اس فورم کے ناظمین کو میرا سلام ۔۔۔
میں نے شاعری کے علاوہ کچھ افسانوں کی صورت میں بھی کہنے کی کوشش کی ہے ایک یہ کوشش آپ سب کی خدمت میں حاضر ہے ۔۔۔ دیکھیں ۔۔۔ ! یار دوستوں کو کیسی لگتی ہے۔؟
[hr:24f4690218]
آج رات میری آنکھوں سے نیند کوسوں دُور تھی۔ مجبوراً سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا۔ کل میری وطن روانگی تھی ۔۔۔ پُورے آٹھ سال بعد ۔۔۔ ان آٹھ سالوں میں جہاں میں نے پایا تھا ۔۔ وہاں کھویا بھی بہت کچھ تھا۔ بلکہ یُوں کہنا بہتر رہے گا کہ میں نے کھویا ہی کھویا تھا۔
وطن چھوڑنے کے بعد بھی میرے دل میں وہ کسک اب بھی موجود تھی جو میں یہاں امریکہ آتے ہوئے ساتھ لایا تھا۔ وہ آخری رات کا منظر میری نظروں میں ابھی تک اس طرح محفوظ تھا کہ جیسے کل کی ہی بات ہو۔ اُس رات فرح کی شادی تھی اور میری امریکہ روانگی ۔۔۔ اور فرح میرے پاس عجلہ عروسی کے جوڑے میں میرے گھر میں آکر میرے کمرے میں کھڑی تھی ۔۔۔۔ (اور اُس رات میرے گھر والے میرے لئے گرم کپڑوں کی خریداری کے لئے باہر نکلے ہوئے تھے کہ امریکہ میں ضرورت پڑے گی۔) وہ دسمبر کی بڑی سرد رات تھی۔ جب وہ سارے رشتے ، سارے بندھن میری خاطر توڑ کر آئی تھی۔ اُس کے گھر پر برات آنے والی تھی اور وہ میرے گھر اور میرے کمرے میں کھڑی سیسکیاں بھر رہی تھی۔
جہانزیب ۔۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ میں تمہاری خاطر ہر چیز کو داؤ پر لگا کر آئی ہوں ۔۔۔۔ حتٰی کے اپنی اور اپنی گھر کی عزت وناموس کو بھی ۔۔۔ پلیز مجھے اپنا لو ۔۔۔اب بھی وقت ہے ۔۔۔ میں تمہارے علاوہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔۔ میں اپنی محبت کو اپنے اور تمہارے گھر کے جھگڑوں میں دفن نہیں کروں گی۔
میں اور فرح بچپن ہی ایک ساتھ کھیل کود کر جوان ہوئے تھے۔ لڑکپن کی معصومیت اور اپنائیت کا رشتہ اب محبت کے عظیم رشتے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مجھے اُس کو اور اُسے مجھے دیکھے بغیر چین نہیں آتا تھا ۔ میرا گھراُس کے گھر کے عین سامنے تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہماری محبت میں ایسا والہانہ پن آگیا کہ جسے دیکھ کر میرے اور اُس کے گھر والوں نے اشاروں ہی اشاروں میں ہمیں ایک دوسرے سے منسُوب کر دیا ۔ ہم مسرور اور مطمئن تھے کہ ہم خوشنصیب ہیں جنہیں محبت کی منزل بغیر کسی دُشواری کےمل جائےگی۔ مگر قدرت ایک ایسا طوفان ہم دو گھروں کی بیچ لے کر آگئی کہ جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے اور اُس کے والد ایک ہی فرم میں کام کرتے تھے ۔ وہاں ایک دن رقم کی لین دین کا کچھ ایسا معاملہ اُٹھ کھڑا ہوا کہ ابو اور فرح کے پاپا نے ایک دوسرے پر الزام رکھ دیا ۔ صیح واقعہ کا مجھے آج تک علم نہیں ۔۔۔ مگر وہ واقعہ میرے اور فرح کے گھروں کے درمیان ایسی خلیج پیدا کر گیا کہ فرح اور میرے گھر والوں نے نہ صرف ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیا بلکہ فرح کے والد اپنا گھر بیچ کر کسی اور علاقے منتقل ہو گئے۔
میں نے بہت کوشش کی کہ مصالحت کا کوئی راستہ نکل آئے مگر بے سُود ۔۔ فرح کے پاپا نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو ختم دیں گے مگر مجھ سے اُس کی شادی نہیں کریں گے۔ فرح نے بھی بہت کوشش کی مگر کوئی حل نہ نکلا۔ میں اور فرح کبھی کبھار چوری چھپے کہیں مل لیتے اور اپنی قسمت کو روتے رہتے۔
