کاشفی
محفلین
غزل
(نیاز بریلوی)
تونے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اُٹھا دیا
وہیں محو حیرتِ بیخودی مجھے آئینہ سا بنا دیا
وہ جو نقشِ پا کی طرح رہی تھی نمود اپنے وجود کی
سو کشش سے دامن ناز کی اسے بھی زمیں سے مٹا دیا
کیا ہی چین خوابِ عدم میں تھا، نہ تھا زلفِ یار کا کچھ خیال
سو جگا کے شور ظہور نے مجھے کس بلا میں پھنسا دیا
رگ و پئے میں آگ بھڑک اُٹھی، پھونکے ہی پڑا سبھی بدن
مجھے ساقیا مئے آتشیں کا یہ جام کیسا پلا دیا
جبھی جا کے مکتبِ عشق میں سبق مقام فنا کیا
جو لکھا پڑھا تھا نیاز نے سو وہ صاف دل سے بھلا دیا