تو بھی خفا نہیں ہے کہ تجھ کو مناؤں میں
اے دل میں رہنے والے تجھے کیا بتاؤں میں
آیا نہ ہاتھ کچھ بھی محبت میں آج تک
لیکن یہ طے نہیں ہے کہ کچھ بھی نہ پاؤں میں
رو رو کے بھی نہ بھایا کسی کو مرا بیاں
خوش ہو کے اس جہان کو اب کیا سناؤں میں
اک دل ہے لگ گیا ہے جو الفت کی راہ پر
دنیا کے کام دھندوں پہ کس کو لگاؤں میں
منزل کے پاس پہنچوں تو آئے مجھے قرار
رستے میں ہوں تو کیسے بھلا مسکراؤں میں
جس درجہ بھی ذلیل کرے مجھ کو تیرا شہر
ہو گا نہ یہ کہ تیری گلی چھوڑ جاؤں میں
سجدے میں سر جھکانے کا وقت آ گیا قریب
اٹھوں عظیم دوست سے مل کر تو آؤں میں
آخری تدوین: