نور وجدان
لائبریرین
ایک جھونکا باد کا ... اور ایک بازی ہے صیاد کی ...! دنیا بڑی سیانی ہے ...! باد کے جھونکوں سے ، نیلم کے پتھروں سے ، ہیرے کی کانوں سے ، اونچے اونچے گھرانوں سے ، بے وقعت آشیانوں سے ، ایلپ و ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی خاکی مقید کو اور خاکی مقید کی قید میں کر دیتی ہے. ایک شے کی بے وقعتی ...! لوگ سمجھتے نہیں شے کی وقعت کو سمجھانا پڑتا ہے..! خاک کو خاکی آئینہ نہ ملے تو خاکی قبر کے ساتھ ساتھ لامکاں کی بلندیوں پر پرواز کرتی روح دھڑام سے نیچے گرتی ہے.....! چھوٹی موج کا شکوہ ہوتا ہے ! کرتی ہے ! مگر آسمان سے گر کے جو معلق ہوجاتے ہیں ان کو ہم کہتے ہیں : نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے!
اس کی زندگی 'تین اور تیرہ' کا المیہ بن جاتی ہے ...! تین کا کلمہ اکیلا پڑھنا حق کو گوارہ نہیں اور چار والی سرکار عدد تین کے بغیر کچھ نہیں ہے .. کسی نے کہا اور خوب کہا
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نو القر
لقد یمکن الثنا کما کان حق ہو
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
تین بذات خود سہ حرفی ہے کہ وہ یکتا ہے .. ! جب کہ تین اور ایک کو جمع کرلو تو عدد چار بن جاتا ہے ...مخلوق اللہ کی ایک ہے ..باقی سب تین ہے .۔۔۔۔۔۔۔!!!.یہی ایک کا فرق چار والی سرکار کو تین سے جدا کرتا ہے اور بولتے ہیں سعدی صاحب: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ..۔۔۔۔۔۔۔۔.!!.! اس تین میں چھپا اک نور ہے۔۔۔۔!!! اور جو مخلوق سے ربط استوار نہیں رکھ سکتے ان کا مقام نہ تین سے ہے اور نہ ہی چار سے ...آسمان اور زمین کے درمیان معلق لوگ ..۔۔۔۔۔۔۔!!!. جو سفل بھی نہیں ہیں مگر وہ مومن بھی نہیں ہیں .۔۔۔.! حق کا کلمہ ان کو معلق کیے ہوئے ہیں ! حق !حق ! کرتے ہیں زندگی بسر کرکے درمیانی زندگی کا تعین ان کی مسافت کو جِلا بخشے گا ...۔۔۔!!!وہ مجہول سوال نہیں کریں گے اور نہ کہیں گے : کہاں جاؤں میں ....!!!
حقیقت کا پردہ دھیمے دھیمے نغمے پر فاش ہوجاتا ہے اور صاحبِ حقیقت ان دھنوں کے لے پر ناچ کر ، دھمال ڈال کر ، لے کی مستی میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوجائے تو اس کی آگہی کے در کھلنے پر اس کی ذات سے حق کو کیا حاصل ...؟ حق بڑا جلال میں ہے ....۔۔۔...!! اس کی تاب لانے کو حوصلہ چاہیے کہ درد صدیوں کا لمحوں میں دے کر پل پل کی مار ماری جاتی ہے ! یہاں پر جلال حق کو بنتا ہے کہ اس نے بندے پر مان کیا اور اس نے مان کی لاج نہ رکھی ...... اس پر تیرہ کا در ... چار نہ ہوسکا اور جب چاند ٹکرے کرنے والا نظر نہ کرے تو ...؟ تو حق کیا کرے گا ...؟ چاند نگر کا باسی زمین سے ناراض ہوتا کب ہے .. اس کی محبت زمین سے اتنی ہے کہ وہ اس کے گرد گھوم کر اس کی ایک ایک بات کی خبر لے رہا ہے ...!!!
قران پاک کی ایک آیت ناشکروں کے لیے اتری جو ''افلا یعقلون'' کی مثال پر صادر آتے ہیں ۔۔۔۔۔.!!!. نشانیاں دیکھ کر انکار کرتے ہیں .. جب رب فرماتا ہے : تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ....؟؟؟؟ کھول کھول کر نشانی بتانے کے بعد عقل رکھتے ہوئے یہ لوگ اندھے ہوتے ہیں ....۔۔۔۔۔ ! رب کا جلال ان کو نیچے گرنا نہیں دیتا کہ اس کو گوارہ نہیں کہ وہ پاتال میں گر جائیں اور نہ ہی ان کو قرب دیتا ہے ...!!! ا
کعبے کو کس منہ سے جاؤ گے ....؟ شرم و نہ حجاب... ! نہ پاس یار کا...! او میرے بندیا !
شرم کر ...! شرم ! شرم ! اور ڈوب جا اپنے من کے گیانوں میں ...! تیرا گیان ہی تیری پہچان ہے ...!!! غار بھی ہے ! چٹان بھی ہے ! فکر کا راستہ بھی ہے ! عقل سے گزرنے کا راستہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔!اتنی جلدی رب سے مایوس ہوجانا...!! میرے پیارے دلدار ...!!! تیری آنکھوں سے گرنے والا پانی اس بات کی پہچان ہے کہ تجھ کو مجھ سے کتنا پیار ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔.! کیا میں تیرے پیار کی لاج نہ رکھوں۔۔۔۔۔۔۔..؟ کیا
میں تیری شرم کا حجاب نہ بن جاؤں...۔۔۔۔۔۔۔؟ رب تیری باتیں تجھ کو کھول کر بتانا چاہتا ہے کہ آنکھ کھول کر زمین کا نظارہ کر.۔۔۔۔۔۔...!!!
تجھ کو پرواہ ہے درد کی جو تیرے سینہ کھل جانے پر عطا کردہ ہے .۔۔۔۔۔..! ساری زندگی کیا تو اس کی دوڑ میں صرف کردے گا؟ بتا ..!!! تجھ کو اس دنیا میں کچھ کام کرنا ہے ...! جب تک تو وہ کام نہیں کرلیتا ۔۔۔۔!!تجھ کو اپنی محبوبیت سے دور رکھنا ہی میری منشاء ہے. ایک میرا غازی بندہ ! وہ جس نے قرامطییوں کو شکست فاش دے کر براہ راست خود کو عدد ''تین '' پر استوار کرلیا ہے..دنیا میں سب تین ہے ۔۔۔!!!مخلوق بس ''ایک '' ہے.. وہ تین جمع چار ....!!! دونوں تینوں کو عین پر پالیا ..۔۔۔۔۔۔!!!. ایک وہ بندہ جس کو نور الدین زنگی دنیا کہے جس کا باپ عماد الدین بن کے ""دین کا ستون"" نور دنیا کے حوالے کرگیا.۔۔۔!!! صدقہ جاریہ اس کا کام...! وہی جس نے نبیﷺ کی قبر مبارک کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے مضبوط کردیا اور خود ایک جانشین صلاح الدین دنیا کو چھوڑ گیا.۔۔.!!! صلاح الدین کا مقصد اللہ نے طے کر رکھا تھا.۔۔۔۔۔!!.
ایک بار پھر یثرب سے فلسطین آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی ترا..
اقصی ٰ نام کی بات سے یاد آیا.۔۔۔!!!..بندے نام ِکے اقصیٰ والے ہو تم...! نام بدل جانے سے کام بدل نہیں جاتے ...!!!! اپنا نام تو نے بدل ڈالا...مگر نام اقصیٰ والے بڑے کام والے ...! جب کام ملے تو بندے کا کام کرنا چاہیے زندگی کا مقصد سب کی زندگیوں میں جدا جدا ہے مگر اس جدا کام کی شاخ در شاخ مل کر نور کو سرچشمہ ِ درخت سے جڑی فیض یاب ہوجاتی ہے .۔۔۔. !!کوئی شاخ ہے تو کوئی درخت تو کوئی ہرا بھرا باغ ہے ..۔۔۔۔!!!.سب کا مقام اپنا اپنا... ! چل بندیا ! تو نہ کر تیری میری ! تو کر بس ''میری میری'' تیری خواہش کی تیری تیری ... اس کو رب پر چھوڑ دے.۔۔۔۔۔!!!.. نوازنے پر آؤں تو نواز دوں زمانہ........!
