توقف ۔۔۔۔ از فصیح احمد

سید فصیح احمد

لائبریرین
میں آرٹ گیلری کی پہلی منزل کی راہداری میں کھڑا، کھڑکی سے باہر چھوٹے باغ میں بھیگتے پھولوں کو دیکھ رہا تھا۔ سرما کی پہلی بارش برس رہی تھی۔ میں بہت دیر سے کونے پر رکا ہوا ہمت اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تیز ہوا سے بارش کا رخ میری جانب ہوا تو میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ قدموں کی آہٹ سے بہادر نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پھر سے دوُر بارش میں گم ہو جاتا۔ میں نے ہمت کر کے سوال کر لیا۔

۔۔ " تم بِیا سے پیار کرتے ہو؟" ۔۔

بہادر نے مجھے یوں گھورا جیسے کچا کھا جائے گا۔

۔۔ "اپنے کام سے کام رکھو!" ..

بہادر کے تیکھے مزاج کی وجہ سے، اس کے موڈ سے ہٹ کر بات کرنی بہت مشکل تھی۔ لیکن مجھے پیچھے سے، رنگوں سے بھرے ہاتھ کی چٹکی نے پھر سے مجبور کیا!

۔۔ "بس اتنا بتا دو، ہاں یا نہیں ۔۔۔ پھر کبھی تنگ نہیں کروں گا" ..

بہادر نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ اس کے سپاٹ چہرے پر نرمی کے آثار نمودار ہوئے لیکن اگلے ہی لمحے، وہی پتھرایا ہوا چہرا ۔۔

۔۔ "نہیں، بالکل نہیں!" ۔۔

یہ کہہ کر وہ چلتا ہوا راہداری کے کونے سے اوجھل ہو گیا۔

۔۔ "میں نے تم سے کہا تھا نا، وہ تم سے پیار نہیں کرتا۔" ۔۔

میں مڑ کر کونے کے پیچھے چھپی ہوئی بِیا سے مخاطب ہوا۔ لیکن اداس ہونے کے بجائے وہ اپنی بڑی جھیل آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔

۔۔ "تم نے اس کا جواب مکمل نہیں سنا" ۔۔

ایک طرف پڑے برش اور کینوس کو اٹھا کر وہ اپنے آرٹ روم کے دروازے تک پہنچی اور مڑ کر مدھم مسکراہٹ کے ساتھ، اپنا ایپرن جھاڑتے ہوئے بولی۔

۔۔ "اس کے الفاظ سے پہلے ۔۔۔ ایک توقف تھا" ۔۔

سامنے چھوٹے باغ کی دیوار کے پیچھے، ہوٹل کے ریکارڈر پر بجتا ہوا نغمہ مجھے اپنے جانب کھینچنے لگا۔

۔۔ "جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا " ۔۔
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
میں آرٹ گیلری کی پہلی منزل کی راہداری میں کھڑا، کھڑکی سے باہر چھوٹے باغ میں بھیگتے پھولوں کو دیکھ رہا تھا۔ سرما کی پہلی بارش برس رہی تھی۔ میں بہت دیر سے کونے پر رکا ہوا ہمت جمع کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تیز ہوا سے بارش کا رخ میری جانب ہوا تو میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ قدموں کی آہٹ سے بہادر نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پھر سے دوُر بارش میں گم ہو جاتا۔ میں نے ہمت اکٹھی کر کے سوال کر لیا۔

۔۔ " تم بِیا سے پیار کرتے ہو؟" ۔۔

بہادر نے مجھے یوں گھورا جیسے کچا چبا ڈالے گا۔

۔۔ "اپنے کام سے کام رکھو!" ..

بہادر کے تیکھے مزاج کی وجہ سے، اس کے موڈ سے ہٹ کر بات کرنی بہت مشکل تھی۔ لیکن مجھے پیچھے سے، رنگوں سے بھرے ہاتھوں کی چٹکی نے پھر سے مجبور کیا!

۔۔ "بس اتنا بتا دو، ہاں یا نہیں ۔۔۔ پھر کبھی تنگ نہیں کروں گا" ..

بہادر نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ اس کے سپاٹ چہرے پر نرمی کے آثار نمودار ہوئے لیکن اگلے ہی لمحے، وہی پتھرایا ہوا چہرا ۔۔

۔۔ "نہیں، بالکل نہیں!" ۔۔

یہ کہہ کر وہ چلتا ہوا راہداری کے کونے سے اوجھل ہو گیا۔

۔۔ "میں نے تم سے کہا تھا نا، وہ تم سے پیار نہیں کرتا۔" ۔۔

میں مڑ کر کونے کے پیچھے چھپی ہوئی بِیا سے مخاطب ہوا۔ لیکن اداس ہونے کے بجائے وہ اپنی بڑی جھیل آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔

۔۔ "تم نے اس کا جواب مکمل نہیں سنا" ۔۔

ایک طرف پڑے برش اور کینوس کو اٹھا کر وہ اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچی اور مڑ کر مدھم مسکراہٹ کے ساتھ، اپنا ایپرن جھاڑتے ہوئے بولی۔

۔۔ "اس کے الفاظ سے پہلے ۔۔۔ ایک توقف تھا" ۔۔

سامنے چھوٹے باغ کی دیوار کے پیچھے، ہوٹل کے ریکارڈر پر بجتا ہوا نغمہ مجھے اپنے جانب کھینچنے لگا۔

۔۔ "جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا " ۔۔
محبت کی زبان کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ خوبصورت تحریر ۔ مختصر اور جامع۔۔
 
Top