محمد تابش صدیقی
منتظم
سیر و سیاحت کے حوالے سے میرا تجربہ یہی رہا ہے کہ جتنے منصوبے پہلے سے تیار کرنے کی کوشش کی، کبھی نہ بن پائے۔ جب بھی ہوا، یہی ہوا کہ اچانک کوئی تحریک ملی، اور نکل پڑے۔
یہی ہوا کہ شفٹنگ کی مصروفیات کے دوران اتوار 7 اگست کی رات بڑے بھائی کا فون آیا کہ کل صبح فجر کے بعد تولی پیر (انگریزی کے ذریعہ مشہور نام ٹولی پیر) آزاد کشمیر جانے کا پروگرام بن رہا ہے، چلو گے۔ اپنی گاڑیوں پر ہی جانا ہے۔ چونکہ برائے سیاحت کشمیر کا سفر اب تک نہیں کیا تھا، اور ایک خواہش ہمیشہ سے موجود تھی، لہٰذا مسز کو بتایا سے پوچھا، اور فوراً ہامی بھر لی۔ چھوٹے بھائی کو بھی تیار کیا۔ سب سے بڑے بھائی اپنی فیملی اور سسرال والوں کے ساتھ اتوار کو ہی ایوبیہ، نتھیا گلی گئے ہوئے تھے، اس لیے اس تھکاوٹ کے ساتھ اگلے ہی دن کشمیر جانا مشکل تھا۔ یوں تین گاڑیوں کے مسافر ہم تین بھائیوں اور ایک بہن کی فیملی اگلے دن صبح جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ڈرائیونگ کا تجربہ کچھ اتنا ہی تھا کہ اب تک سب سے لمبا سفر اٹک تک کیا تھا، اور پہاڑی علاقہ کا سفر نہ ہونے کے برابر ہی کیا تھا۔ لہٰذا بہنوئی کو بھی اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا، کہ اگر میری بس ہو گئی، تو ڈرائیونگ سیٹ آپ کے حوالے۔
صبح فجر کے بعد تیار ہوتے ہوتے، اور ناشتہ کرتے کرتے نکلتے ہوئے 7 بج گئے۔ یوں 7 بجے ہمارا کشمیر کا سفر شروع ہوا۔ صبح جلدی نکلنا اس لیے ضروری تھا کہ ہم نے اسی دن واپس بھی آنا تھا۔ اسلام آباد سے بذریعہ کہوٹہ روڈ روانہ ہوئے۔ صبح کا وقت اور چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ کہوٹہ سے ہوتے ہوئے جیسے ہی کشمیر میں داخل ہوئے، روڈ پر گائے، بکریوں کی اجارہ داری نظر آئی۔ بیٹے نے کہا کہ گائے سڑک پر کیوں آ گئی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا گائے سڑک پر نہیں آ گئی ہے، یہ سڑک گائے بکریوں کے راستے پر بن گئی ہے۔ ڈرائیونگ کر رہا تھا،اس لیے یہ منظر محفوظ نہ کر سکا۔ راستہ زیادہ تر صاف ہی تھا، البتہ کچھ جگہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے پتھر روڈ پر موجود تھے، اور صفائی جاری تھی۔ ایک جگہ محسوس ہوا کہ چھوٹے بھائی کی گاڑی پیچھے رہ گئی ہے۔ لہٰذا رک کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ وہ جگہ سگنلز سے محروم تھی، اس لیے رابطہ بھی ممکن نہ تھا۔ بہرحال کافی دیر بعد ایک گاڑی آتی دکھائی دی۔ اس سے پوچھا تو پتا چلا کہ ایک جگہ روڈ سے پتھر ہٹانے کی وجہ سے گاڑیوں کو پیچھے روک لیا گیا تھا، اب وہاں سے گاڑیاں نکلی ہیں۔ خیر کچھ ہی دیر میں بھائی بھی پہنچ گیا تو سب کو اطمینان ہوا۔ اس جگہ سے ایک منظر
یہی ہوا کہ شفٹنگ کی مصروفیات کے دوران اتوار 7 اگست کی رات بڑے بھائی کا فون آیا کہ کل صبح فجر کے بعد تولی پیر (انگریزی کے ذریعہ مشہور نام ٹولی پیر) آزاد کشمیر جانے کا پروگرام بن رہا ہے، چلو گے۔ اپنی گاڑیوں پر ہی جانا ہے۔ چونکہ برائے سیاحت کشمیر کا سفر اب تک نہیں کیا تھا، اور ایک خواہش ہمیشہ سے موجود تھی، لہٰذا مسز کو بتایا سے پوچھا، اور فوراً ہامی بھر لی۔ چھوٹے بھائی کو بھی تیار کیا۔ سب سے بڑے بھائی اپنی فیملی اور سسرال والوں کے ساتھ اتوار کو ہی ایوبیہ، نتھیا گلی گئے ہوئے تھے، اس لیے اس تھکاوٹ کے ساتھ اگلے ہی دن کشمیر جانا مشکل تھا۔ یوں تین گاڑیوں کے مسافر ہم تین بھائیوں اور ایک بہن کی فیملی اگلے دن صبح جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ڈرائیونگ کا تجربہ کچھ اتنا ہی تھا کہ اب تک سب سے لمبا سفر اٹک تک کیا تھا، اور پہاڑی علاقہ کا سفر نہ ہونے کے برابر ہی کیا تھا۔ لہٰذا بہنوئی کو بھی اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا، کہ اگر میری بس ہو گئی، تو ڈرائیونگ سیٹ آپ کے حوالے۔
صبح فجر کے بعد تیار ہوتے ہوتے، اور ناشتہ کرتے کرتے نکلتے ہوئے 7 بج گئے۔ یوں 7 بجے ہمارا کشمیر کا سفر شروع ہوا۔ صبح جلدی نکلنا اس لیے ضروری تھا کہ ہم نے اسی دن واپس بھی آنا تھا۔ اسلام آباد سے بذریعہ کہوٹہ روڈ روانہ ہوئے۔ صبح کا وقت اور چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ کہوٹہ سے ہوتے ہوئے جیسے ہی کشمیر میں داخل ہوئے، روڈ پر گائے، بکریوں کی اجارہ داری نظر آئی۔ بیٹے نے کہا کہ گائے سڑک پر کیوں آ گئی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا گائے سڑک پر نہیں آ گئی ہے، یہ سڑک گائے بکریوں کے راستے پر بن گئی ہے۔ ڈرائیونگ کر رہا تھا،اس لیے یہ منظر محفوظ نہ کر سکا۔ راستہ زیادہ تر صاف ہی تھا، البتہ کچھ جگہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے پتھر روڈ پر موجود تھے، اور صفائی جاری تھی۔ ایک جگہ محسوس ہوا کہ چھوٹے بھائی کی گاڑی پیچھے رہ گئی ہے۔ لہٰذا رک کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ وہ جگہ سگنلز سے محروم تھی، اس لیے رابطہ بھی ممکن نہ تھا۔ بہرحال کافی دیر بعد ایک گاڑی آتی دکھائی دی۔ اس سے پوچھا تو پتا چلا کہ ایک جگہ روڈ سے پتھر ہٹانے کی وجہ سے گاڑیوں کو پیچھے روک لیا گیا تھا، اب وہاں سے گاڑیاں نکلی ہیں۔ خیر کچھ ہی دیر میں بھائی بھی پہنچ گیا تو سب کو اطمینان ہوا۔ اس جگہ سے ایک منظر