تو سوچتا ہے : غزل برائے اصلاح

سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز براہ مہربانی اصلاح فرمائیں۔۔۔

مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن

تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے ؟
یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اسکا چیر دیں گے

تمہارا دشمن نشانہ باندھے گا جب بھی تم پر
یہ دوست جا کر کمان میں اسکی تیر دیں گے

تری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے
صلے میں رنگین خواب آنکھوں کو نیر دیں گے

جو تیرے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
جہاں کو ہم تیرے حسن کی کیا نظیر دیں گے؟

جو نام والوں سے چاہتے ہو ، نہیں ملے گا
تمہیں ضرورت ہو جان ( یا 'خون' ) بھی ، ہم فقیر دیں گے

یہ موج مستی کے سب مواقع ، وہ عیش و عشرت
تمہیں تمہاری ہر اک ادا کے اسیر دیں گے

مداح انکی بیان کر تو ، بروزِ محشر
تجھے وہ اجرِ عظیم ، اجرِ کثیر دیں گے

لٹے ہوئے قافلے ، برہنہ کٹے ہوئے سر
زمانے کو نور تا قیامت اسیر دیں گے

ہمارے تمّہارے درمیاں ہو گی ایک سرحد
یہ لوگ عمران کھینچ ایسی لکیر دیں گے
یا
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت ( یا 'چاہت') میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے

( یا
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد ، نہ مل سکیں گے
یہ لوگ قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے )

شکریہ
 
آخری تدوین:
عمران سرگانی بھائی غزل کا کوئی عنوان نہیں ہوتا ہے بلکہ مطلع کے ایک مصرع کو استعمال کیا جاتا ہے۔
آپ درست فرما رہے ہیں۔۔۔ میں بھی علم ہونے کے باوجود جان بوجھ کر مسلسل یہ گناہ کرتا آ رہا ہوں تاکہ لڑی پر کبھی دوبارہ آنا پڑے تو مشکل نہ ہو۔۔۔
اب آپ جیسا کہیں گے ویسا کروں گا۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلے چار اشعار درست ہیں
یہ موج مستی کے سب مواقع ، وہ عیش و عشرت
تمہیں تمہاری ہر اک ادا کے اسیر دیں گے
.. اس میں اور ایک اگلے شعر میں اسیر قافیہ محض قافیہ استعمال کرنے کی ناکام کوشش لگ رہی ہے۔ انہیں نکال دیا جائے تو بہتر ہے

مداح انکی بیان کر تو ، بروزِ محشر
تجھے وہ اجرِ عظیم ، اجرِ کثیر دیں گے
... مداح کوئی لفظ نہیں، مدح ہوتا ہے یا مدّاح، دال مشدد، نعتیہ شعر ہے تو سمجھ میں آتا ہے، اس صورت میں یوں کہو واضح کر کے
نبی کی مدحت بیاں کرے گا تو روز محشر

لٹے ہوئے قافلے ، برہنہ کٹے ہوئے سر
زمانے کو نور تا قیامت اسیر دیں گے
... اوپر بات ہو چکی، یہ بھی گردن زدنی ہے

ہمارے تمّہارے درمیاں ہو گی ایک سرحد
یہ لوگ عمران کھینچ ایسی لکیر دیں گے
یا
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت ( یا 'چاہت') میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
( یا
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد ، نہ مل سکیں گے
یہ لوگ قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے )
.... ہہ بہتر ہے
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
.
 
ب
پہلے چار اشعار درست ہیں
یہ موج مستی کے سب مواقع ، وہ عیش و عشرت
تمہیں تمہاری ہر اک ادا کے اسیر دیں گے
.. اس میں اور ایک اگلے شعر میں اسیر قافیہ محض قافیہ استعمال کرنے کی ناکام کوشش لگ رہی ہے۔ انہیں نکال دیا جائے تو بہتر ہے

مداح انکی بیان کر تو ، بروزِ محشر
تجھے وہ اجرِ عظیم ، اجرِ کثیر دیں گے
... مداح کوئی لفظ نہیں، مدح ہوتا ہے یا مدّاح، دال مشدد، نعتیہ شعر ہے تو سمجھ میں آتا ہے، اس صورت میں یوں کہو واضح کر کے
نبی کی مدحت بیاں کرے گا تو روز محشر

لٹے ہوئے قافلے ، برہنہ کٹے ہوئے سر
زمانے کو نور تا قیامت اسیر دیں گے
... اوپر بات ہو چکی، یہ بھی گردن زدنی ہے

