جوش تو اگر واپس نہ آتی!

تو اگر واپس نہ آتی!
(جوشؔ کی ایک بہت مرغوب نظم)​

تو اگر واپس نہ آتی بحرِ ہیبت ناک سے
حشر کے دن تک دھواں اٹھتا بطونِ خاک سے
ہات آجاتا اگر تیرا نہ میرے ہات میں
دل پہ کیا کچھ بیت جاتی اس اندھیری رات میں (حضرتِ جوشؔ ہاتھ کو ضرورتِ شعری کی بنا پر ہات باندھنا جائز سمجھتے ہیں)
اف وہ طوفاں وہ بھیانک تیرگی، وہ ابر و باد
وہ ہوائے تند باراں، وہ خروشِ برق و رعد (باد کا اور رعد کا قافیہ میرے نزدیک درست ہے۔ جوشؔ۔)
دفعتہً وہ روشنی کے سلسلے کا ٹوٹنا
وہ گھٹاؤں کی گرج سے نبضِ ساحل چھوٹنا
وہ "اپالو" کے کلیجے کی مچلتی "مان سون"
وہ سمندر کے تھپیڑے، وہ ہواؤں کا جنون
اور اس طوفان میں اے زندگی کی روشنی
کود پڑنا وہ سمندر میں ترا یک بارگی

تو اگر واپس نہ آتی بحرِ ہیبت ناک سے
حشر کے دن تک دھواں اٹھتا بطونِ خاک سے
اس دلِ سوزاں میں آتے اس بلا کے زلزلے
آسماں روتا، زمیں ہلتی، ستارے کانپتے
موت، اور پھر موت تیری، الحفیظ و الاماں
ہڈیوں سے آنچ اٹھتی، اور بالوں سے دھواں

لیکن اک لمحے کے بعد اے پیکرِ حسن و حیات
جوشؔ کو بھی کاوشِ ہستی سے مل جاتی نجات
پہلے ہوتا اک طلاطم، ایک طوفاں ایک جوش
بعدازاں تو اور میں، اور بحرِ باراں کا خروش
اتصال روح ہوتا موت کے گرداب میں
آتش غم سرد ہوجاتی کنارِ آب میں

بحر کے سینے کو جب طوفان میں لاتی ہوا
پے بہ پے آتی ہمارے گنگنانے کی صدا
جب گھٹائیں رقص کرتیں اور پپیہے کی کوکتے
نور میں لپٹے ہوئے دونوں ابھرتے بحر سے
رات جب کچھ بھیگ جاتی اور جھک جاتا قمر
سیر کرتے روز ہم بانہیں گلوں میں ڈال کر
کوئلیں جب کوکنے لگتیں اندھیری رات میں
صبح تک دھومیں مچاتے ہم بھری برسات میں
چھیڑتا جب کوئی ساحل پر ہماری داستاں
پڑنے لگتیں بحر پر دھندلی سی دو پرچھائیاں
زندہ رہتے حشر تک غم کے پرستاروں میں ہم
سانس لیتے سازِ حسن و عشق کے تاروں میں ہم
وقف ہوجاتے محبت کے فسانے کے لیے
سرد ہو کر آگ بن جاتے زمانے کے لیے

حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی
(پس منظر: یہ نظم جوشؔ نے اس وقت کہی جب انکی محبوبہ پاؤں پھسلنے کی وجہ سے سمندر میں گر گئیں تھیں۔ انہوں نے خود پانی میں چھلانگ لگا کر محبوبہ کو بچایا اور ہسپتال پہنچایا۔ مفصل کہانی یادوں کی بارات میں انکے قلم سے موجود ہے)
 

طارق شاہ

محفلین
نقوی صاحب!
جوش صاحب کی کیا بات ہو
مشہور ہے کہ الفاظ ، آنجناب کے حضور، ہاتھ باندھے کھڑے رہنے کے مترادف تھے

تشکّر نظم شیئر کرنے پر :)
تاہم کچھ مصرعے بوجہ ٹائپنگ وزن میں نہیں ہیں :


اتّصالِ رُوح ہوتا موت کے گرداب میں
آتشِ غم سرد ہوجاتی کنارِ آب میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑنے لگتیں بحر پر دُھندلی سی دو پرچھائیاں

بالا مصرعہ بھی قیاس ہے کہ یوں ہوگا :
پڑنے لگتیں بحر پر دو دُھندلی پرچھائیاں

تشکّر ایک بار پھر سے صاحب نظم شیئر کرنے پر !
بہت خوش رہیں :)
 
نقوی صاحب!
جوش صاحب کی کیا بات ہو
مشہور ہے کہ الفاظ ، آنجناب کے حضور، ہاتھ باندھے کھڑے رہنے کے مترادف تھے

تشکّر نظم شیئر کرنے پر :)
تاہم کچھ مصرعے بوجہ ٹائپنگ وزن میں نہیں ہیں :


اتّصالِ رُوح ہوتا موت کے گرداب میں
آتشِ غم سرد ہوجاتی کنارِ آب میں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
پڑنے لگتیں بحر پر دُھندلی سی دو پرچھائیاں

بالا مصرعہ بھی قیاس ہے کہ یوں ہوگا :
پڑنے لگتیں بحر پر دو دُھندلی پرچھائیاں

تشکّر ایک بار پھر سے صاحب نظم شیئر کرنے پر !
بہت خوش رہیں :)

بہت شکریہ آپ کی نیک تماناؤں کا۔
جی بالکل ٹھیک مشہور ہے حضرتِ جوشؔ کے بارے!

پہلے شعر میں کیا ہوا ہے مجھے سمجھ نہ آیا۔
البتہ آپنے جو دوسرا مصرع کہا کہ بحر سے خارج ہے، تو میرا نہیں خیال کہ وہ اس طرح ہے۔ کتاب میں تو یوں ہی لکھا ہے اور میرا ذوق اور عروض بھی گواہی دیتا ہے کہ بحر ہی میں ہے۔ میں پھر بھی دیکھ لیتا ہوں۔
 
Top