستگان کے لیئے موجبِ زیاں اور باعثِ نقصان ہے۔


اگرچہ نصوح بہ نظر ظاہر ایک آزاد اور بےگانہ وار زندگی بسر کرتا تھا۔ نہ تو ہر وقت گھر میں گھسے رہنے کی اس کو خو تھی، نہ بال بچوں ہی سے کچھ بہت اختلاط کرنے کی عادت۔ انتظامِ خانہ داری میں بھی بی بی کے تقاضے اور اصرار سے بہ قدرِ ضرورت کچھ دخل دیاتو دیا، ورنہ اس کو بھی چنداں پرواہ نہ تھی اور یہی سبب تھا کہ جب بھی سننے کا اتفاق ہوتا کہ فلاں شخص نے بڑی حسرت کے ساتھ جان دےدی، تو نصوح کو تعجب ہوتا اور کہتا کہ خدا کی شان ہے، ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ دنیا سے نکلنے کو ان کا جی ہی نہیں چاہتا۔ نہیں معلوم کہ دنیا کی کونسی ادا ان کو پسند ہوتی ہے، ورنہ استغفراللہ، یہ دارالمحسن انسان کے رہنے کے لائق ہے؟ صدھا بکھیڑے، ہزارہا مخمصے، روز کے جھگڑے، آئے دن کی مصیبت۔ سچ ہے، خدا تعالٰی کا کوئی فعل حکمت اور بندوں کی مصلحت سے خالی نہیں‌۔ ظاہر میں تو موت سب کو بری معلوم ہوتی ہے اور اس سے لوگ ایسے ڈرتے ہیں جیسے مجرم سزا سے، لیکن غور کرکے دیکھو تو مرنا بھی ایک نعمت ہے۔ انسان کی طبیعت تازگی پسند واقع ہوئی ہے۔ جہاں ایک حالت سال ہا سال رہی، گو وہ حالت کیسی ہی عمدہ اور پسندیدہ کیوں نہ ہو، خواہ مخواہ آدمی اس سے ملول ہو جاتا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہمراہی من و سلوا کھاتے کھاتے ایسے اکتائے کہ آخر کو ان کے دل لہسن و پیاز پر للچائے۔ اگر دنیا میں‌موت نہ ہوتی تو آدمی کنوؤں میں کود کود کر اور درختوں سے گر گر کر جان دیتے اور حیات دراز کو عذاب مقیم سمجھتے۔ میرے دل کی تو یہ کیفیت ہے کہ مجھ کو یہاں سے چلے جانے کی مطلق پرواہ نہیں اور کسی چیز کو میں نہیں سمجھتا کہ مجھ کو اس کی مفارقت کا قلق ہو۔ لیکن بڑا فرق ہے، فرض اور واقعات میں۔
 

