میں نے اکثر "اور" کو دو حرفی کے طور پہ ہی استعمال کیا ہے
سلمان بھائی !
"اور" کو تین حرفی باندھنا زیادہ فصیح ہے، مجبوری میں دو حرفی باندھا جا سکتا ہے لیکن وہ ثقیل (بھاری، مشکل) نہیں لگنا چاہئے۔ مثلاً استاد غالب کا یہ شعر دیکھئے:
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں غالب
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یہاں "اور" دو حرفی باندھا گیا ہے لیکن وہ روانی میں پڑھنے میں ثقیل نہیں لگتا۔۔۔
رہا آپ کا شعر، تو اس میں کچھ ثقالت محسوس ہوتی ہے؛
ویسے بھی جب اپنے پاس متبادل ہو تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہئے،
الف عین انکل کا متبادل مصرعہ بہت عمدہ ہے، آپ اسے ہی استعمال کر لیں۔۔۔
چونکہ آپ نے اس متبادل مصرعہ پر ایک خدشہ ظاہر کیا ہے تو اس کا بھی تصفیہ ہو جائے۔۔۔
آپ نے کہا:
"دہر اور تیری بزم" میں "م" یک حرفی کے طور پر بچ جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو کہ مصرعے کے آخر میں چھوٹ دیتا تو سنا تھا بیچ میں نہیں۔ لیکن میرا علم بہت ہی نا پختہ ہے تو یہ صرف اپنے علم کے مطابق عرض کر رہا ہوں سب۔ آپ تشریح عنایت فرما دیں
آپ کی بحر (بحر ہزج مثمن اشتر)
فاعلن مفاعیلن ÷ فاعلن مفاعیلن ہے۔
اس کا ہر مصرعہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور ہر حصے کے آخری میں ایک حرف کا اضافہ جائز ہے۔
یعنی ہر "مفاعلین" کو "مفاعیلان" کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے لئے غالب کا یہ شعر دیکھئے:
حالِ دل نہیں معلو
م، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا
یہاں "معلوم" میں آخری "م" وہی اضافی حرف ہے جس کے جواز کی بات ہو رہی ہے۔۔۔
----
حسنِ اتفاق دیکھئے کہ اس میں بھی "م" ہی زائد ہے اور انکل کے متبادل مصرعہ میں بھی "م" ہی زائد ہے