توشہ خانہ کی لوٹ مار

جاسم محمد

محفلین
21 ستمبر ، 2020
ارشاد بھٹی

آپ کی مرضی!
230963_4979853_updates.jpg

فوٹو: فائل

جیسے یہ آپ کے علم میں کہ توشہ خانہ یا تحفہ خانہ میں اپنے حکمرانوں کو باہر کے سربراہوں سے ملے تحفے جمع کروائے جاتے ہیں، ویسے ہی آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ حریص حکمران طبقے نے ایسا قانون بنا رکھا کہ ان تحفوں کو اونے پونے داموں خرید کر گھر لے جا سکیں، آج اسی مضحکہ خیز قانون کی آڑ میں لٹ مار کی چند جھکیاں حاضرِخدمت، دیکھئے، حادثاً، اتفاقاً بڑے عہدوں پر پہنچے لوگ کیسے چھوٹی وارداتیں ڈالتے ہیں، یاد رہے یہ چند جھلکیاں، ورنہ توشہ خانہ پر تو ایک کتاب لکھی جا سکے۔

بات نواز شریف سے شروع کرتے ہیں، 1997، وزیراعظم نواز شریف ترکمانستانی وفد کا دیا 4بائی دو فٹ سائز کا کارپٹ 50روپے ادا کرکے گھر لے گئے، 1997، قطر کے ولی عہد کا دیا بریف کیس نواز شریف 875روپے ادا کرکے لے گئے، 1999، سعودی عرب سے ملنے والی ساڑھے 42لاکھ کی مرسڈیز گاڑی میاں صاحب 6لاکھ 36ہزار میں لے اُڑے، 1999، سعودی حکومت کی دی ایک لاکھ 5ہزار کی رائفل میاں صاحب سوا 14ہزار میں گھر لے گئے، ابوظہبی حکمراں نے نواز شریف، کلثوم نواز، مریم نواز کو تین قیمتی گھڑیاں تحفے میں دیں، نواز شریف، کلثوم نواز کی گھڑیاں تو توشہ خانہ میں جمع کروا دی گئیں مگر مریم نواز تحفے میں ملنے والی 3لاکھ کی گھڑی 45ہزار میں لے گئیں، یہاں یہ بتاتا چلوں۔

ان تحفوں کی اصل قیمت تو بہت زیادہ ہوتی ہے، اپنے سرکاری بابو مطلب ایک بیوروکریٹ ٹیم پہلے ان تحفوں کی من مرضی کی قیمت لگاتی ہے اور پھر اس قیمت کا کچھ فیصد ادا کرکے حکمراں وہ تحفہ گھر لے جاتے ہیں، مثال کے طور پر ابو ظہبی حکمران کی طرف سے ملی گھڑی 10لاکھ سے زیادہ مالیت کی تھی مگر اپنی بیوروکریٹ ٹیم نے اسکی قیمت 3لاکھ لگائی اور مریم نواز یہ گھڑی 45ہزار میں لے گئیں۔

اب بات پاکستان، دبئی، لندن میں ذاتی گھروں اور اس وقت 4ملکوں کے مشیر شوکت عزیز کی، موصوف ہمیشہ یہی بتاتے رہے کہ میں تو وہ وزیراعظم جو تنخواہ بھی نہیں لیتا مگر یہ 26کروڑ کے 11سو تحفوں کی ساڑھے 7کروڑ قیمت لگوا کر صرف ڈھائی کروڑ میں یہ سب تحفے لے اُڑے، کیسے، ایسے، شوکت عزیز گورنر نیپال کا دیا اسکارف 25روپے میں گھر لے گئے، شہزادہ چارلس، انکی اہلیہ کا دیا جیولری بکس 2ہزار روپے ادا کرکے لے گئے، ٹونی بلیئر، ان کی اہلیہ کا تحفے میں دیا ہینڈ بیگ شوکت عزیز 3سو روپے میں لے گئے، چینی وزیراعظم کی جانب سے تحفے میں ملنے والے پانڈے کو 15سو روپے میں لے گئے، چینی حکمراں کے دیے جیولری بکس کو ساڑھے 6ہزار ادا کرکے گھر لے گئے۔

بنگلا دیشی وزیراعظم کا دیا موتیوں کا ہار 5ہزار میں لے گئے، سری لنکن وزیراعظم کا دیا نیکلس شوکت عزیز 5ہزار میں لے گئے، بحرین کے ولی عہد سے ملی تلوار شوکت عزیز 9ہزار میں لے اُڑے، شوکت عزیز نے سونے کی انگوٹھیاں، درجن بھر نیکلس، 18قیراط سونے کے زیورات، طلائی سکوں، موتیوں سے لیکر ٹائیوں، بنیانوں، جرابوں اور حتیٰ کہ نیکریں تک نہ چھوڑیں، اب ایک جھلک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی، سعودی بادشاہ نے 2011میں 18لاکھ کی گھڑی، سونے کا پین، خنجر، کف لنکس تحفے میں دیے، گیلانی صاحب یہ سب سامان 2لاکھ 83ہزار میں لے گئے۔

گیلانی صاحب کی اہلیہ 22لاکھ کا جیولری سیٹ 3لاکھ میں گھر لے گئیں، اب بات آصف زرداری کی، 2009، صدر زرداری کو معمر قذافی نے 2کروڑ 73لاکھ کی بی ایم ڈبلیو گاڑی تحفے میں دی، زرداری صاحب 41لاکھ میں یہ گاڑ ی لے گئے، 2009، یو اے ای کے ولی عہد کی طرف سے تحفے میں ملنے والی پونے گیارہ کروڑ کی لیکسز گاڑی ایک کروڑ 61لاکھ میں لے اڑے، زرداری صاحب نے صرف 3گاڑیوں میں ہی 11کروڑ بچا ئے۔

اب آجائیں، صدر پرویز مشرف پر، موصوف پونے 4کروڑ کے تحفے 55لاکھ میں لے گئے، 2002،امریکی صدر نے لیدر بیگ تحفے میں دیا، 18سو قیمت لگی، مفت گھر لے گئے، 2002، امریکی صدر نے جیولری بکس تحفے میں دیا، 15سو قیمت لگی، مفت گھر لے گئے، ترکمانستان کے صدر نے پاکٹ واچ، کارپٹ تحفے میں دیے، 75روپے میں گھر لے گئے، 2007، بیگم پرویز مشرف کو سعودی حکمراں نے ساڑھے 37لاکھ کا جیولری سیٹ دیا، یہ 5لاکھ 80ہزار ادا کر کے لے گئے، سعودی حکمراں نے ہی بیگم صاحبہ کو ایک کروڑ 52لاکھ کا جیولری سیٹ، نیکلس، بریسلٹ تحفے میں دیے، یہ سوا 22لاکھ میں سب کچھ لے گئے۔

امریکی وزیردفاع رمز فیلڈ نے صدر پرویز مشرف کو دو پستول تحفے میں دیے، یہ سوا 9ہزار فی پستول ادا کرکے چلتے بنے، یہاں یہ یاد رہے، ان دوپستولوں میں سے ایک پستول پرویز مشرف نے امیر مقام کو تحفے میں دیا، اسی لئے امیر مقام کو مشرف کا پستول بدل بھائی کہا جائے، یہ علیحدہ بات مسلم لیگ ن میں موجود امیر مقام ان دنوں بھُولے سے بھی پرویز مشرف کا نام نہیں لیتے۔

یاد آیا، ایک بار دوست رؤف کلاسرا اور عامر متین نے چوہدری شجاعت حسین سے پوچھا ’’شریف برداران کی واپسی کے بعد آپکو سینکڑوں لیگی چھوڑ گئے، کیا کسی کے چھوڑ جانے پر دکھ ہوا‘‘ چوہدری شجاعت بولے ’’امیر مقام کے چھوڑ جانے کا دکھ ہوا‘‘ پوچھا گیا ’’امیرمقام کا دکھ کیوں‘‘ چوہدری صاحب کا جواب تھا ’’امیر مقام ایک روز دوپہر کو میرے گھر آئے اور کہا چوہدری صاحب میری ماں نے کہا ہے، مرتے مرجانا مگر چوہدریوں کا ساتھ نہ چھوڑنا، چوہدری صاحب اب آپ کا اور میرا ساتھ آخری سانسوں تک‘‘ یہ کہہ کر چوہدری صاحب لمحہ بھر رکے اور پھر بولے ’’اسی شام ہم نے ٹی وی پر دیکھا کہ امیر مقام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کر رہے تھے، دکھ یہ، امیر مقام نے ہمیں چھوڑنا تھا چھوڑ جاتے مگر درمیان میں ماں کو تو نہ لاتے‘‘۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہورہا تھا توشہ خانہ کا، آپ نے لٹ مار کی چند جھلکیاں دیکھیں، باقی پھر کبھی سہی، کہنا یہ، جو بنیانیں، جرابیں، ٹائیاں اور نیکریں بھی نہیں چھوڑتے، ان کے حوالے ملک کرنا، باقی آپ کی مرضی، باربار لٹیں، جتنی بار لٹیں۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
یہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ انہوں نے اتنی اندھی مچائی تھی کہ اصلی اندھے بھی نہ مچا سکیں۔
ان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔
 

سیما علی

لائبریرین
پر یہ قوم اب کہتی ہے زندہ ہے بھٹو زندہ ۔میری ایک پڑوسن جو ڈاکٹر ہیں۔بہت مزے کا واقعہ سناتی ہیں ۔اُنکی پوسٹنگ لیاری ہاسپٹل میں تھی ۔تو ادویات کی کمی کی شکایات ہر وقت رہتیں تو مریض خواتین شور مچاتیں وہ لکھتی بھی رہتیں مگر کوئی شنوائی نہ تھی ۔ ایک دن وہ مریض دیکھ رہی تھیں اور وہ شکایت کررہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کوئی دوائی نہیں ملتی تو ڈاکٹر نیلوفر نے کہا تم لوگ محترمہ بینظیر کو ووٹ دیتے ہو تو اِنکے لوگوں سے کیو ں نہیں کہتے کہ ہمارا خیال کرو ۔وہ زمانہ محترمہ کا عہدِ حکومت تھا۔تو تاریخی جواب سنییے”” مریضہ فرماتیں ہیں” ڈاکٹر صاحب اُسکو کچھ مت کہنا وہ آپ یتیم ہے اب ہم ُاسکو تو تنگ نہیں کرے گا اِس واسطے “کرلو گل:crying3:اس قوم کا حال دیکھیں اور اسکی سادگی کس کس طرح ان کو بیوقوف بناتے یہاں تک تو اُنکی سوچ کی پہنچ ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
 

بابا-جی

محفلین
پر یہ قوم اب کہتی ہے زندہ ہے بھٹو زندہ ۔میری ایک پڑوسن جو ڈاکٹر ہیں۔بہت مزے کا واقعہ سناتی ہیں ۔اُنکی پوسٹنگ لیاری ہاسپٹل میں تھی ۔تو ادویات کی کمی کی شکایات ہر وقت رہتیں تو مریض خواتین شور مچاتیں وہ لکھتی بھی رہتیں مگر کوئی شنوائی نہ تھی ۔ ایک دن وہ مریض دیکھ رہی تھیں اور وہ شکایت کررہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کوئی دوائی نہیں ملتی تو ڈاکٹر نیلوفر نے کہا تم لوگ محترمہ بینظیر کو ووٹ دیتے ہو تو اِنکے لوگوں سے کیو ں نہیں کہتے کہ ہمارا خیال کرو ۔وہ زمانہ محترمہ کا عہدِ حکومت تھا۔تو تاریخی جواب سنییے”” مریضہ فرماتیں ہیں” ڈاکٹر صاحب اُسکو کچھ مت کہنا وہ آپ یتیم ہے اب ہم ُاسکو تو تنگ نہیں کرے گا اِس واسطے “کرلو گل:crying3:اس قوم کا حال دیکھیں اور اسکی سادگی کس کس طرح ان کو بیوقوف بناتے یہاں تک تو اُنکی سوچ کی پہنچ ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے، مگر اِتنا ضرُور ہے کہ بھٹو اور بے نظیر اور دیگر سچ مُچ مر جاتے اگر انہیں طبعی موت مرنے دِیا جاتا۔ ہم شہید ساز قوم ہیں اِس لیےیہاں بھٹو کے مرنے کا سوال کرنا نادانی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے، مگر اِتنا ضرُور ہے کہ بھٹو اور بے نظیر اور دیگر سچ مُچ مر جاتے اگر انہیں طبعی موت مرنے دِیا جاتا۔ ہم شہید ساز قوم ہیں اِس لیےیہاں بھٹو کے مرنے کا سوال کرنا نادانی ہے۔
سو فی صد درست ۔شہدا کی لائین لگی ہے ۔آج تک نہیں کہتے کہ زندہ ہیں نواب زادہ لیاقت علی زندہ ہیں کیونکہ جن حضرات کا مال اور جان دونوں پاکستان کی تھیں اُن سے نہ ہمیں کوئی دلچسپی ہے نہ رغبت۔۔۔ ایسی ہی ایک شخصیت ، راجہ صاحب محمود آباد ، ہیں۔راجہ صاحب کی کوٹھی ‘ قیصر باغ’ اس وقت کے زعماء، مولانا محمد علی جوہر، گاندھی جی، مولانا آزاد اور محمد علی جناح کا مسکن بنتی۔ تحریک آزادی جو اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کی سانجھی تحریک تھی، کے اجلاس ہوتے،بڑے راجہ صاحب کو جناح صاحب سے خاص انسیت تھی۔ قائد اعظم اور رتی بائی کا نکاح بھی راجہ علی محمد خان نے پڑھایا تھا۔لیکن نئی نسل اُنکے نام سے بھی واقف نہیں۔تحریک پاکستان راجہ صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھی ۔ وہ ایک تخیل پسند ، جوشیلے نوجوان تھے۔

یہ تیرے پراسرار بندے۔ محمود آباد والے راجہ صاحب/شکور پٹھان | مکالمہ
 
آخری تدوین:

بابا-جی

محفلین
سو فی صد درست ۔شہدا کی لائین لگی ہے ۔آج تک نہیں کہتے کہ زندہ ہیںنواب زادہ لیاقت علی زندہ ہیں کیونکہ جن حضرات کا مال اور جان دونوں پاکستان کی تھیں اُن سے نہ ہمیں کوئی دلچسپی ہے نہ رغبت۔۔۔ ایسی ہی ایک شخصیت ، راجہ صاحب محمود آباد ، ہیں۔راجہ صاحب کی کوٹھی ‘ قیصر باغ’ اس وقت کے زعماء، مولانا محمد علی جوہر، گاندھی جی، مولانا آزاد اور محمد علی جناح کا مسکن بنتی۔ تحریک آزادی جو اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کی سانجھی تحریک تھی، کے اجلاس ہوتے،بڑے راجہ صاحب کو جناح صاحب سے خاص انسیت تھی۔ قائد اعظم اور رتی بائی کا نکاح بھی راجہ علی محمد خان نے پڑھایا تھا۔لیکن نئی نسل اُنکے نام سے بھی واقف نہیں۔تحریک پاکستان راجہ صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھی ۔ وہ ایک تخیل پسند ، جوشیلے نوجوان تھے۔

