توجہ توجہ : ہم صفیرو امداد کُن، بحق شیخ خلیل بن احمد!

فاخر

محفلین
ہنسی مذاق میں ہی اب کچھ کا م کی بات ہوجائے ۔ یہ ’’غنیمت کنجاہی‘‘ کون تھے ؟ سنا ہے کہ یہ فارسی کے معرکۃ الآراء سخن ور تھے اور ان کا تعلق کنجاہ پنجاب سے تھا ۔ ان کا ایک دیوان بھی ہے ، نیرنگ عشق نامی انہوں نے مثنوی لکھی ہے مجھے ان کے حالاتِ زندگی کے متعلق جاننا ہے۔ کوئی پنجابی منڈا ہے، جو میری مدد کرسکے؟
 

سید عمران

محفلین
ہنسی مذاق میں ہی اب کچھ کا م کی بات ہوجائے ۔ یہ ’’غنیمت کنجاہی‘‘ کون تھے ؟ سنا ہے کہ یہ فارسی کے معرکۃ الآراء سخن ور تھے اور ان کا تعلق کنجاہ پنجاب سے تھا ۔ ان کا ایک دیوان بھی ہے ، نیرنگ عشق نامی انہوں نے مثنوی لکھی ہے مجھے ان کے حالاتِ زندگی کے متعلق جاننا ہے۔ کوئی پنجابی منڈا ہے، جو میری مدد کرسکے؟
پنجابی منڈا
 

فاخر

محفلین
غنیمت کنجاہی کی سوانح حیات مل گوا، ایک نیٹ لنک کے جریے ملی۔
کتاب کا نام ھے" غنیمت کنجاہی" ترتیب و تدوین ڈاکٹر نجم الرشید و ڈاکٹر محمد صابر۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہنسی مذاق میں ہی اب کچھ کا م کی بات ہوجائے ۔ یہ ’’غنیمت کنجاہی‘‘ کون تھے ؟ سنا ہے کہ یہ فارسی کے معرکۃ الآراء سخن ور تھے اور ان کا تعلق کنجاہ پنجاب سے تھا ۔ ان کا ایک دیوان بھی ہے ، نیرنگ عشق نامی انہوں نے مثنوی لکھی ہے مجھے ان کے حالاتِ زندگی کے متعلق جاننا ہے۔ کوئی پنجابی منڈا ہے، جو میری مدد کرسکے؟
غنیمت کنجاہی اور شریف کنجاہی
شعر و ادب کی دو اہم شخصیات گزری ہیں۔ دونوں کے مرقد تھانہ کنجاہ کے قریب ساتھ ساتھ ہیں۔ شریف کنجاہی کی شاعری عالمگیر انسانی محبت اور رشتوں کے پیار کی شاعری ہے۔ جس کا ثبوت ان کی ایک نظم ’’ویر توں کنجاہ دا ایں‘‘ ہے ایک عورت بس میں سفر کے دوران کو پہچان کر پوچھتی ہے۔

ویر توں کنجاہ دا ایں
تیراں ناں شریف اے

اگے ای میں آکھدی ساں لگدا تے اوہو اے
رب نے بھرا میل دتا اے

اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کا شریف کنجاہی سے تعارف کراتی ہے۔

منڈیا ایہہ تک تیرا ماماں اے
مینوں توں سنجانیاں نہ ہو وے دا

کدے نکے ہوندے اسیں رل کے تے کھیڈ دے ساں
میرا ناں نیامتے وے

شریف کنجاہی مختلف شہروں میں بسلسلہ ملازمت مقیم رہے مگر انہوں نے مکان گجرات میں بنایا۔ وہیں مقیم رہے مگر آخری آرام گاہ ان کی جنم بھومی کنجاہ میں ہے
 

سیما علی

لائبریرین
تذکرہ نگار مرزا محمد افضل سر خوش نے لکھا ہے کہ ”غنیمت از خاکیان ہند غنیمت بود“ اورنگزیب عالمگیر عہد کے قادرالکلام فارسی شاعر غنیمت کنجاہی کے علمی کمالات اور روحانی محاسن و تصرفات سے ان کے زمانہ حیات سے لے کر آج تک اصحاب فہم و ادراک متاثر نظر آتے ہیں۔ سید شرافت نوشاہی رقمطراز ہیں کہ ”آپ عالم یگانہ، فاضل زمانہ، علامہ دوراں، فہماہ، بلند مکاں، شاعر با کمال، ناظم بے مثال،غواص، بحر شریعت، گوہر دریائے حقیقت، صاحب عشق و محبت و علم وفضل تھے“ عہد عالمگیری میں غنیمت کنجاہی کی شاعری کا سورج نصف النہار پر تھا۔ پنجاب اور ہند کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی آپ کی شاعری کے چرچے تھے۔ ان کی شاعری کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کی مثنوی ”نیرنگ عشق“ کو ہندوستان، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا میں قبول عام کی سعادت ملی۔
فارسی تذکروں کے علاوہ یورپی مستشرقین بھی ان کا ذکر اپنی تالیفات میں احترام و محبت سے کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء واجداد ملک شام سے ہجرت کر کے کنجاہ آئے تھے۔ صادق علی دلاوری سید جعفر شاہ گیلانی جو غنیمت کے قریب العصر تھے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”غنیمت ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ ایک دن حضرت خضر ؑتشریف لائے اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بشارت دی کہ اس حمل کوغنیمت جانو۔ یہ فرزند مقبول درگاہ خدا ہوگا۔ چناچہ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کی مناسبت سے ہی محمد اکرم نے اپنا تخلص غنیمت رکھا۔ سادہ مزاج اور خوش خلق انسان تھے۔
دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ انھیں پنجاب سے بڑی محبت تھی بلکہ حُبِ پنجاب ان کے خون میں سرایت کر گئی تھی۔ وہ سچے وطن پرست اور زندہ دلان پنجاب کے عاشق تھے۔ جہاں بھی جاتے پنجاب کو یاد کرتے۔ جنت نظیروادی کشمیر کی سیر پر گئے مگر وہاں بھی پنجاب کی یاد انھیں ستاتی رہی انہوں نے شعر کہا کہ
آب شد کشمیر در چشم غنیمت از حجاب
تاکہ دانستہ نام خطہ پنجاب برد
ایک اور جگہ پنجاب سے اپنی محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ
نخواھم لالہ زار گلشن ایران کہ سربرزدہ
گل داؤدی صبح وطن از خاک پنجابم
 

سید ذیشان

محفلین
کچھ ادب میں اضافہ ہم بھی کئے دیتے ہیں۔ آج ایک بہت ہی عمدہ شعر سنا۔

بن جا رے بن جا مشعل راہ
او یوا یوا او یووووا
 
Top