کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تو وہی، ترا شباب وہی
کیوں نہ ہو مجھ کو اضطراب وہی

ظاہراَ جس کو ہوگی ناکامی
ہوگا اُلفت میں کامیاب وہی

دیکھتی ہیں تری نگاہیں کیا
ہے مرا عالمِ خراب وہی

فرق ساقی کی ہے نگاہوں کا
ورنہ ساغر وہی، شراب وہی

لاکھ اُلفت کے باوجود اب تک
تجھ کو مجھ سے ہے اجتناب وہی

نگہِ استعجاب کیا دیکھے
تیرے جلوے وہی، نقاب وہی

ہم ہی شاید بدل گئے بہزاد
ورنہ ہر سمت ہے شباب وہی
 
Top