با ادب
محفلین
تو کی جانے پھولیے مجے
کہتے ہیں پاکستان میں تفرقے بازی بہت ہے لیکن اسکا کیا کیجیے کہ ہمارے اندر پاکستان کے تمام صوبوں کی محبت پنپتی تھی میں چونکہ ایک پختون گھرانے میں پیدا ہوئی اگر آپ نے بنی اسرائیل کی تاریخ پڑھی ہو تو انھیں سب سے زیادہ جس بات پہ ناز اور فخر تھا وہ انکا اعلی نسل سے ہونا تھا ۔ بس جان لیجیے کہ یہی تفاخر ہمارے گھرانے میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا انکے خیال میں ہم پاکستان کے اس گھرانے سے ہیں جو اعلی اور بہترین نسب سے تعلق رکھتے ہیں باقی کے سبھی لوگ کیڑے مکوڑے ہیں اور چونکہ ہم پنجاب میں رہتے تھے تو پنجابیوں کے ساتھ میل جول سے تو خود کو اور اپنی اولاد کو بالکل ایسے ہی بچانا ہے جیسے برہمن خود کو شودر سے ۔
ہممیں دوست بنانے کی ہر گز اجازت نہ تھی سبحان اللہ کہیے کہ یہ ممانعت فقط پنچاب 'بلوچستان، ہزارہ ، اردو اسپیکنگ ، سندھی اور بلتیوں کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ دوسرے علاقے کے پٹھانوں کو بھی ہم اسی اہتمام سے شودر سمجھا کرتے اور روز گھر میں یہ جاپ کرنا ضروری تھی کہ
we are air born
ارے ہم کوئی ہوائی مخلوق نہ تھے نہ ہی ہوا میں پیدا ہوئے تھے یہ تو نعرہ تکبر تھا جس کا جاپ لازم تھا ۔
لیکن کیا کیجیے کہ ہم سب بہن بھائیوں کے اندر ایک پاکستان بستا تھا ۔ ہم بہن بھائیوں میں کچھ زیادہ پٹھان تھے یعنی غصہ ناک پہ دھرا ہے بس کیجیے اور خوب کیجیے کہ یہ ہمارا پیدایشی حق ہے ویسے بھی ہم دنیا پہ حکومت کرنے کے لیئے پیدا ہوئے تھے
( کونسی دنیا ؟ وہ ابھی دریافت نہیں ہوئی لیکن ہمارے یہودی بھائی ڈھونڈ رہے ہیں جلد پیدا ہو جائے گی ۔ پھر ہم حکمران ہنگے اور باقی رنگ و نسل کے لوگوں سے وہ سلوک کریں گے کہ لوگ ہٹلر کو بھول جائیں گے )
ہمارا اس تحریر کو لکھنے کا مقصد قطعا اس فضول بحث پہ بات کرنا نہیں ہم تو اس پاکستان کی بات کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے اندر بستا تھا اور بستا ہے ۔
پہلی محبت ۔۔سب کو ہوتی ہے ہمیں بھی ہوئی اور کیا کیجیے کہ ایسی ہوئی کہ آج تک جان نہ چھڑا پائے ۔ عشق ہوگیا تھا گوڈے گٹے ڈوبے پڑے ہیں لمبی آہیں آہیں بھرتے ہیں ۔۔ چلچلاتی دھوپ میں چھت کے کسی کونے میں دبکے پسینے سے شرابور عشق میں غرق کہ ابا جی دوپہر میں گھر قیلولہ کرنے آتے کمرے میں ہوتے تو پکڑے جانے کا خطرہ تھا اور پھر ہمارے عشق کا انجام فقط قتل ہوتا ۔۔جانتے تو ہیں آپ قبائلی اقدار کو ۔ کتنی کتابیں پھاڑ ڈالی تھیں ظالم ابا حضور نے ۔۔۔ جی ہاں پہلا عشق ہمیں اردو سے ہوا ۔ اور جہاں کتاب ملی ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں ہضم کرنے کو بے قرار ۔ لیکن یہ ظالم سماج !
اور وہ محبت ہی کیا جس میں کوئی ولن نہ ہو جہاں سماج کی رکاوٹیں نہ ہوں ۔
انکار کی وہ لذت اقرار میں کہاں ہے ؟
بڑھتا ہے شوق غالب انکی نہیں نہیں سے
ہم ویسے بھی اس محبت کے قائل نہیں جو آرام سے مل جائے ہمیں محبت کرنے سے کوئی سروکار نہیں لیکن جو مزہ آہیں بھرنے میں آتا ہے اسکا سواد تو کی جانے پھولیے مجے ۔
خیر ہم نے عشق کیا اردو سے اور بے پناہ کیا بے انتہا کیا اسی عشق کے نتیجے میں ہمیں وہ سلونے پان تھوکتے لوگ بھی پسند رہے جو اہل زبان کہلاتے تھے اور جن کی واحد پہچان الطاف بھائی تھے ۔۔ الطاف بھائی کے کالے کرتوت ایک جانب کہ وہ تو وہ غفار خان کے پوتے کہ بھی کچھ کم نہ تھے ہم انکی ڈکراتی آواز کو اس لیئے سنتے کہ ظالم کی شین قاف درست تھی ۔
دوسری محبت ہمیں جگتوں سے ہو گئی ۔ ہماری بچپن کی جوانی اور اب بڑھاپے کی واحد سہیلی پنجابن اور وہ بھی لہورن ۔ یہ لہورن مکمل طور پر ایک پختون خاتون تھیں اور ہم لہوری ۔ ہم نے پنجابی سے عشق کیا اور جگتوں پہ ایمان لائے اور بھڑکوں کو دین کا حصہ سمجھا ۔ بھاٹی کے قصے ازبر کئیے اور اپنے اندر کی پنجابن کو کھل کے جینے دیا ۔ یقین مانیے جب ہمارے خاندان کے لوگ ناک سکوڑ کے ارشاد فرماتے بھائی صاحب کے بچے تو پنجابی ہو گٰئے تو بڑی خوشی ہوتی ( بھائی صاحب میں ایک کمال ضرور تھا کلمہ وہ پٹھانوں والا پڑھتے تھے لیکن اندر سے بالکل بھی پٹھان نہیں تھے ۔ کہیں نہ کہیں ان میں بھی ایک پاکستان بستا تھا )
یہ ساری رام کتھا ہم نے لاہوریوں سے اضہار یکجہتی کرنے کے لیے ہی کیا ہے ۔ ہماری اماں زندگی میں ایک دفعہ لاہور گئیں اور واپسی پہ کانوں کو ہاتھ لگا لگا کے توبہ کرتیں اللہ اللہ کیسے با حیا لوگ ہیں ( ب کے آگے ے آپ خود بھی لگا سکتے ہیں کہ کہا اماں نے کچھ یوں ہی تھا لیکن ہمیں تو ان سے عشق ہے )
کیوں اماں آپکو چھیڑ دیا تھا کسی نے ؟
نعوذباللہ ۔۔اری نوج ہمیں کیوں چھیڑتے ۔ ہم تو تمھارے ابا کے ساتھ تھے کسی کی کیا مجال ۔( شاید اماں کو یہی افسوس رہا ہو کہ ابا ساتھ کیوں گئے تھے )
تو کیا ہوا ؟
لہوری مرد بسوں میں خواتین کے ساتھ ہی سیٹ پہ بیٹھ جاتے ہیں ۔
ارے واہ اماں کتنے اچھے ہیں ۔
اماں کا پارہ آسمان پہ ۔ کہا تھا تمھارے ابا کو بچے پنجاب میں بڑے ہوکر یہی رنگ اختیار کریں گے ۔
اماں یہ راولپنڈی اسلام آباد مردوں کے شہر ہیں یہ پنجاب ، سندھ ، سرحد بلوچستان کسی کا حصہ نہیں ۔ یہاں مردے بستے ہیں بندے نہیں ۔
یہ لمبی لمبی زلفیں ہیں انکی ۔
واؤ کتنے کول لگتے ہیں نا
ہاں لگتے ہیں نا فضول ۔
اماں لاہور میں بھاٹی گیٹ کے پاس ہیرے بھی بکتے ہیں ۔
اچھا میں نے نہیں دیکھے
( اب اماں کو ہیروں سے کیا لینا دینا ۔۔لیکن یہ ہم سمجھا دیتے تو ؔآج ہمارے چتا کی راکھ شاید کراچی کے سمندر میں بھی نہ ملتی کسی اور دیس کا سفر کر رہی ہوتی )
کہتے ہیں پٹھانوں میں مذاق کو سمجھنے کی حس مفقود ہوتی ہے ۔ ہم کیسے مان لیتے کہ ہم جیسا پختون بھی روئے ارض پہ موجود تھا لیکن پھر ہمیں پٹھان دکھائی دے دیے ۔۔۔
آپ جگت ماریے اور ایک بلند بانگ قہقہہ لگائیے لیکن قہقہے کے بعد داد کا انتظار مت کیجیے گا بس پاؤں سر پہ رکھ کے بھاگ جائیے کہ پشاور کی رانی اور کوئٹے کا پٹھان اپنی خطرناک نگاہوں سے گھور گھور کر آپ کو شہید کر دیں گے اور بھری جوانی میں شہادت چہ معنی دارد ۔
زندگی میں ایک مرتبہ چند سالوں کے لئیے ہم پشاور کی رانیوں میں پھنس گئے تھے ہم ٹہرے لہوری بس بزبان پشتو ۔
سہیلی سے ارشاد ہوا اری بندریا دیکھ کے کام کرو ۔ اب بندریا کے تیور قاتلانہ اور ہماری گھگھی عاجزانہ ۔
سوچا اس بندریا کو آئندہ شہزادی عالم کہیں گے بس آج جان بخش دے ۔
اگلی دفعہ ایک اور رانی کو کہا ۔۔ وے کھوتیا کدی کوئی عقل الا کم وی کیتا ای ۔
اور وہ کھوتی ایسی روٹھی کہ آج تک روٹھی ہی ہے ۔
اب ہمیں کہاں پتہ تھا کہ ان رانیوں کی آن بان اور شان ایسی نرا لی ہے کہ ذرا سا ہلانے سے عزت خاک میں مل جاتی ہے ۔
باقی صوبوں کا احوال بھی وقت ملنے پہ گوش گزاریں گے ابھی تو اجازت دیجیے
فی امان اللہ
سمیرا امام
کہتے ہیں پاکستان میں تفرقے بازی بہت ہے لیکن اسکا کیا کیجیے کہ ہمارے اندر پاکستان کے تمام صوبوں کی محبت پنپتی تھی میں چونکہ ایک پختون گھرانے میں پیدا ہوئی اگر آپ نے بنی اسرائیل کی تاریخ پڑھی ہو تو انھیں سب سے زیادہ جس بات پہ ناز اور فخر تھا وہ انکا اعلی نسل سے ہونا تھا ۔ بس جان لیجیے کہ یہی تفاخر ہمارے گھرانے میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا انکے خیال میں ہم پاکستان کے اس گھرانے سے ہیں جو اعلی اور بہترین نسب سے تعلق رکھتے ہیں باقی کے سبھی لوگ کیڑے مکوڑے ہیں اور چونکہ ہم پنجاب میں رہتے تھے تو پنجابیوں کے ساتھ میل جول سے تو خود کو اور اپنی اولاد کو بالکل ایسے ہی بچانا ہے جیسے برہمن خود کو شودر سے ۔
ہممیں دوست بنانے کی ہر گز اجازت نہ تھی سبحان اللہ کہیے کہ یہ ممانعت فقط پنچاب 'بلوچستان، ہزارہ ، اردو اسپیکنگ ، سندھی اور بلتیوں کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ دوسرے علاقے کے پٹھانوں کو بھی ہم اسی اہتمام سے شودر سمجھا کرتے اور روز گھر میں یہ جاپ کرنا ضروری تھی کہ
we are air born
ارے ہم کوئی ہوائی مخلوق نہ تھے نہ ہی ہوا میں پیدا ہوئے تھے یہ تو نعرہ تکبر تھا جس کا جاپ لازم تھا ۔
لیکن کیا کیجیے کہ ہم سب بہن بھائیوں کے اندر ایک پاکستان بستا تھا ۔ ہم بہن بھائیوں میں کچھ زیادہ پٹھان تھے یعنی غصہ ناک پہ دھرا ہے بس کیجیے اور خوب کیجیے کہ یہ ہمارا پیدایشی حق ہے ویسے بھی ہم دنیا پہ حکومت کرنے کے لیئے پیدا ہوئے تھے
( کونسی دنیا ؟ وہ ابھی دریافت نہیں ہوئی لیکن ہمارے یہودی بھائی ڈھونڈ رہے ہیں جلد پیدا ہو جائے گی ۔ پھر ہم حکمران ہنگے اور باقی رنگ و نسل کے لوگوں سے وہ سلوک کریں گے کہ لوگ ہٹلر کو بھول جائیں گے )
ہمارا اس تحریر کو لکھنے کا مقصد قطعا اس فضول بحث پہ بات کرنا نہیں ہم تو اس پاکستان کی بات کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے اندر بستا تھا اور بستا ہے ۔
پہلی محبت ۔۔سب کو ہوتی ہے ہمیں بھی ہوئی اور کیا کیجیے کہ ایسی ہوئی کہ آج تک جان نہ چھڑا پائے ۔ عشق ہوگیا تھا گوڈے گٹے ڈوبے پڑے ہیں لمبی آہیں آہیں بھرتے ہیں ۔۔ چلچلاتی دھوپ میں چھت کے کسی کونے میں دبکے پسینے سے شرابور عشق میں غرق کہ ابا جی دوپہر میں گھر قیلولہ کرنے آتے کمرے میں ہوتے تو پکڑے جانے کا خطرہ تھا اور پھر ہمارے عشق کا انجام فقط قتل ہوتا ۔۔جانتے تو ہیں آپ قبائلی اقدار کو ۔ کتنی کتابیں پھاڑ ڈالی تھیں ظالم ابا حضور نے ۔۔۔ جی ہاں پہلا عشق ہمیں اردو سے ہوا ۔ اور جہاں کتاب ملی ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں ہضم کرنے کو بے قرار ۔ لیکن یہ ظالم سماج !
اور وہ محبت ہی کیا جس میں کوئی ولن نہ ہو جہاں سماج کی رکاوٹیں نہ ہوں ۔
انکار کی وہ لذت اقرار میں کہاں ہے ؟
بڑھتا ہے شوق غالب انکی نہیں نہیں سے
ہم ویسے بھی اس محبت کے قائل نہیں جو آرام سے مل جائے ہمیں محبت کرنے سے کوئی سروکار نہیں لیکن جو مزہ آہیں بھرنے میں آتا ہے اسکا سواد تو کی جانے پھولیے مجے ۔
خیر ہم نے عشق کیا اردو سے اور بے پناہ کیا بے انتہا کیا اسی عشق کے نتیجے میں ہمیں وہ سلونے پان تھوکتے لوگ بھی پسند رہے جو اہل زبان کہلاتے تھے اور جن کی واحد پہچان الطاف بھائی تھے ۔۔ الطاف بھائی کے کالے کرتوت ایک جانب کہ وہ تو وہ غفار خان کے پوتے کہ بھی کچھ کم نہ تھے ہم انکی ڈکراتی آواز کو اس لیئے سنتے کہ ظالم کی شین قاف درست تھی ۔
دوسری محبت ہمیں جگتوں سے ہو گئی ۔ ہماری بچپن کی جوانی اور اب بڑھاپے کی واحد سہیلی پنجابن اور وہ بھی لہورن ۔ یہ لہورن مکمل طور پر ایک پختون خاتون تھیں اور ہم لہوری ۔ ہم نے پنجابی سے عشق کیا اور جگتوں پہ ایمان لائے اور بھڑکوں کو دین کا حصہ سمجھا ۔ بھاٹی کے قصے ازبر کئیے اور اپنے اندر کی پنجابن کو کھل کے جینے دیا ۔ یقین مانیے جب ہمارے خاندان کے لوگ ناک سکوڑ کے ارشاد فرماتے بھائی صاحب کے بچے تو پنجابی ہو گٰئے تو بڑی خوشی ہوتی ( بھائی صاحب میں ایک کمال ضرور تھا کلمہ وہ پٹھانوں والا پڑھتے تھے لیکن اندر سے بالکل بھی پٹھان نہیں تھے ۔ کہیں نہ کہیں ان میں بھی ایک پاکستان بستا تھا )
یہ ساری رام کتھا ہم نے لاہوریوں سے اضہار یکجہتی کرنے کے لیے ہی کیا ہے ۔ ہماری اماں زندگی میں ایک دفعہ لاہور گئیں اور واپسی پہ کانوں کو ہاتھ لگا لگا کے توبہ کرتیں اللہ اللہ کیسے با حیا لوگ ہیں ( ب کے آگے ے آپ خود بھی لگا سکتے ہیں کہ کہا اماں نے کچھ یوں ہی تھا لیکن ہمیں تو ان سے عشق ہے )
کیوں اماں آپکو چھیڑ دیا تھا کسی نے ؟
نعوذباللہ ۔۔اری نوج ہمیں کیوں چھیڑتے ۔ ہم تو تمھارے ابا کے ساتھ تھے کسی کی کیا مجال ۔( شاید اماں کو یہی افسوس رہا ہو کہ ابا ساتھ کیوں گئے تھے )
تو کیا ہوا ؟
لہوری مرد بسوں میں خواتین کے ساتھ ہی سیٹ پہ بیٹھ جاتے ہیں ۔
ارے واہ اماں کتنے اچھے ہیں ۔
اماں کا پارہ آسمان پہ ۔ کہا تھا تمھارے ابا کو بچے پنجاب میں بڑے ہوکر یہی رنگ اختیار کریں گے ۔
اماں یہ راولپنڈی اسلام آباد مردوں کے شہر ہیں یہ پنجاب ، سندھ ، سرحد بلوچستان کسی کا حصہ نہیں ۔ یہاں مردے بستے ہیں بندے نہیں ۔
یہ لمبی لمبی زلفیں ہیں انکی ۔
واؤ کتنے کول لگتے ہیں نا
ہاں لگتے ہیں نا فضول ۔
اماں لاہور میں بھاٹی گیٹ کے پاس ہیرے بھی بکتے ہیں ۔
اچھا میں نے نہیں دیکھے
( اب اماں کو ہیروں سے کیا لینا دینا ۔۔لیکن یہ ہم سمجھا دیتے تو ؔآج ہمارے چتا کی راکھ شاید کراچی کے سمندر میں بھی نہ ملتی کسی اور دیس کا سفر کر رہی ہوتی )
کہتے ہیں پٹھانوں میں مذاق کو سمجھنے کی حس مفقود ہوتی ہے ۔ ہم کیسے مان لیتے کہ ہم جیسا پختون بھی روئے ارض پہ موجود تھا لیکن پھر ہمیں پٹھان دکھائی دے دیے ۔۔۔
آپ جگت ماریے اور ایک بلند بانگ قہقہہ لگائیے لیکن قہقہے کے بعد داد کا انتظار مت کیجیے گا بس پاؤں سر پہ رکھ کے بھاگ جائیے کہ پشاور کی رانی اور کوئٹے کا پٹھان اپنی خطرناک نگاہوں سے گھور گھور کر آپ کو شہید کر دیں گے اور بھری جوانی میں شہادت چہ معنی دارد ۔
زندگی میں ایک مرتبہ چند سالوں کے لئیے ہم پشاور کی رانیوں میں پھنس گئے تھے ہم ٹہرے لہوری بس بزبان پشتو ۔
سہیلی سے ارشاد ہوا اری بندریا دیکھ کے کام کرو ۔ اب بندریا کے تیور قاتلانہ اور ہماری گھگھی عاجزانہ ۔
سوچا اس بندریا کو آئندہ شہزادی عالم کہیں گے بس آج جان بخش دے ۔
اگلی دفعہ ایک اور رانی کو کہا ۔۔ وے کھوتیا کدی کوئی عقل الا کم وی کیتا ای ۔
اور وہ کھوتی ایسی روٹھی کہ آج تک روٹھی ہی ہے ۔
اب ہمیں کہاں پتہ تھا کہ ان رانیوں کی آن بان اور شان ایسی نرا لی ہے کہ ذرا سا ہلانے سے عزت خاک میں مل جاتی ہے ۔
باقی صوبوں کا احوال بھی وقت ملنے پہ گوش گزاریں گے ابھی تو اجازت دیجیے
فی امان اللہ
سمیرا امام