یہ تیرے پراسرار بندے۔ محمود آباد والے راجہ صاحب/شکور پٹھان | مکالمہ
اِنہیں یاد رکھنا چاہیے۔ یہ تو کوتاہی اور غفلت کی ذیل میں آتا ہے کہ اِنہیں فراموش کر دِیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تو تاریخی جواب سنییے”” مریضہ فرماتیں ہیں” ڈاکٹر صاحب اُسکو کچھ مت کہنا وہ آپ یتیم ہے اب ہم ُاسکو تو تنگ نہیں کرے گا اِس واسطے “کرلو گل:crying3:اس قوم کا حال دیکھیں اور اسکی سادگی کس کس طرح ان کو بیوقوف بناتے یہاں تک تو اُنکی سوچ کی پہنچ ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
جو قوم پچھلے 30سال سے یتیم بینظیر اور مسکین نواز شریف کے ہاتھوں جوتے کھا رہی تھی، وہ آج صرف 2 سال میں یتیم ومسکین عمران خان سے پوچھتی ہے کدھر ہے تبدیلی؟ کدھر ہے ریاست مدینہ؟ یہ اسی قابل ہیں کہ ان کو لگاتار جوتے مارے جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے، مگر اِتنا ضرُور ہے کہ بھٹو اور بے نظیر اور دیگر سچ مُچ مر جاتے اگر انہیں طبعی موت مرنے دِیا جاتا۔ ہم شہید ساز قوم ہیں اِس لیےیہاں بھٹو کے مرنے کا سوال کرنا نادانی ہے۔
نواز شریف تو جیل میں طبعی موت مر رہا تھا لیکن آپ کے غمگسار لفافہ میڈیا، ڈرپوک اسٹیبلشمنٹ اور بکے ہوئے ججز کی کاوشوں سے فرار کروا دیا گیا۔ آج وہ جعلی بیمار لندن میں اربوں روپے کے فلیٹس میں بیٹھ کر قوم کو آئین و قانون کا بھاشن دے رہا ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
نواز شریف تو جیل میں طبعی موت مر رہا تھا لیکن آپ کے غمگسار لفافہ میڈیا، ڈرپوک اسٹیبلشمنٹ اور بکے ہوئے ججز کی کاوشوں سے فرار کروا دیا گیا۔ آج وہ جعلی بیمار لندن میں اربوں روپے کے فلیٹس میں بیٹھ کر قوم کو آئین و قانون کا بھاشن دے رہا ہے۔
کپتان چاہتا تو اَڑ سکتا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ انہوں نے اتنی اندھی مچائی تھی کہ اصلی اندھے بھی نہ مچا سکیں۔
ان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔
پر یہ قوم اب کہتی ہے زندہ ہے بھٹو زندہ ۔میری ایک پڑوسن جو ڈاکٹر ہیں۔بہت مزے کا واقعہ سناتی ہیں ۔اُنکی پوسٹنگ لیاری ہاسپٹل میں تھی ۔تو ادویات کی کمی کی شکایات ہر وقت رہتیں تو مریض خواتین شور مچاتیں وہ لکھتی بھی رہتیں مگر کوئی شنوائی نہ تھی ۔ ایک دن وہ مریض دیکھ رہی تھیں اور وہ شکایت کررہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کوئی دوائی نہیں ملتی تو ڈاکٹر نیلوفر نے کہا تم لوگ محترمہ بینظیر کو ووٹ دیتے ہو تو اِنکے لوگوں سے کیو ں نہیں کہتے کہ ہمارا خیال کرو ۔وہ زمانہ محترمہ کا عہدِ حکومت تھا۔تو تاریخی جواب سنییے”” مریضہ فرماتیں ہیں” ڈاکٹر صاحب اُسکو کچھ مت کہنا وہ آپ یتیم ہے اب ہم ُاسکو تو تنگ نہیں کرے گا اِس واسطے “کرلو گل:crying3:اس قوم کا حال دیکھیں اور اسکی سادگی کس کس طرح ان کو بیوقوف بناتے یہاں تک تو اُنکی سوچ کی پہنچ ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
کپتان چاہتا تو اَڑ سکتا تھا۔
اب کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔
توشہ خانہ ریفرنس؛ نواز شریف کے اثاثوں کی قرقی کا حکم
ویب ڈیسک جمعرات 1 اکتوبر 2020
2087529-nawaz-1601542925-848-640x480.jpg

عدالت نے جن اثاثوں کی قرقی کا حکم دیا اس میں پراپرٹیز، گاڑیاں اور بنک اکاؤنٹس شامل ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: توشہ خانہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے پیش کردہ اثاثوں کی قرقی کا حکم دیدیا۔

احتساب عدالت نمبر 3 کے جج اصغر علی کی سربراہی میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں نیب نے عدالت کے حکم پر نواز شریف کے اثاثوں سے متعلق اہم ریکارڈ اکٹھا کرکے پیش کیا، اس موقع پر عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے پیش کردہ اثاثوں کی قرقی کا حکم دیا جس میں پراپرٹیز، گاڑیاں اور بنک اکاؤنٹس شامل ہیں۔

جج احتساب عدالت نے جن اثاثوں کی قرقی کا حکم دیا ان میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے نام پر لاہور میں 1650 کنال سے زائد زرعی اراضی، ان کے زیر استعمال مرسیڈیز، لینڈ کروزر، 2 ٹریکٹرز، لاہور کے نجی بنک میں ملکی و غیر ملکی اکاؤنٹس سمیت مری میں بنگلا اور شیخوپورہ میں 102 کنال زرعی اراضی شامل ہے۔
 
Top