اس کی زندگی 'تین اور تیرہ' کا المیہ بن جاتی ہے ...! تین کا کلمہ اکیلا پڑھنا حق کو گوارہ نہیں اور چار والی سرکار عدد تین کے بغیر کچھ نہیں ہے .. کسی نے کہا اور خوب کہا
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نو القر
لقد یمکن الثنا کما کان حق ہو
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
تین بذات خود سہ حرفی ہے کہ وہ یکتا ہے .. ! جب کہ تین اور ایک کو جمع کرلو تو عدد چار بن جاتا ہے ...مخلوق اللہ کی ایک ہے ..باقی سب تین ہے .۔۔۔۔۔۔۔!!!.یہی ایک کا فرق چار والی سرکار کو تین سے جدا کرتا ہے اور بولتے ہیں سعدی صاحب: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ..۔۔۔۔۔۔۔۔.!!.! اس تین میں چھپا اک نور ہے۔۔۔۔!!! اور جو مخلوق سے ربط استوار نہیں رکھ سکتے ان کا مقام نہ تین سے ہے اور نہ ہی چار سے ...آسمان اور زمین کے درمیان معلق لوگ ..۔۔۔۔۔۔۔!!!. جو سفل بھی نہیں ہیں مگر وہ مومن بھی نہیں ہیں .۔۔۔.! حق کا کلمہ ان کو معلق کیے ہوئے ہیں ! حق !حق ! کرتے ہیں زندگی بسر کرکے درمیانی زندگی کا تعین ان کی مسافت کو جِلا بخشے گا ...۔۔۔!!!وہ مجہول سوال نہیں کریں گے اور نہ کہیں گے : کہاں جاؤں میں ....!!!
حقیقت کا پردہ دھیمے دھیمے نغمے پر فاش ہوجاتا ہے اور صاحبِ حقیقت ان دھنوں کے لے پر ناچ کر ، دھمال ڈال کر ، لے کی مستی میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوجائے تو اس کی آگہی کے در کھلنے پر اس کی ذات سے حق کو کیا حاصل ...؟ حق بڑا جلال میں ہے ....۔۔۔...!! اس کی تاب لانے کو حوصلہ چاہیے کہ درد صدیوں کا لمحوں میں دے کر پل پل کی مار ماری جاتی ہے ! یہاں پر جلال حق کو بنتا ہے کہ اس نے بندے پر مان کیا اور اس نے مان کی لاج نہ رکھی ...... اس پر تیرہ کا در ... چار نہ ہوسکا اور جب چاند ٹکرے کرنے والا نظر نہ کرے تو ...؟ تو حق کیا کرے گا ...؟ چاند نگر کا باسی زمین سے ناراض ہوتا کب ہے .. اس کی محبت زمین سے اتنی ہے کہ وہ اس کے گرد گھوم کر اس کی ایک ایک بات کی خبر لے رہا ہے ...!!!
قران پاک کی ایک آیت ناشکروں کے لیے اتری جو ''افلا یعقلون'' کی مثال پر صادر آتے ہیں ۔۔۔۔۔.!!!. نشانیاں دیکھ کر انکار کرتے ہیں .. جب رب فرماتا ہے : تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ....؟؟؟؟ کھول کھول کر نشانی بتانے کے بعد عقل رکھتے ہوئے یہ لوگ اندھے ہوتے ہیں ....۔۔۔۔۔ ! رب کا جلال ان کو نیچے گرنا نہیں دیتا کہ اس کو گوارہ نہیں کہ وہ پاتال میں گر جائیں اور نہ ہی ان کو قرب دیتا ہے ...!!! ا
کعبے کو کس منہ سے جاؤ گے ....؟ شرم و نہ حجاب... ! نہ پاس یار کا...! او میرے بندیا !
شرم کر ...! شرم ! شرم ! اور ڈوب جا اپنے من کے گیانوں میں ...! تیرا گیان ہی تیری پہچان ہے ...!!! غار بھی ہے ! چٹان بھی ہے ! فکر کا راستہ بھی ہے ! عقل سے گزرنے کا راستہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔!اتنی جلدی رب سے مایوس ہوجانا...!! میرے پیارے دلدار ...!!! تیری آنکھوں سے گرنے والا پانی اس بات کی پہچان ہے کہ تجھ کو مجھ سے کتنا پیار ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔.! کیا میں تیرے پیار کی لاج نہ رکھوں۔۔۔۔۔۔۔..؟ کیا
میں تیری شرم کا حجاب نہ بن جاؤں...۔۔۔۔۔۔۔؟ رب تیری باتیں تجھ کو کھول کر بتانا چاہتا ہے کہ آنکھ کھول کر زمین کا نظارہ کر.۔۔۔۔۔۔...!!!
تجھ کو پرواہ ہے درد کی جو تیرے سینہ کھل جانے پر عطا کردہ ہے .۔۔۔۔۔..! ساری زندگی کیا تو اس کی دوڑ میں صرف کردے گا؟ بتا ..!!! تجھ کو اس دنیا میں کچھ کام کرنا ہے ...! جب تک تو وہ کام نہیں کرلیتا ۔۔۔۔!!تجھ کو اپنی محبوبیت سے دور رکھنا ہی میری منشاء ہے. ایک میرا غازی بندہ ! وہ جس نے قرامطییوں کو شکست فاش دے کر براہ راست خود کو عدد ''تین '' پر استوار کرلیا ہے..دنیا میں سب تین ہے ۔۔۔!!!مخلوق بس ''ایک '' ہے.. وہ تین جمع چار ....!!! دونوں تینوں کو عین پر پالیا ..۔۔۔۔۔۔!!!. ایک وہ بندہ جس کو نور الدین زنگی دنیا کہے جس کا باپ عماد الدین بن کے ""دین کا ستون"" نور دنیا کے حوالے کرگیا.۔۔۔!!! صدقہ جاریہ اس کا کام...! وہی جس نے نبیﷺ کی قبر مبارک کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے مضبوط کردیا اور خود ایک جانشین صلاح الدین دنیا کو چھوڑ گیا.۔۔.!!! صلاح الدین کا مقصد اللہ نے طے کر رکھا تھا.۔۔۔۔۔!!.
ایک بار پھر یثرب سے فلسطین آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی ترا..
اقصی ٰ نام کی بات سے یاد آیا.۔۔۔!!!..بندے نام ِکے اقصیٰ والے ہو تم...! نام بدل جانے سے کام بدل نہیں جاتے ...!!!! اپنا نام تو نے بدل ڈالا...مگر نام اقصیٰ والے بڑے کام والے ...! جب کام ملے تو بندے کا کام کرنا چاہیے زندگی کا مقصد سب کی زندگیوں میں جدا جدا ہے مگر اس جدا کام کی شاخ در شاخ مل کر نور کو سرچشمہ ِ درخت سے جڑی فیض یاب ہوجاتی ہے .۔۔۔. !!کوئی شاخ ہے تو کوئی درخت تو کوئی ہرا بھرا باغ ہے ..۔۔۔۔!!!.سب کا مقام اپنا اپنا... ! چل بندیا ! تو نہ کر تیری میری ! تو کر بس ''میری میری'' تیری خواہش کی تیری تیری ... اس کو رب پر چھوڑ دے.۔۔۔۔۔!!!.. نوازنے پر آؤں تو نواز دوں زمانہ........!
آخری تدوین: