قرۃالعین اعوان
لائبریرین
بارش کی پھوار پڑتے ہی پاک سرزمیں کی مٹی سے جو خوشبو مہکتی ہے تو اس مٹی پر ٹوٹ کر پیار آنے لگتا ہے۔۔۔۔
سوچتی ہوں ہم کس قدر خوش نصیب ہیں اور ہم پر اللہ رب العزت کا کیسا کرم ہے کہ انہوں نے ہمیں یہ ارضِ پاک عطا فرمائی۔۔!
سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو جب چہار سو پھیلتی ہے تو ماضی کے جھروکوں کو آباد کر دیتی ہے ۔۔۔! وہ ان گنت قربانیاں یاد آنے لگتی ہیں ۔۔
وہ شہیدوں کے لہو کی دھاریں۔۔۔!
وہ بہنوں کے بکھرتے لرزتے آنچل۔۔۔۔!
وہ ماؤں کی بلکتی ،سسکتی فریادیں۔۔۔!
وہ ارضِ پاک پر پہلا قدم رکھنے والوں کے والہانہ سجدے ۔۔۔!
اپنا سب کچھ لٹانے دینے کے باوجود پاک مٹی کو چومنے والی طمانیت سے مسکرانے والی وہ آنکھیں ۔۔۔۔!
سبھی کچھ یاد آنے لگتا ہے۔۔۔
کوئی تو بات ہوگی اس مٹی میں کہ ہم نے اسے اپنے لہو سے سیراب کیا۔۔۔
کوئی تو بات ہوگی ان فضاؤں میں کہ ہم نے اسے ان گنت جانوں کا خراج دیا ۔۔۔!
کوئی تو بات ہوگی ان ہواؤں میں کہ زخم زخم قافلے یہاں آتے ہی زخموں کا درماں پاگئے۔۔۔۔!
سوچ کی پرواز جب بلند ہوتی ہے تو کسی ایک منظر پر نہیں رکتی ۔۔۔پھر قطار در قطار منظروں سے پرواز کرتی ہے ۔۔۔۔
سوچ یہاں آکر سانس لینے کو رکتی ہے تو لگتا ہے وہ والہانہ جذبے۔۔۔وہ مہکتے دمکتے قربانیوں سے لبریز چہرے اب ماند پڑنے لگے ہیں۔۔۔!
وہ دل جو پیارے وطن کے لیئے ہر قربانی دینے کا جذبہ رکھتے تھے۔۔۔۔۔وطن کی محبت سے لبریز تھے ۔۔معمور تھے ۔۔۔اور جن کے دل کبھی پاکستانی نغموں کو سن کر خوشی سے جھوم جھوم جایا کرتے تھے وہ آج مرجھا گئے ہیں۔۔۔۔!
ہم جو کل کہتے تھے پاک سر زمیں جیسا کوئی نہیں آج اس کے مسائل گنواتے تھکتے نہیں ہیں۔۔۔!
جو وقت میرے دیس کی فلاح و بہبود پر اس کی تعمیر پر خرچ ہونا چاہیئے تھا وہ تمام وقت اب اس دیس کی خامیاں شمار کرنے میں ، انہیں گننے
اور انہیں بڑھانے میں خرچ ہوتا ہے ۔۔۔۔
میری سوچ کی پرواز کہتی ہے کہ بھلا اس مٹی سے بھی کوئی ناامید ہوسکتا ہے۔۔۔۔اس مٹی سے بھی کوئی بیزار ہوسکتا ہے۔۔۔جس مٹی کی بنیادوں میں قربانیوں کی ناختم ہونے والی داستان رقم ہے۔۔۔۔۔!
زرخیز مٹی سے ناامیدی کیسے جنم لے سکتی ہے ۔۔۔!
زرخیز مٹی سے تو عمل، ولولوں ، کامیابیوں ،عظمتوں کی فصل لہلہاتی ہے ۔۔۔۔!
زرخیز مٹی تو مرجھائے ہوئے چہروں کو پر بہار کردیتی ہے ۔۔۔۔!
پھر آج یہ شکایتوں ۔۔۔ناشکریوں ۔۔۔اندھیروں ۔۔ناامیدیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ کیوں چل پڑا۔۔۔۔!
کمی ہمارے عمل میں ۔۔۔کمی ہماری محنت میں۔۔۔کمی ہمارے خلوص میں ۔۔۔کمی ہمارے جذبوں میں ہے۔۔۔!
کھوٹ ہم میں ہے تو پھر کیوں یہ کھوٹ ہم اس مٹی میں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔۔۔۔!
مٹی تو آج بھی وہی ہے جیسی کل تھی لیکن ہم آج وہ نہیں جیسے کل تھے ۔۔۔ہم نے عمل کی راہ سے ہٹ کر تن آسانیوں کو گلے لگایا ہے ۔۔۔
یہ مسائل ہمارے اپنے ہاتھوں کی پیداوار ہیں ۔۔۔!
ہم آج یہ مان لیں کہ ہم وہ قرض ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں جو اس مٹی کا ہم پر واجب الادا تھا۔۔۔۔ گناہ کا اعتراف کرلینے کے بعد اس کا
کفارہ ادا کرنا بے حد آسان ہوجاتا ہے۔۔۔!
ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے محاذ کو ڈھونڈے اور اس محاذ پر رہ کر اس قرض کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو یہ مایوسیوں کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔۔۔۔۔!
خامیاں گننے انہیں بڑھانے کے علاوہ بھی تو بہت سے کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔۔۔قدم بڑھانے ۔۔۔قدم ملانے کی بات ہے ۔۔۔!
اندھیرے میں اندھیرے کو ختم کرنے کی بات کیجئے یہ نہیں کہ کوئی ایک شمع بھی روشن ہے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ اس کا کیا فائدہ چلو اسے بھی بجھادو۔۔۔۔!
دلوں سے دلوں کو ملائیے۔۔۔یہ سرزمیں تو محبتوں کی سرزمیں ہے ۔۔۔پرخلوص جذبوں کی سرزمیں ہے ۔۔۔یہ مٹی تو ہمہ وقت تیار رہتی ہے دینے کے لیئے ۔۔ہم اس پر توجہ تو کریں ۔۔اسے محبت تو دیں ۔۔۔۔اسے ایسے اور بیزاری کے حوالے تو نہ کریں۔۔۔
پھر دیکھئے کہ ہم دامن بھرتے رہیں گے فصل خالی نہیں ہوگی۔۔۔۔!
ذرا دیکھئے۔۔۔۔! سوچئے ۔۔۔۔! ذہن سے ہر مایوسی کو نکال کر ۔۔۔۔! کرنے کو بہت سے کام ہیں ۔۔۔! دینے کی نظر سے اس مٹی کو دیکھئے ۔۔۔!
پرکھئے۔۔۔۔!
ارض پاک کی مٹی ہم سب سے بہت کچھ کہتی ہے ۔۔۔دل کے دریچوں کو وا کرکے کبھی اس پکار کو ضرور سنئے گا۔۔۔۔۔!
سوچتی ہوں ہم کس قدر خوش نصیب ہیں اور ہم پر اللہ رب العزت کا کیسا کرم ہے کہ انہوں نے ہمیں یہ ارضِ پاک عطا فرمائی۔۔!
سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو جب چہار سو پھیلتی ہے تو ماضی کے جھروکوں کو آباد کر دیتی ہے ۔۔۔! وہ ان گنت قربانیاں یاد آنے لگتی ہیں ۔۔
وہ شہیدوں کے لہو کی دھاریں۔۔۔!
وہ بہنوں کے بکھرتے لرزتے آنچل۔۔۔۔!
وہ ماؤں کی بلکتی ،سسکتی فریادیں۔۔۔!
وہ ارضِ پاک پر پہلا قدم رکھنے والوں کے والہانہ سجدے ۔۔۔!
اپنا سب کچھ لٹانے دینے کے باوجود پاک مٹی کو چومنے والی طمانیت سے مسکرانے والی وہ آنکھیں ۔۔۔۔!
سبھی کچھ یاد آنے لگتا ہے۔۔۔
کوئی تو بات ہوگی اس مٹی میں کہ ہم نے اسے اپنے لہو سے سیراب کیا۔۔۔
کوئی تو بات ہوگی ان فضاؤں میں کہ ہم نے اسے ان گنت جانوں کا خراج دیا ۔۔۔!
کوئی تو بات ہوگی ان ہواؤں میں کہ زخم زخم قافلے یہاں آتے ہی زخموں کا درماں پاگئے۔۔۔۔!
سوچ کی پرواز جب بلند ہوتی ہے تو کسی ایک منظر پر نہیں رکتی ۔۔۔پھر قطار در قطار منظروں سے پرواز کرتی ہے ۔۔۔۔
سوچ یہاں آکر سانس لینے کو رکتی ہے تو لگتا ہے وہ والہانہ جذبے۔۔۔وہ مہکتے دمکتے قربانیوں سے لبریز چہرے اب ماند پڑنے لگے ہیں۔۔۔!
وہ دل جو پیارے وطن کے لیئے ہر قربانی دینے کا جذبہ رکھتے تھے۔۔۔۔۔وطن کی محبت سے لبریز تھے ۔۔معمور تھے ۔۔۔اور جن کے دل کبھی پاکستانی نغموں کو سن کر خوشی سے جھوم جھوم جایا کرتے تھے وہ آج مرجھا گئے ہیں۔۔۔۔!
ہم جو کل کہتے تھے پاک سر زمیں جیسا کوئی نہیں آج اس کے مسائل گنواتے تھکتے نہیں ہیں۔۔۔!
جو وقت میرے دیس کی فلاح و بہبود پر اس کی تعمیر پر خرچ ہونا چاہیئے تھا وہ تمام وقت اب اس دیس کی خامیاں شمار کرنے میں ، انہیں گننے
اور انہیں بڑھانے میں خرچ ہوتا ہے ۔۔۔۔
میری سوچ کی پرواز کہتی ہے کہ بھلا اس مٹی سے بھی کوئی ناامید ہوسکتا ہے۔۔۔۔اس مٹی سے بھی کوئی بیزار ہوسکتا ہے۔۔۔جس مٹی کی بنیادوں میں قربانیوں کی ناختم ہونے والی داستان رقم ہے۔۔۔۔۔!
زرخیز مٹی سے ناامیدی کیسے جنم لے سکتی ہے ۔۔۔!
زرخیز مٹی سے تو عمل، ولولوں ، کامیابیوں ،عظمتوں کی فصل لہلہاتی ہے ۔۔۔۔!
زرخیز مٹی تو مرجھائے ہوئے چہروں کو پر بہار کردیتی ہے ۔۔۔۔!
پھر آج یہ شکایتوں ۔۔۔ناشکریوں ۔۔۔اندھیروں ۔۔ناامیدیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ کیوں چل پڑا۔۔۔۔!
کمی ہمارے عمل میں ۔۔۔کمی ہماری محنت میں۔۔۔کمی ہمارے خلوص میں ۔۔۔کمی ہمارے جذبوں میں ہے۔۔۔!
کھوٹ ہم میں ہے تو پھر کیوں یہ کھوٹ ہم اس مٹی میں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔۔۔۔!
مٹی تو آج بھی وہی ہے جیسی کل تھی لیکن ہم آج وہ نہیں جیسے کل تھے ۔۔۔ہم نے عمل کی راہ سے ہٹ کر تن آسانیوں کو گلے لگایا ہے ۔۔۔
یہ مسائل ہمارے اپنے ہاتھوں کی پیداوار ہیں ۔۔۔!
ہم آج یہ مان لیں کہ ہم وہ قرض ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں جو اس مٹی کا ہم پر واجب الادا تھا۔۔۔۔ گناہ کا اعتراف کرلینے کے بعد اس کا
کفارہ ادا کرنا بے حد آسان ہوجاتا ہے۔۔۔!
ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے محاذ کو ڈھونڈے اور اس محاذ پر رہ کر اس قرض کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو یہ مایوسیوں کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔۔۔۔۔!
خامیاں گننے انہیں بڑھانے کے علاوہ بھی تو بہت سے کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔۔۔قدم بڑھانے ۔۔۔قدم ملانے کی بات ہے ۔۔۔!
اندھیرے میں اندھیرے کو ختم کرنے کی بات کیجئے یہ نہیں کہ کوئی ایک شمع بھی روشن ہے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ اس کا کیا فائدہ چلو اسے بھی بجھادو۔۔۔۔!
دلوں سے دلوں کو ملائیے۔۔۔یہ سرزمیں تو محبتوں کی سرزمیں ہے ۔۔۔پرخلوص جذبوں کی سرزمیں ہے ۔۔۔یہ مٹی تو ہمہ وقت تیار رہتی ہے دینے کے لیئے ۔۔ہم اس پر توجہ تو کریں ۔۔اسے محبت تو دیں ۔۔۔۔اسے ایسے اور بیزاری کے حوالے تو نہ کریں۔۔۔
پھر دیکھئے کہ ہم دامن بھرتے رہیں گے فصل خالی نہیں ہوگی۔۔۔۔!
ذرا دیکھئے۔۔۔۔! سوچئے ۔۔۔۔! ذہن سے ہر مایوسی کو نکال کر ۔۔۔۔! کرنے کو بہت سے کام ہیں ۔۔۔! دینے کی نظر سے اس مٹی کو دیکھئے ۔۔۔!
پرکھئے۔۔۔۔!
ارض پاک کی مٹی ہم سب سے بہت کچھ کہتی ہے ۔۔۔دل کے دریچوں کو وا کرکے کبھی اس پکار کو ضرور سنئے گا۔۔۔۔۔!