حسن علوی

محفلین
16-17

یہ بھی نصوح کے نفس کا مکر تھا کہ وہ اپنے تئیں دنیا سے بے تعلق اور اپنی زندگی کو بے ھمہ و باھمہ سمجھتا تھا۔ جب تک وہ دوسروں کو مرتا دیکھتا تھا اپنے تئیں مرنے پر دلیر پاتا تھا۔ لیکن جب خود اپنے سر پر آن بنی تو سب سے زیادہ بودا نکلا۔ وہ اپنے تعلقات سے واقع میں اب تک بےخبر تھا۔ جب موت سامنے آ موجود ہوئی اور چلنا ٹھہر گیا تو حقیقت کھیل کہ ادھر زن و فرزند کا فریفتہ ہے اُدھر مال و متاع کا دل دادہ۔ اتنا بڑا تو سفر اس کو درپیش، مگر بار علائق کی وجہ سے پہلے ہی قدم پر اس کے پاؤں ہزار ہزار من کے ہو رہے تھے۔ ریل کی سیٹی بج چکی تھی، مگر یہ ابھی اسٹیشن کے باہر اسباب سنبھالنے میں مصروف تھا۔ اگر اسی حالت میں، کہ اس کی روح تعلقات دینوی میں ڈانوا ڈول بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی، کہیں خدانخواستہ اس کی جان نکل جاتی تو بس دونوں جہان سے گیا گزرا تھا۔ ازیں سُو راندہ و ازیں سُو درماندہ۔ مگر خدا نے بڑا ہی فضل کیا کہ ناامیدی نے اس کی ہمت بندھائی اور اپنے دل میں سوچا کہ چلنا تو اب ٹلتا نہیں، پھر قلق سے فائدہ اور اضطراب سے حاصل۔ مرتا ہوں تو مردانہ وار کیوں نہ مروں اور استقلال کے ساتھ جان کیوں نہ دوں۔ اس بات کا ذہن میں آنا تھا کہ دنیا کی تمام چیزوں پر ایک اداسی چھا گئی۔ اب جس چیز کو دیکھتا ہے میچ اور بےوقعت نظر آتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ڈاکٹر نے اس کو دوا پلوا کر تنہا لٹوا دیا تھا۔ استغنا سے ایک اطمینان دل کو پہنچا اور ادھر علالت کے اشتد ادکا تکان تھا ہی، اوپر سے پہنچی دوا جو بالخاصہ خواب آور تھی اور تیمار داروں کا ہجوم کم ہوا، لیٹا تو نیند کی ایک جھپکی سی آ گئی۔

آنکھ کا بند ہونا تھا کہ نصوح ایک دوسری دنیا میں تھا۔ جو خیالات تھوڑی دیر ہوئی اس کے پیشِ نظر تھے، سب اس کے دماغ میں بھرے ہوئے تھے۔ اب متخیلہ نے ان کو اگلے پچھلے تصوارات سے گڈ مڈ کرکے ایک نئے پیرائے میں‌ لا سامنے کھڑا کیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڑی عمدہ اور عالیشان عمارت ہے اور چونکہ نصوح خود بھی کبھی ڈپٹی مجسٹریٹ حاکم فوجداری رہ چکا تھا، تو اس کو یہ تصور بندھا کہ یہ گویا ہائی کورٹ کی کچہری ہے۔ لیکن خاکم کچہری کچھ اس طرح کا رعب دار ہے کہ باوجود یہ کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا اجتماع ہےمگر یہ شخص سکوت کے عالم میں ایسا دم بخود بیٹھا ہے کہ گویا کسی کے منہ میں زبان نہیں اور جو کوئی بہ ضرورت بولتا اور بات بھی کرتا تھا تو اس قدر آہستہ کہ کانوں کان خبر نہ ہو۔ اتنی بڑی تو کچہری ہے مگر مختار اور وکیل کسی طرف دیکھنے میں نہیں آتے۔ کچہری کے عملے اس طرح کے کھرے اور اپنے خاکم سے اتنا ڈرتے ہیں کہ کسی اہل معاملہ اور مقدمے والے کے اپنے پاس تک آنے کے روادار نہیں۔ غرض کیا مجال کہ کوئی اپنے بارے میں ناجائز پیروی کرکے یا روپے پیسے کا لالچ دیکھا کر یا سعی سفارش بہم پہنچا کر کار بر آری کر سکے۔اگرچہ انصاف اور معاملہ فہمی اور ہمہ دانی کی وجہ سے حاکم کی ہیبت ادنٰی اعلٰی سب پر چھائی ہوئی ہے، مگر جتنے مجرم ہیں، کیا خفیف کیا سنگین، کوئی اس کے رحم سے ناامید نہیں۔ اختیارات اس کے اس قدر وسیع ہیں کہ نہ اس کے فیصلے کی اپیل ہے، نہ اس کے حکم کا مرافعہ۔ کام کرنے کا ایسا اچھا ڈھنگ ہے کہ کام زورکازور صاف۔ کتنے ہی مقدمے پیشی میں کیوں نہ ہوں، ممکن نہیں‌کہ تاریخ مقررہ پر فیصل نہ ہو جائیں۔ پھر یہ نہیں کسی قدمے کو روا روی اور سرسری طور پر تجویز کرکے ٹال دیا جائے۔ نہیں۔ جو حکم صادر کیا جاتا ہے، ہر عذر کو رفع، ہر جہت کو قطع، خود مجرم کو قائل معقول کر کے اور گناہگار کے منہ سے اس کی خطا تسلیم کرانے کے بعد۔ غرض جو تجویز ہے مؤجہ، جو فیصلہ ہے مدلل، جو رائے ہے حتمی و اذعانی، جو حکم ہے دودھ کا دودھ، پانی کا پانی۔ گواہوں کے باب میں ایسی احتیاظ ملحوظ ہے کہ صرف عادل، ثقہ اور راست گو کی گواہی ہی لی جاتی ہے اور وہ بھی ایسے کہ واقف الحال چشم دید، بلکہ ملزم کے رفیق و ہمنشین، کہ اس کے رازدار و معین اور مددگار ہوں۔ پھر کیای دیکھتا ہے کہ ہر مجرم کو فرداً فرداً فردِ قراردادِ جرم کی ایک نقل دی گئی ہے کہ وہ اس کو پڑھ رہا ہے، اور جتنے الزام اس پر لگائے گئے ہیں سب کو سمجھتا ہے اور اپنی برات کی وجوہات کو سوچتا ہے۔
 

حسن علوی

محفلین
18

کچہری کا خیال نصوح کو حوالات کی طرف لے گیا، تو دیکھا ہر شخص ایک علیحدہ جگہ میں نظر بند ہے۔ جیسا مجرم ہے اس کے مناسب حالت اس کو حوالات میں‌ سختی یا سہولت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ حوالات کے برابر جیل خانہ ہے، مگر بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ محنت کڑی، مشقت سخت، جو اس میں گرفتار ہیں، سولی کے متمنی اور پھانسی کے خواستگار ہیں۔ نصوح یہ مقامِ حولناک دیکھتے ہی الٹے پاؤں پھرا۔ باہر آیا تو پھر حوالاتیوں اور زیر تجویزوں میں تھا۔ ان لوگوں میں ہزار ہا آدمی تو اجنبی تھے لیکن جا بجا شہر اور محلے کے آدمی بھی نظر آتے تھے، مگر وہ جو مر چکے تھے۔ نصوح کو یہی سب سامان دیکھ کر اسی خواب کی حالت میں ایک حیرت تھی کہ الٰہی یہ کون سا شہر ہے؟ کس کی کچہری ہے؟ یہ اتنے مجرم کہاں سے پکڑے ہوئے آئے ہیں؟ اور یہ میرے ہم وطنوں نے کیا جرم کیا کہ ماخوذ ہیں؟ اور یہ کیسے مرے تھے کہ میں ان کو یہاں جواب دہی میں دیکھتا ہوں؟ اسی حیرت میں لوگوں کو دیکھتا بھالتا چلا جاتا تھا کہ دور سے اسکو اپنے والد بزرگوار انہی حوالاتیوں میں بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ پہلے تو سمجھا کہ نظر غلطی کرتی ہے۔ مگر غور کیا تو پہچانا کہ نہیں، واقع میں وہی ہیں۔ دوڑ کر قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا کہ حضرت ہم آپ کی مفارقت میں تباہ ہیں۔ آپ یہاں کہاں؟
 

حسن علوی

محفلین
19-20

باپ: “میں اپنے گناہوں کی جواب دہی میں ماخوذ ہوں۔ یہ مقام جو تم دیکھتے ہو دارالجزا ہے۔ خداوند جلّ و علٰی شانہ اس محکمے کا حاکم ہے۔“


بیٹا: “ یا حضرت آپ بڑے متقی، پرہیزگار، خدا پرست، نیکوکار تھے۔ آپ پر، اور گناہوں کا الزام؟“


