محسن وقار علی
محفلین
یہ بات حقیقت ہے کہ مذہب کا ریاستی امور میں استعمال مذہبی انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے۔ ماضی میں یورپ پر جب تک مذہب کا ریاست پر غلبہ رہا یورپ میں ترقی ممکن نہ ہوسکی بلکہ بدحالی، انتہا پسندی، جنگیں، افراتفری، بھوک یورپ کا صدیوں تک نصیب رہیں اور جب یورپ نے مذہب کو ریاست سے الگ کردیا اور ریاستوں کو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ جمہوری بنیاد پر چلانا شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی، خوشحالی یورپ کا مقدر بن گئیں۔ یہ 31 اکتوبر 1517 کا واقعہ ہے، مارٹن لوتھر نے وٹن برگ Witeen berg کے قلعہ نما چرچ پر اپنے انقلابی نظریات پر مبنی 95 نکات آویزاں کیے۔
بس یہیں سے چرچ میں اصلاحات کے عمل کا آغاز ہوا جسے ابھرتے ہوئے نئے سرمایہ دارانہ عالمی نظام سے تقویت ملی۔ بورژوازی نے یورپ کی برتری کے سامنے سر تسلیم خم کر نے سے انکار کردیا تھا اور ویٹی کن Vatican کے کبھی غلطی پر نہ ہونے کے تصور عام کی مخالفت کی تھی جب کہ ماضی میں جاگیرداری نظام نے وحدانیت کے عقیدے کی حمایت کرکے اس کے استحکام کو دوام بخشا تھا جب کہ پروٹسٹنٹ عقیدہ مختلف عقائد کی حامل ایک قومی ریاست کا نظریہ اور اس کا جواز فراہم کررہا تھا اور اس کے بعد یورپ میں ریاست کبھی مذاہب کے درمیان فریق نہ بنی اور ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہ رہا۔
ادھر ہندوستا ن میں 19 ویں صدی کے تیسرے عشرے میں مسلمان اور ہندوئوں کی سوچ اور فکر کو وسیع پیمانے پر عوامی پذیرائی حاصل ہونے لگی تھی، دونوں قومیں تحریک خلافت کے دوران اور بعدازاں سائمن کمیشن کے خلاف عوامی ابھار کو منظم تحریک کی شکل دینے میں اپنی اپنی اہلیت و صلاحیت اور جوش و جذبے کا بھرپور مظاہرہ کرچکی تھیں، یہ ہی وقت تھا جب ان کے درمیان دوری کی خلیج بھی تیزی سے بڑھ رہی تھی یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ شاعر و مفکر علامہ اقبال مسلمان قوم کے ایک سیاسی نظریہ ساز کی حیثیت حاصل کرچکے تھے اور ان کی طرف سے برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل علیحد ہ اور خود مختار وفاقی اکائیوں کے قیام کی تجویز سامنے آچکی تھی۔
1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی تجاویز علیحدہ مسلم قومیتی نظریے کی صورت میں پیش کیں۔ یہ تنازعہ آج بھی جاری ہے کہ علامہ اقبال پاکستان میں جمہوری اصولوں کی حکمرانی چاہتے تھے یاکسی عوامی رائے کے بغیر مذہبی جماعتوں کی حکومت؟ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کی مختلف توضیحات پیش کی جاتی ہیں جس میں ایک توضیح یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کا تصور مملکت ایک ایسی مذہبی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلامی شریعت پر ہو لیکن یہ دعویٰ کرنے والے عام طور پر خطاب کے وہ اہم حصے نظر انداز کرجاتے ہیں جن سے صاف عیاں ہے کہ علامہ اقبال نے قطعی طور پر ایک ایسی مذہبی ریاست کی بات نہیں کی جہاں مذہبی جماعتوں کی حکومت ناگزیر ہو۔
1930 میں علامہ اقبال کے سامنے سب سے اہم مسئلہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے مفاد کا تحفظ تھا، برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوئوںکے غلبے اور چوہدراہٹ سے خطرہ تھا، علامہ اقبال کے نزدیک اگر مسلمانوں کو تحفظ کی ضمانت مل جاتی تو متحدہ ہندوستان کے ریاستی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکل سکتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ’’میں جہاں تک مسلمان کے ذہن کو سمجھ پایا ہوں مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ ایک مستقل فرقہ وارانہ معاہدے کے تحت اگر اس اصول کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کرلیا جائے کہ برصغیر کا مسلمان اپنی ثقافت اور اپنی روایات کے مطابق زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کا مکمل اور آزادانہ حق رکھتا ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگانے کے لیے تیار ہوگا‘‘۔
اس اہم بیان سے اس کے سوا کیا مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر متحدہ برصغیر کی حکومت اقلیتوں کے خصوصی حقوق کی ضمانت دے سکتی تو ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر چہ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ ایسا ممکن نہیں تھا لیکن غور طلب نکتہ یہ ہے کہ علامہ اقبال ایک مستقل آہنی انتظام کے تحت ایسی حکومت کے خواہاں تھے جو نہ تو صرف مسلمانوں پر مشتمل تھی اورنہ ہی لازماً اسلامی تھی، علامہ اقبال ایسی ممکنہ ریاست میں دوسری قوموں کے حقوق کی ضمانت بھی دیتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا ’’نہ ہی ہندوئوں کو یہ خدشہ ہونا چاہیے کہ ایسی خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام کا مطلب ان ریاستوں میں مذہبی حکومت کا قیام ہے‘‘ یہ علامہ اقبال کے اپنے الفاظ ہیں، مقصد یہ ہی صاف نظر آتا ہے کہ ان کا نقطہ نظر ایک مسلم ریاست کا قیام تھا۔
علامہ اقبال اسے مسلم ریاست کہتے تھے نہ کہ اسلامی ریاست۔ تاکہ مسلمانوں کے معاشی، ثقافتی اور معاشرتی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔ مسلم ریاست کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے تو یہاں تک ممکن سمجھا کہ ’’ایک مسلم ریاست کے تشخص کا اندازہ انڈین بیکنگ انکوائر ی کمیٹی پر ٹائمز آف انڈیا کے ایک اداریے سے ہوتا ہے، اخبار لکھتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں سود کی شرح قابو میں رکھنے کے لیے ریاست قوانین بناتی تھی لیکن مسلمان حکومتوں کے دور میں شرح سود پر کبھی پابندی نہیں عائد کی گئی، حالانکہ اسلام واضح طور پر سود سے منع کرتا ہے۔
علامہ اقبال کے خیالات میں اس امر کی واضح یقین دہانی موجود ہے کہ مجوزہ مسلم ریاست میں مذہبی جماعتوں کی سیاست حق حکمرانی کا حوالے نہیں ٹھہرے گی‘‘ البتہ اگر کوئی بھی جماعت جمہوری اصولوں اور ضابطوں کے تحت عوام کی اکثریت کی تائید سے منتخب ہوکر آجاتی ہے تو اس کا حق حکمرانی تسلیم کیاجائے گا مگر اس بنا پر نہیں کہ اس کا کوئی مخصوص نظریہ ہے، محض اس حوالے سے کہ انتخابات میں اس جماعت نے ووٹ زیادہ حاصل کیے۔ قیام پاکستان کے موقعے پر قائداعظم محمد علی جناح نے جو بیان دیا ذرا اس کے اہم نکات پر ایک بار پھر ہم غور فرمائیں کہ ’’آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو ریاستی امور کی انجام دہی کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ یہ بانی پاکستان قائد اعظم کے اپنے الفاظ ہیں جو اس وقت ادا کیے گئے جب بانی پاکستان کا مقصد نئی مملکت کے آئیڈیل کی نشاندہی کرنا تھا۔
بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے پاکستان کو علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی سوچ، نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر نہیں چلایا۔ پاکستان سیاسی و جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا، پاکستان بنانے کی تحریک میں ملائوں کا کوئی کردار نہیں رہا بلکہ انھوں نے پاکستان بنانے کی بھر پور مخالفت کی لیکن جیسے ہی پاکستان بنا ملا چپکے اور خاموشی سے نئے ملک میں داخل ہوگئے اور مذہب کے نام پر اپنے ایجنڈے کو خاموشی کے ساتھ آگے بڑھانے لگے، جنر ل یحییٰ کے دور میں انھیں طاقت حاصل ہوئی اور جنرل ضیا کے دور میں ان کی چاندی ہوگئی اور جنرل پرویز مشرف نے ان کے ایجنڈے کو جلا بخشی اور آج مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کینسر نے پور ے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ملک میں جاری انتہاپسندی اور دہشت گردی میں اضافہ 9/11 کے بعد نہیں ہوا اور نہ ہی یہ ڈرون حملوں کا نتیجہ ہیں بلکہ ملک میں مذہبی انتہاپسندی کی اصل وجہ مذہب اور ریاست کا الگ الگ نہ ہونا ہے۔ ہم اگر پہلے ہی دن سے مذہب کو ریاست سے الگ کردیتے اور ملک کو جمہوری بنیاد پر علامہ اقبال اور قائداعظم کی سو چ، فکر، نظریات کے مطابق چلاتے تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اگر ہمیں ملک اور قوم کو خوشحال، ترقی یافتہ بنانا ہے تو ہمیں پاکستان کو علامہ اقبال اور قائداعظم کی سو چ کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
بس یہیں سے چرچ میں اصلاحات کے عمل کا آغاز ہوا جسے ابھرتے ہوئے نئے سرمایہ دارانہ عالمی نظام سے تقویت ملی۔ بورژوازی نے یورپ کی برتری کے سامنے سر تسلیم خم کر نے سے انکار کردیا تھا اور ویٹی کن Vatican کے کبھی غلطی پر نہ ہونے کے تصور عام کی مخالفت کی تھی جب کہ ماضی میں جاگیرداری نظام نے وحدانیت کے عقیدے کی حمایت کرکے اس کے استحکام کو دوام بخشا تھا جب کہ پروٹسٹنٹ عقیدہ مختلف عقائد کی حامل ایک قومی ریاست کا نظریہ اور اس کا جواز فراہم کررہا تھا اور اس کے بعد یورپ میں ریاست کبھی مذاہب کے درمیان فریق نہ بنی اور ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہ رہا۔
ادھر ہندوستا ن میں 19 ویں صدی کے تیسرے عشرے میں مسلمان اور ہندوئوں کی سوچ اور فکر کو وسیع پیمانے پر عوامی پذیرائی حاصل ہونے لگی تھی، دونوں قومیں تحریک خلافت کے دوران اور بعدازاں سائمن کمیشن کے خلاف عوامی ابھار کو منظم تحریک کی شکل دینے میں اپنی اپنی اہلیت و صلاحیت اور جوش و جذبے کا بھرپور مظاہرہ کرچکی تھیں، یہ ہی وقت تھا جب ان کے درمیان دوری کی خلیج بھی تیزی سے بڑھ رہی تھی یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ شاعر و مفکر علامہ اقبال مسلمان قوم کے ایک سیاسی نظریہ ساز کی حیثیت حاصل کرچکے تھے اور ان کی طرف سے برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل علیحد ہ اور خود مختار وفاقی اکائیوں کے قیام کی تجویز سامنے آچکی تھی۔
1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی تجاویز علیحدہ مسلم قومیتی نظریے کی صورت میں پیش کیں۔ یہ تنازعہ آج بھی جاری ہے کہ علامہ اقبال پاکستان میں جمہوری اصولوں کی حکمرانی چاہتے تھے یاکسی عوامی رائے کے بغیر مذہبی جماعتوں کی حکومت؟ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کی مختلف توضیحات پیش کی جاتی ہیں جس میں ایک توضیح یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کا تصور مملکت ایک ایسی مذہبی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلامی شریعت پر ہو لیکن یہ دعویٰ کرنے والے عام طور پر خطاب کے وہ اہم حصے نظر انداز کرجاتے ہیں جن سے صاف عیاں ہے کہ علامہ اقبال نے قطعی طور پر ایک ایسی مذہبی ریاست کی بات نہیں کی جہاں مذہبی جماعتوں کی حکومت ناگزیر ہو۔
1930 میں علامہ اقبال کے سامنے سب سے اہم مسئلہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے مفاد کا تحفظ تھا، برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوئوںکے غلبے اور چوہدراہٹ سے خطرہ تھا، علامہ اقبال کے نزدیک اگر مسلمانوں کو تحفظ کی ضمانت مل جاتی تو متحدہ ہندوستان کے ریاستی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکل سکتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ’’میں جہاں تک مسلمان کے ذہن کو سمجھ پایا ہوں مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ ایک مستقل فرقہ وارانہ معاہدے کے تحت اگر اس اصول کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کرلیا جائے کہ برصغیر کا مسلمان اپنی ثقافت اور اپنی روایات کے مطابق زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کا مکمل اور آزادانہ حق رکھتا ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگانے کے لیے تیار ہوگا‘‘۔
اس اہم بیان سے اس کے سوا کیا مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر متحدہ برصغیر کی حکومت اقلیتوں کے خصوصی حقوق کی ضمانت دے سکتی تو ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر چہ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ ایسا ممکن نہیں تھا لیکن غور طلب نکتہ یہ ہے کہ علامہ اقبال ایک مستقل آہنی انتظام کے تحت ایسی حکومت کے خواہاں تھے جو نہ تو صرف مسلمانوں پر مشتمل تھی اورنہ ہی لازماً اسلامی تھی، علامہ اقبال ایسی ممکنہ ریاست میں دوسری قوموں کے حقوق کی ضمانت بھی دیتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا ’’نہ ہی ہندوئوں کو یہ خدشہ ہونا چاہیے کہ ایسی خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام کا مطلب ان ریاستوں میں مذہبی حکومت کا قیام ہے‘‘ یہ علامہ اقبال کے اپنے الفاظ ہیں، مقصد یہ ہی صاف نظر آتا ہے کہ ان کا نقطہ نظر ایک مسلم ریاست کا قیام تھا۔
علامہ اقبال اسے مسلم ریاست کہتے تھے نہ کہ اسلامی ریاست۔ تاکہ مسلمانوں کے معاشی، ثقافتی اور معاشرتی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔ مسلم ریاست کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے تو یہاں تک ممکن سمجھا کہ ’’ایک مسلم ریاست کے تشخص کا اندازہ انڈین بیکنگ انکوائر ی کمیٹی پر ٹائمز آف انڈیا کے ایک اداریے سے ہوتا ہے، اخبار لکھتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں سود کی شرح قابو میں رکھنے کے لیے ریاست قوانین بناتی تھی لیکن مسلمان حکومتوں کے دور میں شرح سود پر کبھی پابندی نہیں عائد کی گئی، حالانکہ اسلام واضح طور پر سود سے منع کرتا ہے۔
علامہ اقبال کے خیالات میں اس امر کی واضح یقین دہانی موجود ہے کہ مجوزہ مسلم ریاست میں مذہبی جماعتوں کی سیاست حق حکمرانی کا حوالے نہیں ٹھہرے گی‘‘ البتہ اگر کوئی بھی جماعت جمہوری اصولوں اور ضابطوں کے تحت عوام کی اکثریت کی تائید سے منتخب ہوکر آجاتی ہے تو اس کا حق حکمرانی تسلیم کیاجائے گا مگر اس بنا پر نہیں کہ اس کا کوئی مخصوص نظریہ ہے، محض اس حوالے سے کہ انتخابات میں اس جماعت نے ووٹ زیادہ حاصل کیے۔ قیام پاکستان کے موقعے پر قائداعظم محمد علی جناح نے جو بیان دیا ذرا اس کے اہم نکات پر ایک بار پھر ہم غور فرمائیں کہ ’’آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو ریاستی امور کی انجام دہی کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ یہ بانی پاکستان قائد اعظم کے اپنے الفاظ ہیں جو اس وقت ادا کیے گئے جب بانی پاکستان کا مقصد نئی مملکت کے آئیڈیل کی نشاندہی کرنا تھا۔
بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے پاکستان کو علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی سوچ، نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر نہیں چلایا۔ پاکستان سیاسی و جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا، پاکستان بنانے کی تحریک میں ملائوں کا کوئی کردار نہیں رہا بلکہ انھوں نے پاکستان بنانے کی بھر پور مخالفت کی لیکن جیسے ہی پاکستان بنا ملا چپکے اور خاموشی سے نئے ملک میں داخل ہوگئے اور مذہب کے نام پر اپنے ایجنڈے کو خاموشی کے ساتھ آگے بڑھانے لگے، جنر ل یحییٰ کے دور میں انھیں طاقت حاصل ہوئی اور جنرل ضیا کے دور میں ان کی چاندی ہوگئی اور جنرل پرویز مشرف نے ان کے ایجنڈے کو جلا بخشی اور آج مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کینسر نے پور ے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ملک میں جاری انتہاپسندی اور دہشت گردی میں اضافہ 9/11 کے بعد نہیں ہوا اور نہ ہی یہ ڈرون حملوں کا نتیجہ ہیں بلکہ ملک میں مذہبی انتہاپسندی کی اصل وجہ مذہب اور ریاست کا الگ الگ نہ ہونا ہے۔ ہم اگر پہلے ہی دن سے مذہب کو ریاست سے الگ کردیتے اور ملک کو جمہوری بنیاد پر علامہ اقبال اور قائداعظم کی سو چ، فکر، نظریات کے مطابق چلاتے تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اگر ہمیں ملک اور قوم کو خوشحال، ترقی یافتہ بنانا ہے تو ہمیں پاکستان کو علامہ اقبال اور قائداعظم کی سو چ کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس