تو نے سوچا ہی نہیں کچھ بھی ہٹا کر اس سے - رخشندہ نوید

کاشفی

محفلین
غزل
(رخشندہ نوید)

تو نے سوچا ہی نہیں کچھ بھی ہٹا کر اس سے
اب بچھڑنا ہے تو پھر خود کو جدا کر اس سے

وہ بگڑتا ہے تو دنیا ہی بگڑ جاتی ہے
اس لئے رکھنی پڑی مجھ کو بنا کر اس سے

ایک جگنو تھا مگر اسِ سے جلے کتنے چراغ
رابطے بڑھتے گئے ربط بڑھا کر اِس سے

بات کیا ہے کہ اٹھائی ہی نہ جائیں پلکیں؟
بات ہو جب بھی تو پلکوں کو جھکا کر اس سے

میں کہانی میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں اے دل
پوچھنا ہوگا کسی روز بٹھا کر اس سے

کس طرح اس پہ تیرے درد کا منظر کھلتا
تو محبت بھی تو کرتی تھی چھپا کر اس سے

لہر جس طرح کنارے کو چھوئے آخری بار
ایسا محسوس ہوا ہاتھ ملا کر اس سے
 

خوشی

محفلین
کس طرح اس پہ تیرے درد کا منظر کھلتا
تو محبت بھی تو کرتی تھی چھپا کر اس سے



واہ بہت خوب کاشفی جی عمدہ کلام ھے
 
Top