باپ: “گناہ بھی ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں۔ دیکھو میرا نامہ اعمال کیسی رسوائی اور فصیحت سے بھرا ہوا ہے اور میں‌اس کو دیکھ دیکھ کر سخت پرایشان ہوں کہ کیا جواب دوں گا اور کون سی اپنی برات کی پیش کروں گا۔“


یہ وہ کاغذ تھا جو نصوح نے ہر شخص کے ہاتھ میں دیکھا تھا اور اس کو دنیا کے خیالات کے مطابق فردِ قراردادِ جرم سمجھا تھا۔ باپ کا نامہ اعمال دیکھ کر تو تھرّا اُٹھا۔ شرک اور کفر اور نافرمانی، نا شکری اور بغاوت اور بے ایمانی، کبرو نخوت، دروغ و غیبت، طمع و حسد، مردم آزادی، نفاق دریا، حسبِ دنیا، کوئی الزام نہ تھا کہ اس میں نہ ہو۔ چوں کہ نصوح کے دماغ میں خیالاتِ دینوی گونج رہے تھے، لگا باپ کے نامہ اعمال میں تعزیرات ہند کے، قرآن کی صورتوں اور آیتوں کا حوالہ تھا۔ متعجب ہو کر باپ سے پوچھا کہ حضرت پھر کیا آپ ان تمام جرموں کے مرتکب ہوئے ہیں؟

باپ: “سب کا۔“

بیٹا: “کیا آپ حضور حاکم اقرار کر چکے ہیں؟“

باپ: “ انکار کی گنجائش ہی نہیں۔ میری مخالفت میں گواہی اتنی وافر ہے کہ اگر میں انکار بھی کروں تو پذیرا نہیں ہو سکتا۔“

بیٹا:‌ اول تو دو شخص کرام کاتبین اس بلا کے ہیں کہ میرا کوئی فعل ان سے مخفی نہیں۔ باتیں کہتے ہیں پتے کی اور کہتے کیا ہیں، میرا روزنامچہ عمری لکھتے گئے ہیں۔ اب جو میں اس کو دیکھتا ہوں، حرف بہ حرف صحیح اور درست پاتا ہوں۔ دوسرے، میرے اعضا: ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان، کوئی میرے کہنے کا نہیں۔ سب کے سب مجھ سے منحرف، سب کے سب مجھ سے برگشتہ، میری مخالفت پر آمادہ، میری تذلیل پر کمر بستہ ہو رہے ہیں۔“
بیٹا:‌ آخر آپ کچھ اس کی وجہ بھی سمجھتے ہیں؟


باپ: میں ان کو غلطی سے اعوان و انصار، بھیدی اور رازدار سمجھتا تھا، مگر واقع میں‌یہ سب جاسوسِ ایزدی تھے۔ انہوں نے وہ وہ سلوک میرے ساتھ کیے کہ تسمہ لگا نہیں رکھا۔


بیٹا: پھر آپ کا کیا حال ہے۔

باپ: جب سے دنیا کو چھوڑا، قبر کی حوالات میں‌ ہوں۔ تنہائی سے جی گھبراتا ہے۔ انجام کار معلوم نہیں۔ شبانہ روز اسی اندیشے میں پڑا گھلتا ہوں۔ حوالات میں مجھ کو اس قدر ایضا ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ مگر صبح و شام، ہر روز آتے جاتے جیل خانے کے پاس ہوکر گزرنا ہوتا ہے۔ دوزخ وہی ہے۔ وہاں کی تکلیفات دیکھ کر اور بھی ہوش اُڑ جاتے ہیں اور غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ اے کاش ہمیشہ کے واسطے اسی حوالات میں رہنے کا حکم ہو جاتا۔


بیٹا: پھر ہنوز آپ کا مقدمہ پیش نہیں ہوا۔


باپ: خدا نہ کرے کہ پیش ہو۔ جو دن حوالات میں‌گزر جاتا ہت غنیمت ہے۔ اول اول جب میں‌حوالات آیا تو اعمال نامہ مجھ کو حوالے کر دیا گیا۔ بس اسی کو دیکھا کرتا ہوں اور انجامِ کار سے ڈرا کرتا ہوں۔ نجات کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔


بیٹا:‌ بھلا کسی طرح ہم لوگ آپ کی اس مصیبت میں‌کام آ سکتے ہیں؟


باپ: اگر میرے لیئے عاجزی اور خلوص کے ساتھ دعا کرو تو کیا عجب کہ مفید ہو۔ ابھی میرے ہمسائے میں ایک شخص کی رہائی ہوئی ہے۔ اس پر بھی بہت سے الزام تھے۔ مگر جہاں‌اللہ تعالٰی میں کامل انصاف ہے، رحم بھی پر لے ہی سرے کا ہے۔

--------------------------------------------------
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 21

تعالٰی میں کامل انصاف ہے، رحم بھی پرلے ہی سرے کا ہے۔ اس شخص کے پس ماندوں نے اس کے واسطے بہت زارنالی کی، تو پرسوں یا اترسوں اس کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ تیرے افعال جیسے تھے، وہ اب تجھ پر مخفی نہیں رہے۔ مگر ہمارے کئی بندے تیری معافی کے واسطے ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں اور وہ تیرے ہی زن و فرزند ہیں۔ ہم کو تیری یہی ایک بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ تو نے اپنی خاندان میں نیکی اور دین داری کو بیج بویا۔ جا، ہم نے تیری خطا معاف کی۔ بیٹا! سچ کہنا کہ تم لوگوں نے بھی کبھی میرے حق میں دعائے خیر کی ہے؟

بیٹا : جناب آپ کے انتقال کے بعد رونا پیٹنا تو بہت کچھ ہوا اور اب تک اس شد و مد کے ساتھ ہوتا ہے کہ گویا آپ نے ابھی انتقال فرمایا ہے۔ اور یہ رونا تو ہم لوگوں کے دم کے ساتھ ہے۔ آپ کی عنایتیں، آپ کی شفقتیں، جب تک جئیں گے یاد کریں گے۔ رسم دنیا کے مطابق آپ کا کھانا بھی برادری میں تقسیم کر دیا ہے۔ لوگ شاید میرے منہ پر خوشامد سے کہتے ہوں، مگر کہتے تھے کہ اس مہنگے سمے میں باپ کا کھانا اچھا کیا۔ دعا کے بارے میں، غلط بات کیوں کر عرض کروں، اہتمام نہیں ہوا۔ آپ کے ومیراث کے ایسے جھگڑے پڑ گئے کہ آج تک نہیں سلجھے۔ مگر یہ تو فرمائیے کہ آپ تو صوم و صلوۃ کے بڑے پابند تھے۔کیا اعمال و افعال کچھ بھی کام نہ آئے؟

باپ : کیوں نہیں۔ یہ انہی اعمال کی بدولت ہے کہ تم مجھ کو اس حالت میں دیکھتے ہو، ورنہ بہتیرے مجھ سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔ حوالات میں جیل خانے کی سی ایذا ہے۔ مگر یہاں ہمارے اعمال میں خلوص نیت شرط ہے۔ میں نے اعمال کو آ کر دیکھا تو اکثر جیسے جھوٹے موتی، کھوٹے روپے، نمازیں بے حضور قلب اکارت گئیں اور روزے چونکہ پابندی رسم کے طور پر رکھنے کا اتفاق ہوتا تھا، خالی فاقے شمار میں آئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 22

بیٹا : پھر اس دربار میں کچھ سعی و سفارش کا دخل نہیں؟

باپ : استغفر اللہ! کوئی کسی کی بات تو پوچھتا ہی نہیں۔ نفسی نفسی پڑی ہے۔ ہر شخص اپنی بلا میں مبتلا اور اپنی مصیبت میں گرفتار ہے۔ دوسرے کی نجات تو کیا کرائے گا، پہلے آپ تو سرخرو ہو لے۔