ہمارے تمّہارے درمیاں ہو گی ایک سرحد
یہ لوگ عمران کھینچ ایسی لکیر دیں گے
یا
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت ( یا 'چاہت') میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
( یا
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد ، نہ مل سکیں گے
یہ لوگ قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے )
.... ہہ بہتر ہے
ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
.
بہت شکریہ سر۔۔۔ اس بار آپ کے مشورہ کے مطابق پہلے غزل کو خود وقت دیا ہے۔۔۔
 
اپکی صلاح کے مطابق سر الف عین

تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے ؟
یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اسکا چیر دیں گے

تمہارا دشمن نشانہ باندھے گا جب بھی تم پر
یہ دوست جا کر کمان میں اسکی تیر دیں گے

تری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے
صلے میں رنگین خواب آنکھوں کو نیر دیں گے

جو تیرے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
جہاں کو ہم تیرے حسن کی کیا نظیر دیں گے؟

جو نام والوں سے چاہتے ہو ، نہیں ملے گا
تمہیں ضرورت ہو جان بھی ، ہم فقیر دیں گے


نبی کی مدحت بیاں کرے گا تو روز محشر
تجھے وہ اجرِ عظیم ، اجرِ کثیر دیں گے

ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے ؟
یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اسکا چیر دیں گے
۔۔۔درست
تمہارا دشمن نشانہ باندھے گا جب بھی تم پر
یہ دوست جا کر کمان میں اسکی تیر دیں گے
۔۔۔ کچھ زیادہ ہی تکنیکی شعر نہیں؟؟
جنہیں تم اپنا سمجھ رہے ہو، وہ غیر نکلے
تمہارے دشمن کے ہاتھ میں جا کے تیر دیں گے
۔۔۔۔ یا اسی طرح کا کچھ اور سوچا جاسکتا ہے ۔۔ غور کیجئے گا۔۔

تری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے
صلے میں رنگین خواب آنکھوں کو نیر دیں گے
۔۔۔ صلہ کس چیز کا؟ خواب دیکھنے کا؟ مجھے نیر اردو میں اچھا نہیں لگا ۔۔یہ محترم الف عین بتا سکتے ہیں درست ہے کہ نہیں۔

جو تیرے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
جہاں کو ہم تیرے حسن کی کیا نظیر دیں گے؟
۔۔۔ مثال دینا یہاں زیادہ فصیح ہوتا، خیر ، قافیے کی پابندی بھی ہے ۔۔ پہلا مصرع، پھر بھی بدل سکتے ہیں، یہ دیکھئے:
تمہارے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
تمہارے حسن و جمال کی کیا نظیر دیں گے ؟
۔۔۔ یا اسی طرح کچھ اور ہو سکتا ہے ۔۔۔ دیکھئے گا یہ بھی ۔۔۔

جو نام والوں سے چاہتے ہو ، نہیں ملے گا
تمہیں ضرورت ہو جان بھی ، ہم فقیر دیں گے
۔۔۔ نہیں صاحب، یہاں بات بنتی نظرنہیں آتی ۔۔۔ دیکھئے یہ بھی:
جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے ۔۔۔
۔۔۔ یہ شاید قدرے بہتر لگے ۔۔


نبی کی مدحت بیاں کرے گا تو روز محشر
تجھے وہ اجرِ عظیم ، اجرِ کثیر دیں گے
۔۔ اچھا پہلے مصرعے میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ لفظ تو کو میں تُو سمجھا، یہی مسئلہ آپ کے پڑھنے والوں کو پیش آسکتا ہے۔
اگر انہوں نے اسے تُو پڑھا تو بات بننے والی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرا مصرع، اجرِ عظیم یا اجرِ کثیر، ان میں سے کوئی ایک ہی ترکیب چلانی چاہئے آپ کو، اگر مصرع مؤثر اور جاندار بنانا ہے۔
دیکھئے یہ صورت بھی:
نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے

ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
۔۔۔۔ دوسرے مصرعے میں آپ کو لکیر کا لفظ لانے کے لیے جو محنت کرنی پڑی وہ قاری کو بھی نظر آ رہی ہے۔۔
آپ کو اس طرح کی کمزوریوں سے بچنا ہے ۔۔ شعر کہنے میں چاہے ہفتہ دس دن لگیں، اندازِ بیان اتنا سادہ ہونا چاہئے کہ آپ الفاظ سے جنگ کرتے نظر نہ آئیں۔۔۔
دوسری بات، سرحد دو ممالک کے درمیان ہوتی ہے، لوگوں کے درمیان میری سمجھ میں نہیں آتی ۔۔
لوگوں کے درمیان فاصلہ ہوسکتا ہے، حدِ فاصل ہوسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ جو آپ کو اچھا لگے۔۔
ترے مرے بیچ فاصلے آ گئے ہیں عمرانؔ ۔۔۔
۔۔ دوسرا مصرع آپ ہی سوچیں اِس بار ۔۔۔ اوپر بہت کام کر لیا، اب اپنا کام کروں گا۔۔
تھوڑا اور وقت دیجئے، آپ ان شاء اللہ اچھا لکھیں گے ۔۔
 
تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے ؟
یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اسکا چیر دیں گے
۔۔۔درست
تمہارا دشمن نشانہ باندھے گا جب بھی تم پر
یہ دوست جا کر کمان میں اسکی تیر دیں گے
۔۔۔ کچھ زیادہ ہی تکنیکی شعر نہیں؟؟
جنہیں تم اپنا سمجھ رہے ہو، وہ غیر نکلے
تمہارے دشمن کے ہاتھ میں جا کے تیر دیں گے
۔۔۔۔ یا اسی طرح کا کچھ اور سوچا جاسکتا ہے ۔۔ غور کیجئے گا۔۔

تری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے
صلے میں رنگین خواب آنکھوں کو نیر دیں گے
۔۔۔ صلہ کس چیز کا؟ خواب دیکھنے کا؟ مجھے نیر اردو میں اچھا نہیں لگا ۔۔یہ محترم الف عین بتا سکتے ہیں درست ہے کہ نہیں۔

جو تیرے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
جہاں کو ہم تیرے حسن کی کیا نظیر دیں گے؟
۔۔۔ مثال دینا یہاں زیادہ فصیح ہوتا، خیر ، قافیے کی پابندی بھی ہے ۔۔ پہلا مصرع، پھر بھی بدل سکتے ہیں، یہ دیکھئے:
تمہارے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
تمہارے حسن و جمال کی کیا نظیر دیں گے ؟
۔۔۔ یا اسی طرح کچھ اور ہو سکتا ہے ۔۔۔ دیکھئے گا یہ بھی ۔۔۔

جو نام والوں سے چاہتے ہو ، نہیں ملے گا
تمہیں ضرورت ہو جان بھی ، ہم فقیر دیں گے
۔۔۔ نہیں صاحب، یہاں بات بنتی نظرنہیں آتی ۔۔۔ دیکھئے یہ بھی:
جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے ۔۔۔
۔۔۔ یہ شاید قدرے بہتر لگے ۔۔


نبی کی مدحت بیاں کرے گا تو روز محشر
تجھے وہ اجرِ عظیم ، اجرِ کثیر دیں گے
۔۔ اچھا پہلے مصرعے میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ لفظ تو کو میں تُو سمجھا، یہی مسئلہ آپ کے پڑھنے والوں کو پیش آسکتا ہے۔
اگر انہوں نے اسے تُو پڑھا تو بات بننے والی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرا مصرع، اجرِ عظیم یا اجرِ کثیر، ان میں سے کوئی ایک ہی ترکیب چلانی چاہئے آپ کو، اگر مصرع مؤثر اور جاندار بنانا ہے۔
دیکھئے یہ صورت بھی:
نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے

ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
۔۔۔۔ دوسرے مصرعے میں آپ کو لکیر کا لفظ لانے کے لیے جو محنت کرنی پڑی وہ قاری کو بھی نظر آ رہی ہے۔۔
آپ کو اس طرح کی کمزوریوں سے بچنا ہے ۔۔ شعر کہنے میں چاہے ہفتہ دس دن لگیں، اندازِ بیان اتنا سادہ ہونا چاہئے کہ آپ الفاظ سے جنگ کرتے نظر نہ آئیں۔۔۔
دوسری بات، سرحد دو ممالک کے درمیان ہوتی ہے، لوگوں کے درمیان میری سمجھ میں نہیں آتی ۔۔
لوگوں کے درمیان فاصلہ ہوسکتا ہے، حدِ فاصل ہوسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ جو آپ کو اچھا لگے۔۔
ترے مرے بیچ فاصلے آ گئے ہیں عمرانؔ ۔۔۔
۔۔ دوسرا مصرع آپ ہی سوچیں اِس بار ۔۔۔ اوپر بہت کام کر لیا، اب اپنا کام کروں گا۔۔
تھوڑا اور وقت دیجئے، آپ ان شاء اللہ اچھا لکھیں گے ۔۔
بہت شکریہ بھائی۔۔۔ ان شاءاللہ مزید بہتری آئے گی۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
نیر کا ہندی لفظ اردو میں مجھے پسند نہیں ہے لیکن محفل کے پاکستانی شعراء بے تکلفی سے جیون، نیر وغیرہ استعمال کرتے ہیں کہ کبھی کبھی مجھے بخش دینا پڑتا ہے! سمت کے لیے ایک صاحب نے ناول کا ایک باب بھیجا، انہیں عنوان 'سلاسلِ نیر' بدلنے کا مشورہ دیا تو ناراض ہو گئے، اور واپس لے لیا اور آخر اسی نام سے اس ناول کے اشتہارات بھی نیٹ پر نظر آئے!
 
نیر کا ہندی لفظ اردو میں مجھے پسند نہیں ہے لیکن محفل کے پاکستانی شعراء بے تکلفی سے جیون، نیر وغیرہ استعمال کرتے ہیں کہ کبھی کبھی مجھے بخش دینا پڑتا ہے! سمت کے لیے ایک صاحب نے ناول کا ایک باب بھیجا، انہیں عنوان 'سلاسلِ نیر' بدلنے کا مشورہ دیا تو ناراض ہو گئے، اور واپس لے لیا اور آخر اسی نام سے اس ناول کے اشتہارات بھی نیٹ پر نظر آئے!
سر میری مادری زبان سرائیکی ہے اور ہمارے شہر اور علاقے میں اردو سکول کالج تک محدود ہے۔۔۔ گھر بازار ہر جگہ سرائیکی بولی سنی جاتی ہے۔۔۔ اس لئے شاید میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار میں سرائیکی لہجے کی کثرت ہے جو ٹھوس اردو بولنے والوں کے لئے غیر مانوس ہے۔۔۔ سرائیکی میں بھی پرانی اردو اور ہندی کے الفاظ موجود ہیں۔
جیسے کرنے سے کیتے ، آنسو سے نیر ، فکر سے چنتا وغیرہ۔۔۔
دوسرا مسئلہ اردو کی ووکیبلڑی کا بھی مجھے درپیش ہے۔۔۔
 
تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے ؟
یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اسکا چیر دیں گے
۔۔۔درست
تمہارا دشمن نشانہ باندھے گا جب بھی تم پر
یہ دوست جا کر کمان میں اسکی تیر دیں گے
۔۔۔ کچھ زیادہ ہی تکنیکی شعر نہیں؟؟
جنہیں تم اپنا سمجھ رہے ہو، وہ غیر نکلے
تمہارے دشمن کے ہاتھ میں جا کے تیر دیں گے
۔۔۔۔ یا اسی طرح کا کچھ اور سوچا جاسکتا ہے ۔۔ غور کیجئے گا۔۔

تری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے
صلے میں رنگین خواب آنکھوں کو نیر دیں گے
۔۔۔ صلہ کس چیز کا؟ خواب دیکھنے کا؟ مجھے نیر اردو میں اچھا نہیں لگا ۔۔یہ محترم الف عین بتا سکتے ہیں درست ہے کہ نہیں۔

جو تیرے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
جہاں کو ہم تیرے حسن کی کیا نظیر دیں گے؟
۔۔۔ مثال دینا یہاں زیادہ فصیح ہوتا، خیر ، قافیے کی پابندی بھی ہے ۔۔ پہلا مصرع، پھر بھی بدل سکتے ہیں، یہ دیکھئے:
تمہارے آگے یہ چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
تمہارے حسن و جمال کی کیا نظیر دیں گے ؟
۔۔۔ یا اسی طرح کچھ اور ہو سکتا ہے ۔۔۔ دیکھئے گا یہ بھی ۔۔۔

جو نام والوں سے چاہتے ہو ، نہیں ملے گا
تمہیں ضرورت ہو جان بھی ، ہم فقیر دیں گے
۔۔۔ نہیں صاحب، یہاں بات بنتی نظرنہیں آتی ۔۔۔ دیکھئے یہ بھی:
جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے ۔۔۔
۔۔۔ یہ شاید قدرے بہتر لگے ۔۔


نبی کی مدحت بیاں کرے گا تو روز محشر
تجھے وہ اجرِ عظیم ، اجرِ کثیر دیں گے
۔۔ اچھا پہلے مصرعے میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ لفظ تو کو میں تُو سمجھا، یہی مسئلہ آپ کے پڑھنے والوں کو پیش آسکتا ہے۔
اگر انہوں نے اسے تُو پڑھا تو بات بننے والی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرا مصرع، اجرِ عظیم یا اجرِ کثیر، ان میں سے کوئی ایک ہی ترکیب چلانی چاہئے آپ کو، اگر مصرع مؤثر اور جاندار بنانا ہے۔
دیکھئے یہ صورت بھی:
نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے

ترے مرے بیچ ہو گی سرحد کہ لوگ عمران
ہماری قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
۔۔۔۔ دوسرے مصرعے میں آپ کو لکیر کا لفظ لانے کے لیے جو محنت کرنی پڑی وہ قاری کو بھی نظر آ رہی ہے۔۔
آپ کو اس طرح کی کمزوریوں سے بچنا ہے ۔۔ شعر کہنے میں چاہے ہفتہ دس دن لگیں، اندازِ بیان اتنا سادہ ہونا چاہئے کہ آپ الفاظ سے جنگ کرتے نظر نہ آئیں۔۔۔
دوسری بات، سرحد دو ممالک کے درمیان ہوتی ہے، لوگوں کے درمیان میری سمجھ میں نہیں آتی ۔۔
لوگوں کے درمیان فاصلہ ہوسکتا ہے، حدِ فاصل ہوسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ جو آپ کو اچھا لگے۔۔
ترے مرے بیچ فاصلے آ گئے ہیں عمرانؔ ۔۔۔
۔۔ دوسرا مصرع آپ ہی سوچیں اِس بار ۔۔۔ اوپر بہت کام کر لیا، اب اپنا کام کروں گا۔۔
تھوڑا اور وقت دیجئے، آپ ان شاء اللہ اچھا لکھیں گے ۔۔
شاہد شاہنواز بھائی آپکا دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں۔۔۔ آپ نے ایک ایک چیز پر روشنی ڈالی۔۔۔ یہ دو اشعار آپ کے مشورے کے مطابق کر رہا ہوں۔۔۔

جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے

نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے

باقی جو اشعار انکے بارے آپ سے مزید ڈسکس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان میں مجھے تھوڑی بہت کنفیوژن ہے۔۔۔
مجھے کمان میں تیر دینا ، ہاتھ میں تیر دینا سے بہتر لگ رہا ہے۔۔۔ ہاں اگر ہاتھ میں خنجر دینا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ تیر کا کمان کے ساتھ تعلق ہے ہاتھ میں رکھ کر اس سے حملہ نہیں کیا جاتا۔
تمہارے حسن و جمال کی کیا نظیر دیں گے
اس مصرعہ میں یہ واضح نہیں نظیر کسے دینی ہے۔۔۔
آخری شعر میں لفظ سرحد اس لئے استعمال کیا کیونکہ دوسرے مصرعے میں لفظ لکیر آیا ہے۔۔۔ 'ہے سرحد جیسے' شعر میں لانا چاہتا تھا مگر لفظ جیسے کہیں فٹ نہیں ہو پایا۔۔۔
سر الف عین آپ بھی معاونت کریں۔۔۔ میں مبتدی ہوں غلط بھی ہوسکتا ہوں۔۔۔ اس علمی مباحثے سے مجھے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور میرے دماغ صاف ہو گا۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے

نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے
۔۔۔۔ متشکرم ۔۔۔
باقی جو اشعار انکے بارے آپ سے مزید ڈسکس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان میں مجھے تھوڑی بہت کنفیوژن ہے۔۔۔
آپ نے نیچے علمی مباحثے کی بات کی، میں اسے منطق سمجھتا ہوں اور اسے شعر کو بہتر بنانے کے لیے لازمی قرار دیتا ہوں۔۔۔
جیسے ایک عجیب منطق محترم الف عین صاحب سے منسوب ہے، انہوں نے ابھی کچھ دن قبل قافیے پر گفتگو کے دوران اس کا اظہار کیا۔۔۔
یہ بتانے کا مقام نہیں کہ وہ کیا منطق تھی، ایسی ہی ایک منطق میری ہے ۔۔۔ وہ یہ ہے کہ شاعر کی شعر کے اوپر اپنی منطق ہونی چاہئے ، چاہے پوری دنیا کو وہ غلط لگ رہی ہو اور اس کا کوئی سر پیر کہیں سے پتہ نہ چلتا ہو۔ اپنے ہر شعر کو شاعر خود ہی دیکھے، کیا اس کے ایک مصرعے کا دوسرے سے کوئی تعلق اسے خود سمجھ میں آتا ہے؟ کیا وہ دنیا کو سمجھا سکتا ہے کہ وہ شعر ، غزل یا نظم کے ذریعے بات کیا کہنا چاہتا ہے؟ اس کے کس مصرعے یا کس شعر کا کیا مطلب ہے؟ اگر وہ اس سادہ سے سوال کا جواب دینے پر قادر ہے تو میری یا کسی بھی فلسفی کی منطق سے اسے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ میں آپ کے شعر کو اسی طرح دیکھتا ہوں جیسے اس کے الفاظ سے مجھے سمجھ میں آتا ہے۔۔۔ ایک شعر تھا:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔۔۔ مومنؔ
ہم نے کہیں پڑھا کہ غالبؔ نے کہا آپ میرا دیوان رکھ لیں، یہ ایک شعر دے دیں۔۔۔
ہم اسکول کے طالب علم تھے، سوچا غالبؔ کی طبیعت خراب ہوگی، یا شاید دماغ، کہ ایک شعر پر دیوان نچھاور کرنے کی بات کردی، اس شعر میں ایسا کیا تھا؟
بہت عرصے بعد ایک شخص نے اس شعر کا ایک اور مطلب سمجھایا۔۔۔ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا (گویا کا مطلب جیسے) ۔۔۔

اور تم مرے پاس ہوتے ہو گویا (گویا کا مطلب بولنے کی طرف لے جائیے) ۔۔۔ فرق سمجھ میں آجائے گا، مومنؔ نے دو الفاظ میں کتنی بڑی بات کہی! جسے ہم نہ سمجھے ۔۔۔
اب آپ کی بات کی طرف آتے ہیں، آپ نے فرمایا:
مجھے کمان میں تیر دینا ، ہاتھ میں تیر دینا سے بہتر لگ رہا ہے۔۔۔
ہاں اگر ہاتھ میں خنجر دینا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ تیر کا کمان کے ساتھ تعلق ہے ہاتھ میں رکھ کر اس سے حملہ نہیں کیا جاتا۔

۔۔۔ میرے نزدیک تیر ہاتھ میں دینا یا کمان میں، برابر ہے کیونکہ تیر آپ دے رہے ہیں، حملہ کسی اور کو کرنا ہے، اب یہ اس پر چھوڑئیے کہ وہ براہِ راست تیر استعمال کرے یا کمان کے ذریعے، لیکن آپ کو وہی بہتر لگے تو وہی ٹھیک ہے ۔۔۔ یہی مصرع تھا، شاید:
تمہارے دشمن کے ہاتھ میں جا کے تیر دیں گے
۔۔۔

تمہارے حسن و جمال کی کیا نظیر دیں گے
اس مصرعہ میں یہ واضح نہیں نظیر کسے دینی ہے۔۔۔
آخری شعر میں لفظ سرحد اس لئے استعمال کیا کیونکہ دوسرے مصرعے میں لفظ لکیر آیا ہے۔۔۔ 'ہے سرحد جیسے' شعر میں لانا چاہتا تھا مگر لفظ جیسے کہیں فٹ نہیں ہو پایا۔۔۔
یہاں تو میری منطق وہی ہے جو پہلے دے چکا، اور کیا کہا جائے؟
میں مبتدی ہوں غلط بھی ہوسکتا ہوں۔۔۔ اس علمی مباحثے سے مجھے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور میرے دماغ صاف ہو گا۔۔۔
مجھے بھی مبتدی ہی سمجھئے ۔۔۔ آپ کے اشعار پر تو تنقید، اپنی غزلیں سنبھالنے میں آج تک مشکل ہے ۔۔۔ باقی آپ کو الف عین صاحب بہتر سمجھائیں گے ۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سر میری مادری زبان سرائیکی ہے اور ہمارے شہر اور علاقے میں اردو سکول کالج تک محدود ہے۔۔۔ گھر بازار ہر جگہ سرائیکی بولی سنی جاتی ہے۔۔۔ اس لئے شاید میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار میں سرائیکی لہجے کی کثرت ہے جو ٹھوس اردو بولنے والوں کے لئے غیر مانوس ہے۔۔۔ سرائیکی میں بھی پرانی اردو اور ہندی کے الفاظ موجود ہیں۔
جیسے کرنے سے کیتے ، آنسو سے نیر ، فکر سے چنتا وغیرہ۔۔۔
دوسرا مسئلہ اردو کی ووکیبلڑی کا بھی مجھے درپیش ہے۔۔۔
میری مادری زبان بھی سرائیکی ہے ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نیر کا ہندی لفظ اردو میں مجھے پسند نہیں ہے لیکن محفل کے پاکستانی شعراء بے تکلفی سے جیون، نیر وغیرہ استعمال کرتے ہیں کہ کبھی کبھی مجھے بخش دینا پڑتا ہے! سمت کے لیے ایک صاحب نے ناول کا ایک باب بھیجا، انہیں عنوان 'سلاسلِ نیر' بدلنے کا مشورہ دیا تو ناراض ہو گئے، اور واپس لے لیا اور آخر اسی نام سے اس ناول کے اشتہارات بھی نیٹ پر نظر آئے!
میری منطق یہ ہے کہ لوگ ہمیں اردو زبان کا شاعر کہتے اور سمجھتے ہیں تو ہم اردو چھوڑ کر ہندی کی طرف جائیں کیوں؟
لیکن ہندی کے الفاظ استعمال کرنا میرے نزدیک عیب بھی نہیں ۔۔۔ تاہم اس کی صورت پھر ایسی ہو کہ پڑھنے والے کو بھی اچھا لگے، جیسے ظہور نظرؔ کی مثال ہمارے سامنے ہے:

دور گگن پر ہنسنے والے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ ہاتھ لگائیں تمہیں

انہونی کی چنتا ہونی کا انیائے نظرؔ
دونوں بیری ہیں جیون کے، ہم سمجھائیں تمہیں

۔۔۔ یہاں شاعر نے ہندی کو ہندی ہی کی طرح برتا ہے اور اردو کے الفاظ کو ان میں خلط ملط کرکے عجیب و غریب مصرعے تخلیق نہیں کیے۔۔۔
 
جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے

نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے
۔۔۔۔ متشکرم ۔۔۔
باقی جو اشعار انکے بارے آپ سے مزید ڈسکس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان میں مجھے تھوڑی بہت کنفیوژن ہے۔۔۔
آپ نے نیچے علمی مباحثے کی بات کی، میں اسے منطق سمجھتا ہوں اور اسے شعر کو بہتر بنانے کے لیے لازمی قرار دیتا ہوں۔۔۔
جیسے ایک عجیب منطق محترم الف عین صاحب سے منسوب ہے، انہوں نے ابھی کچھ دن قبل قافیے پر گفتگو کے دوران اس کا اظہار کیا۔۔۔
یہ بتانے کا مقام نہیں کہ وہ کیا منطق تھی، ایسی ہی ایک منطق میری ہے ۔۔۔ وہ یہ ہے کہ شاعر کی شعر کے اوپر اپنی منطق ہونی چاہئے ، چاہے پوری دنیا کو وہ غلط لگ رہی ہو اور اس کا کوئی سر پیر کہیں سے پتہ نہ چلتا ہو۔ اپنے ہر شعر کو شاعر خود ہی دیکھے، کیا اس کے ایک مصرعے کا دوسرے سے کوئی تعلق اسے خود سمجھ میں آتا ہے؟ کیا وہ دنیا کو سمجھا سکتا ہے کہ وہ شعر ، غزل یا نظم کے ذریعے بات کیا کہنا چاہتا ہے؟ اس کے کس مصرعے یا کس شعر کا کیا مطلب ہے؟ اگر وہ اس سادہ سے سوال کا جواب دینے پر قادر ہے تو میری یا کسی بھی فلسفی کی منطق سے اسے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ میں آپ کے شعر کو اسی طرح دیکھتا ہوں جیسے اس کے الفاظ سے مجھے سمجھ میں آتا ہے۔۔۔ ایک شعر تھا:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔۔۔ مومنؔ
ہم نے کہیں پڑھا کہ غالبؔ نے کہا آپ میرا دیوان رکھ لیں، یہ ایک شعر دے دیں۔۔۔
ہم اسکول کے طالب علم تھے، سوچا غالبؔ کی طبیعت خراب ہوگی، یا شاید دماغ، کہ ایک شعر پر دیوان نچھاور کرنے کی بات کردی، اس شعر میں ایسا کیا تھا؟
بہت عرصے بعد ایک شخص نے اس شعر کا ایک اور مطلب سمجھایا۔۔۔ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا (گویا کا مطلب جیسے) ۔۔۔
اور تم مرے پاس ہوتے ہو گویا (گویا کا مطلب بولنے کی طرف لے جائیے) ۔۔۔ فرق سمجھ میں آجائے گا، مومنؔ نے دو الفاظ میں کتنی بڑی بات کہی! جسے ہم نہ سمجھے ۔۔۔
اب آپ کی بات کی طرف آتے ہیں، آپ نے فرمایا:

مجھے کمان میں تیر دینا ، ہاتھ میں تیر دینا سے بہتر لگ رہا ہے۔۔۔
ہاں اگر ہاتھ میں خنجر دینا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ تیر کا کمان کے ساتھ تعلق ہے ہاتھ میں رکھ کر اس سے حملہ نہیں کیا جاتا۔

۔۔۔ میرے نزدیک تیر ہاتھ میں دینا یا کمان میں، برابر ہے کیونکہ تیر آپ دے رہے ہیں، حملہ کسی اور کو کرنا ہے، اب یہ اس پر چھوڑئیے کہ وہ براہِ راست تیر استعمال کرے یا کمان کے ذریعے، لیکن آپ کو وہی بہتر لگے تو وہی ٹھیک ہے ۔۔۔ یہی مصرع تھا، شاید:
تمہارے دشمن کے ہاتھ میں جا کے تیر دیں گے
۔۔۔

تمہارے حسن و جمال کی کیا نظیر دیں گے
اس مصرعہ میں یہ واضح نہیں نظیر کسے دینی ہے۔۔۔
آخری شعر میں لفظ سرحد اس لئے استعمال کیا کیونکہ دوسرے مصرعے میں لفظ لکیر آیا ہے۔۔۔ 'ہے سرحد جیسے' شعر میں لانا چاہتا تھا مگر لفظ جیسے کہیں فٹ نہیں ہو پایا۔۔۔
یہاں تو میری منطق وہی ہے جو پہلے دے چکا، اور کیا کہا جائے؟
میں مبتدی ہوں غلط بھی ہوسکتا ہوں۔۔۔ اس علمی مباحثے سے مجھے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور میرے دماغ صاف ہو گا۔۔۔
مجھے بھی مبتدی ہی سمجھئے ۔۔۔ آپ کے اشعار پر تو تنقید، اپنی غزلیں سنبھالنے میں آج تک مشکل ہے ۔۔۔ باقی آپ کو الف عین صاحب بہتر سمجھائیں گے ۔۔
بہت شکریہ بھائی۔۔۔ آپ نے کافی حد تک ذہنی تشفی کر دی۔۔۔ میرے علم میں بھی اضافہ ہوا۔۔۔
امید کرتا ہوں آئندہ بھی آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میری منطق یہ ہے کہ لوگ ہمیں اردو زبان کا شاعر کہتے اور سمجھتے ہیں تو ہم اردو چھوڑ کر ہندی کی طرف جائیں کیوں؟
لیکن ہندی کے الفاظ استعمال کرنا میرے نزدیک عیب بھی نہیں ۔۔۔ تاہم اس کی صورت پھر ایسی ہو کہ پڑھنے والے کو بھی اچھا لگے، جیسے ظہور نظرؔ کی مثال ہمارے سامنے ہے:

دور گگن پر ہنسنے والے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ ہاتھ لگائیں تمہیں

انہونی کی چنتا ہونی کا انیائے نظرؔ
دونوں بیری ہیں جیون کے، ہم سمجھائیں تمہیں

۔۔۔ یہاں شاعر نے ہندی کو ہندی ہی کی طرح برتا ہے اور اردو کے الفاظ کو ان میں خلط ملط کرکے عجیب و غریب مصرعے تخلیق نہیں کیے۔۔۔
مجھے بھی اعتراض صرف اسی وقت ہوتا ہے جب پورے شعر بلکہ پوری غزل میں فارسی عربی کے الفاظ کے ساتھ دو ایک لفظ ہندی کے آ جائیں تو بالکل مس فٹ لگتے ہیں
 
سر الف عین شاہد شاہنواز بھائی یہ غزل فائنل کی ہے۔ ایک نظر دیکھ لیں خاص طور پر آخری شعر۔۔۔ نیر کا چونکہ متبادل قافیہ نہیں ملا اس لئے فی الحال اس شعر کو ایسے رہنے دیا ہے۔۔۔

تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے ؟
یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اسکا چیر دیں گے

تمہارا دشمن نشانہ باندھے گا تب ہی تم پر
جو دوست جا کر کمان میں اسکی تیر دیں گے
یا
کمان میں اسکی ، دوست جب جا کے تیر دیں گے

تری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے
نہ دیکھ ، رنگین خواب آنکھوں کو نیر دیں گے

تمہارے آگے جو چاند بھی ماند پڑ گیا ہے
تو ہم تمہارے جمال کی کیا نظیر دیں گے؟

جو اہلِ ثروت سے چاہتے ہو، نہیں ملےگا
اگر ضرورت ہو جان کی، بس فقیر دیں گے

نبی ﷺ کی مدحت بیان کرنے سے روزِ محشر
بصد مسرت وہ تجھ کو اجرِ کثیر دیں گے

ہماری دنیا کے بیچ عمران ہو گی سرحد
کہ لوگ قسمت میں کھینچ ایسی لکیر دیں گے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھے تو درست ہی لگ رہی ہے غزل۔ تیر والے مصرع کے بھی دونوں متبادل اچھے ہیں، کوئی بھی رکھ لو
 
Top