بیٹا : کیوں جناب، معاذ اللہ یہ شرک و کفر کا الزام آپ پر کیسا ہے؟ ہم لوت تو خیر، سارا شہر آپ کے اتقا کا معتقد تھا۔ کیا آپ خدا کے قائل نہ تھے؟

باپ : قائل تو تھا مگر دل سے معتقد نہ تھا۔

بیٹا : جناب، آپ کے تمام اعمال ظاہر سے مسسط ہوتا تھا کہ آپ کو خدائے کریم کے ساتھ بڑی راسخ عقیدت ہے۔

باپ : وہ تمام عقیدت معلومہوا کہ اوپری دل سے تھی۔ جب اول اول میرا اظہار لیا گیا تو پہلا سوال مجھ سے یہی پوچھا گیا کہ تیرا رب کون ہے؟ چونکہ مرتے وقت مجھ کو ایمان کی تلقین کی گئی تھی، میں نے جواب دیا اللہ وحدہ لا شریک لہ، تب اس پر جرح کی گئی کہ بھلا جب تو دکھن کی نوکری سے برخاست ہو کر گھر آیا اور مدت تک خانہ نشین رہا اور جو کچھ تو نوکری پر سے کما کر لایا، سب صرف ہو گیا اور تو نان شبینہ کو محتاج ہو کر نوکری کی جستجو میں ادھر ادھر پھرتا تھا اور مضطر ہو ہو کر ہم سے کرنے کو کافی تھی۔ ہم حفاظت نہ کرتے تو خود تیرے جسم میں فساد کا مادہ ایسا تھا کہ ایک ذرا سا روگ تیرے فنا کر دینے کو بہت تھا۔ مگر ہم تجھ سے دوستی کرتے تھے اور تو ہم سے عداوت۔ ہم عنایت کرتے تھے اور تو بغاوت۔ کیا یہی تھا بدلہ جو تو نے ہمکو دیا؟ کیا یہی تھا صلہ جو تجھ سے ہم کو ملا؟

ہم نے تجھ کو دنیا میں بھیجتے وقت کیا تاکید کی تھی کہ دیکھ، روح ایک جوہر لطیف ہے اور مجھ کو بہت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳

ہی عزیز ہے، ایسا نہ کرنا کہ اس کو دنیا میں جا کر بگاڑ لائے۔ یہ میری عمدہ امانت اور نفیس ودیعت ہے۔ دیکھ اس کی احتیاط کما ینبغی اور حفاظت کما حقہ کیجیئو۔ جیسا اجلا، شفاف، براق، روشن، یہاں سے لیے جاتا ہے ایسا ہی دیکھ لوں گا۔ آج تو اے روسیاہ، اس کو لایا ہے پوتھ سے بدتر اور ٹھیکری سے کم تر بنا کر، نجس، ناپاک، تیرہ، بے آب، بدرونق، خراب۔ ہم نے تو چلتے چلتے تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو دنیا میں دل مت لگائیوں اور اس طرح رھیو جیسے سرائے میں مسافر۔ تو وہاں گیا تو بس وہیں کا ہو رہا اور ایسی لمبی تان کر سویا کہ قبر میں آ کر جاگا۔ تھا تو مسافر اور بن بیٹھا مقیم۔ تھا تو سیاح اور ہو گیا متوطن۔ کیا تو تمام عمر دنیا میں مال نہیں جمع کرتا رہا اور کیا تو نے پکی پکی عمارتیں اس خیال سے نہیں بنوائیں کہ مدتوں ان میں رہے گا؟ مسافر کا یہی کام ہے؟ سیاح کا یہی شیوہ ہے؟ تو تو جانتا تھا کہ تجھ کو یہاں لوٹ کر آنا ہے، پھر مرنے کے نام سے تجھ کو موت کیوں آتی تھی اور چلنے کی خبر سنکر تو مچلتا کیوں تھا؟

اول تو تجھ کو ہماری عبادت کا اتفاق ہی نہیں ہوا۔لیکن جب کبھی تو لوگوں کی شرم حضور یا دکھاوے یا اتباع رسم کی وجہ سے مصروف عبادت ہوا بھی ہو، تو کس طرح، کہ دل کہیں تھا اور تو کہیں۔ کوئی نماز بھی تیری سجدہ سہو سے خالی تھی؟ دنیا کی بھولی بسری باتیں تجھ کو نماز میں یاد آتی تھیں، اور نماز تو کیا پڑھتا تھا، گھاس کاٹتا تھا۔ نہ تعدیل ارکان ٹھیک، نہ قومہ درست، نہ قعدہ صحیح۔ برس بھر تو دوزخ شکم کو اناپ شناپ بھرتا رہتا تھا۔ برسویں دن صرف ایک مہینے کے روزے رکھنے کا ہم نے تجھ کو حکم دیا تھا۔ کہ تجھ کو ہماری نعمتوں کی قدر ہو، تجھ کو اپنے ابنائے جنس پر، جو مبتلائے مصیبت ہیں، رحم آئے اور تیری صحت بدنی کو بھی نفع پہنچے۔ تیرے مزاج میں فروتنی اور انکسار کی صفتِ محمود، کہ یہ ادا ہم کو بہت بھاتی ہے، پیدا ہو۔ لیکن یوں دنیا کے کام دھندے میں تو تو دن بھر بے آب و دانہ مصروف رہا، نہ شکوہ، نہ گلہ، تازہ دم، ہشاش بشاش، پھرکھانا تھوڑے کو موجود۔ مگر روزہ چوں کہ ہمارے حکم سے تھا، دن میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 24

سینکڑوں مرتبہ پیاس کی شکایت اور جو آیا اس سے ضعف و ناتوانی کی حکایت۔ " العطش " اور " الجوع " یہی تیرے دو وظیفے تھے۔ روزہ افطار کیا اور تو بدحواس ہو کر چارپائی پر ایسا گرا کہ گویا جان نہیں۔ باوجودیکہ تو دو دن کا کھانا ایک ہی رات میں کھا لیتا تھا، پھر بھی اس تصور سےکہ کل پھر روزہ رکھنا ہے، تیری جوع البقر کو کسی چیز سے سیری نہیں ہوتی تھی۔ تُو عید کا اس طرح منتظر رہتا تھا جیسے کوئی قیدی تاریخ رہائی کا۔ تیرا بس چلتا تو 29 کیا 19 کی عید کرتا۔ کیا ایسے ہی روزوں کے ثواب کا تو امیدوار اور اجر کا متوقع ہے؟

ہم نے تجھ کو انسان بنا کر بھیجا تھا تاکہ مصیبت زدوں کی ہمدردی کرے۔مگر تو نے ایسی تن آسانی اختیار کی کہ راحت پہنچانا تو درکنار دوسروں کو تکلیف دے کر بھی اپنی آسائش حاصل کرنے میں تجھ کو بات نہ تھا۔ تیرے ہمسائے میں ہمارے بندے رات کو فاقے سے سوتے تھے اور تجھ کو سؤ ہضم کے علاج سے ان کی پرداخت کی پروا نہ تھی۔ تیرے پڑوس میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جاڑے کی لمبی راتیں آگ تاپ تاپ کر سحر کرتے اور تُو دَھرے دَھرے لحاف اور بھاری بھاری توشکوں میں چین سے پاؤں پھیلا کر سوتا۔ نعمت مال و دولت جو ہم نے تجھ کو عطا کی تھی، تو نے تکلفات لا یعنی اور نمود و نمائش کی غیر ضروری چیزوں میں بہت کچھ تلف کی اور جو لوگ اس کے سخت حاجت مند تھے، ترستے کے ترستے رہ گئے۔ تیری سب خباثتیں ہم کو معلوم ہیں۔ تو نے درماندگی کا نام خدا رکھ چھوڑا تھا۔ جب تک سعی و تدبیر سے تجھ کو کار برآری کی امید ہوتی تھی، تجھ کو ہر گز پروا نہیں ہوتی تھی کہ خدا بھی کوئی چیز ہے اور انتظام دنیا میں اس کو بھی کچھ دخل ہے۔ مگر جب تو عاجز اور درماندہ ہوتا تھا، تب تو خدا کو یاد کرتا تھا۔ اگر ہماری خدائی اور سلطنت تیری فرماں برداری کی محتاج ہوتی، تو تو نے اس کے اٹھا دینے میں کچھ کوتاہی نہیں کی۔ تو نے ہمارے فرمان واجب الاذعان کی بے حرمتی اور احکام لازم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 25

الاحترم می بے توقیری کی اور تو نے اپنا برا نمونہ دکھا کر میرے دوسرے بندوں یعنی اپنے فرزندوں کو بھی گمراہ کیا۔ ہر روز تو لوگوں کو مرتے دیکھتا اور سنتا تھا، کیا تجھ کو نہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ ایک دن تو بھی مرے گا۔ خود تیری حالت میں کتنے کتنے انقلاب واقع ہوئے۔ لڑکے سے جوان ہوا، جوان سے بڈھا ناتواں۔ بال تیرے سفید ہوئے، دانت تیرے ٹوٹے، کمر تیری جھکی، قوتوں میں تیری فتور آیا۔ غرض ہم نے تجھ کو سوتا دیکھ کر بہتیرا جھنجھوڑا، بہتیرے پانی کے چھینتے دیے، کئی بار اٹھا اٹھا کر بٹھا بٹھا دیا، مگر تیرے نصیب کچھ ایسے سوتے تھے کہ تو نے ہی کروٹ نہ لی۔

تمامی عمر تُو غفلت میں سویا
ہمارا کیا گیا اپنا ہی کھویا

سخت گیری خود ہماری عادت نہیں اور سخت گیری ہم کریں بھی تو کس پر؟ اپنے بندوں، جن کا مارنا اور جلانا ہر وقت ہمارے اختیار میں ہے۔ مگر جب بندہ بندہ ہو اور ہم کو اپنا ملک سمجھے، نہ خرنا شخص کو ہم تو دیں نون اور وہ کہیے کہ میرے آنکھیں پھوٹیں۔ ہم سے زیادہ بھی کوئی درگزر کرنے والا ہو گا کہ ایک معذرت پر عمر بھر کے گناہوں کو ہم نے قلبتہً بھلا بھلا دیا ہے۔ لیکن توبہ استغفار، ندامت و حسرت کا اظہار بھی تو کوئی کرے۔ ہماری رحمت حیلہ جُو، ہماری رافت بہانہ طلب، کتنی کتنی بار جوش میں آئی۔ مگر ہم نے اس کو صرف کرنے کا موقع نہ پایا۔ اگر بندہ ہمارے ساتھ نسبت عبودیت صحیح رکھتا تو ہم اس کی لاکھ برائیوں پر خاک ڈالتے۔ ہم کو تو بڑی شکایت یہی ہے کہ اس نے ہم کو معبود ہی نہ گردانا۔ عالم اسباب میں رہ کر اسباب پرست ہو گیا۔

پھر ہم جو دیکھتے ہیں تو ہمارے تو ہمارے احکام بھی کچھ سخت نہ تھے۔ کھانے کو ہم نے نہیں روکا، سونے کو ہم نے منع نہیں کیا، قسمتعات دینوی سے باز نہیں رکھا۔ پھر جو تو نے ان کی بجا آوری نہ کی، تو سوائے تیری بدنفسی کے اور تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ اے شخص، نجات جس کا تو نہایت آرزو
 
Top