ایک سال گذرنے کے بعد فرح کا پاپا نے اُس کی شادی کہیں طے کردی اور ہمیں شادی کا دعوت نامہ بھی بھیجا جسے میرے ابو نے پُرزہ پُرزہ کردیا ۔۔۔۔فرح کی شادی والے دن ہی میری سیٹ اچانک ہی کنفیرم ہوگئی اور گھر والوں کو عُلجت میں میرے کپڑوں کی خریداری کے لئے نکلنا پڑا تھا اور میں گھر رُک گیا تھا کہ جو اور جتنا ہو سکے میں پیکنگ کر لوں ۔ ابو بھی ۔۔ امی اور چھوٹی بہن شگفتہ کے ساتھ چلے گئے تھے (جو کہ عموماً نہیں جاتے تھے) میرے ابو کو یہی یہی دکھ تھا کہ ایک چھوٹی سی غلط فہمی نے اُن کے بیٹے کی محبت چھین لی ، مگر وہ یہ ضرور کہتے تھے کہ بیٹا ! جو ہوگیا سو ہوگیا مگر کوئی ایسا قدم نہ اُٹھانا کہ مجھے اُس دن کی ذلت سے بھی بڑی ذلت دیکھنا پڑے ) ۔۔۔ اور یہ وہی وقت تھا جب فرح سارے رشتوں کو چھوڑ کر میرے گھر میں میرے سامنے کھڑی تھی۔
تُم جواب کیوں نہیں دیتے جہانزیب ۔۔۔ کیا تم ایک قدم بھی بڑھا نہیں سکتے ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ سارا سفر تو میں کر کر آئی ہوں ۔۔۔ تمہیں تو صرف ایک قدم بڑھانا ہے ۔
دیکھو فرح ۔۔۔۔ ! (میں نے کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا ) میں اور تم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔۔۔ مگر جو قسمت نے اپنا کھیل کھیلا ہے اُسے ہم مات نہیں دے سکتے ۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں یا تم اپنی محبت ۔۔ اپنے بڑوں کی عزت کی قربانی دے کر حاصل کریں ۔۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔ پلیز واپس لوٹ جاؤ اب بھی وقت ہے ۔
میرا جواب سن کر وہ ایک دم خاموش ہوگئی ۔۔۔ اُس کے چہرے کا کرب دیکھ کر میری روح میں جیسےشگاف پڑ نے سے لگے ۔۔۔ مگر میں خاموش رہا۔ کچھ دیر توقف کے بعد اُس نے کہا ۔۔ ” تمہارے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم حتمی ٍفیصلہ کر چکے ہو ۔۔۔ تو میں بھی اب کوئی فیصلہ کر ہی لوں گی ۔۔۔ مگر مجھے اس بات کی اجازت دو کہ میں تمہیں آخری بار چُھو لوں” ۔۔۔ میری خاموشی دیکھ کر وہ خود ہی آگے بڑھی اور میرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر ِٹکٹتی باندھ کر مجھے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی ایک چمک دیکھ کر مجھے جھرجُھری سی آگئی مگر میں اُسں چمک کو کوئی نام نہیں دے سکا۔
”بس اب میں چلتی ہوں ۔۔۔ ” یہ کہہ کر وہ واپس مڑ گئی مگر اس بار اُس کی چال میں بلا کی خوداعتمادی تھی ۔۔۔۔ اُس نے مجھے مڑ کر دوبارہ نہیں دیکھا اور چلی گئی۔
گھر والوں کے آنے بعد میں نے سامان گاڑی میں ڈالا اور گھر والوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ غیاث اور شاہد بھی اپنی گاڑی میں آ گئے مجھے خوشی ہوئی کہ میرے دوست میری ایک کال پر مجھے الوادع کہنےآگئے۔ ہم سب ائیر پورٹ پہنچے اور میں سب کی دُعائیں لے کر اور اپنی زندگی یہاں چھوڑ کر پردیس روانہ ہوگیا۔
امریکہ آنے کے بعد جیسے مجھے کوئی وحشت سی ہوگئی ۔۔ کہیں دل نہیں لگتا تھا ۔۔۔ یونی ورسٹی میں شروع کے تین سالوں میں مجھ سے کئی سمسٹر بھی مِس ہوئے۔ میں کبھی کبھار گھر فون کرلیا کرتا تھا ۔۔۔ ویسے توعموماً گھر سے ہی کال آتی تھی۔ میں نے اپنے دوستوں کہ بھی ان آٹھ سالوں میں کبھی فون نہیں کیا۔ ایک عجیب سی بے چینی تھی ایک آگ تھی جو مجھے چین ہی نہیں لینے دیتی تھی ۔
جیسے تیسے میں کمپیوٹر سانئس میں میں نے ایم سی ایس کیا ۔۔ ایک دو سال جاب بھی کی لیکن ایک دن طبعیت ایسی یہاں سے اُچاٹ ہوگئی کہ اگلے ہفتے کی واپسی کی سیٹ کر والی۔
میرے پاکستان پہنچنے پر امی ابو کا خوشی سے بُرا حال تھا ۔شگفتہ کی شادی ہوچکی تھی وہ بھی اپنے تین سالہ بچے اور شوہر کے ساتھ مجھے ملنے آئی تھی۔
سب کے جانے کے بعد میں اپنے اُس کمرے میں چلا گیا، جہاں میری فرح سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ ابھی میں بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کہ فون کی بیل بج پڑی۔ میں نے رسیور کان سے لگایا اور ہیلو کہا ۔۔۔ دوسری جانب غیاث تھا ۔۔۔ اُسے جانے کیسے علم ہوگیا تھا کہ میں پاکستان آگیا ہوں ۔ مجھے بہت بُرا بھلا کہا ۔۔۔۔ کہ کبھی پلٹ کر ہی نہیں پُوچھا ۔۔۔ میں نے کہا یار بس غلطی ہوگئی کل گھر آجا ۔۔۔ پھر بات کرتے ہیں۔ کہنے لگا ۔۔۔ ٹھیک ہے میں کل شام کو آؤں گا تجھ لینے مگر تُو صیح ٹائم پر آیا ہے کہ کل شاہد کی شادی ہے ، کسی کو اُس پر رحم آگیا ہے ۔۔۔ میں یہ سن کی بے ساختہ ہنس پڑا ۔۔۔ پتا نہیں کتنی صدیوں بعد ہنسا تھا ۔۔۔ بچپن کے ساتھی اور اچھے دوستوں کی یہی نشانیاں ہوتیں ہیں جن کی قُربت میں انسان کچھ دیر کے لیئے اپنا غم بھول جاتا ہے۔
غیاث شام کو تو نہیں البتہ دوپہر کو ہی آگیا ۔ شاہد اُس کے ساتھ تھا ۔۔۔ ہم باہر گئے اور بچپن کی کئی یادیں تازہ کیں۔ خوب باتیں کیں ۔۔۔ مگر میں نے ایک بات نوٹ کی کہ دونوں نے میرے زندگی کے اُس عظیم سانحے کا ذکر تک نہیں کیا جس نے میری زندگی کو سب سے دُور کر دیا تھا ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہ مجھے رنجیدہ نہیں کرنا چاہتے۔
شام کو میں اپنی گاڑی میں غیاث کے ساتھ برات کے ساتھ چلا ۔۔۔ مگر جس محلے میں برات جا کر رُکی وہ میرے لئے نیا نہیں تھا ۔۔۔ یہاں میری فرح رہتی تھی ۔ میں نے غیاث کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اُس نے کہا کہ یار ۔۔۔ شاہد کی شادی فرح کے برابر والے گھر میں ہورہی ہے ۔ یعنی فرح کے پڑوس میں ۔۔ مجھے غصہ آیا کہ یہ بات اُس نے پہلے کیوں نہیں بتائی ۔
دسمبر میں کبھی کراچی میں ایسی ٹھنڈ نہیں پڑتی جیسی کہ آج پڑ رہی تھی یا پھر اُس روز پڑی تھی جب فرح اپنا سب کچھ چھوڑ کر میرے پاس آئی تھی ۔
مجھے سگریٹ کی طلب ہوئی تو میں ٹینٹ سے باہر نکل کر آگیا ۔۔۔ پیچھے اندھیرا تھا مگر ٹینٹ کے قمقموں سے کہیں نہ کہیں سے روشنی اس طرح آرہی تھی کہ اندھیرے کا احساس نہیں ہورہا تھا ۔ میں نے ساتھ والے مکان کی دیوار کے پاس کھڑے ہو کر اپنی سگریٹ سُلگائی اور منہ اُوپر کر کے دھواں چھوڑا تو مجھے احساس ہوگیا کہ یہ فرح کا گھر ہے اچانک ہی مجھے چُوڑیوں کی کھنک سُنائی دی ۔ میں نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو وہاں فرح کھڑی تھی۔
میں سُن ہوکر رہ گیا ۔۔۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ فرح سےکبھی اس طرح ملاقات ہوگی۔۔۔
” کیوں کیا ہوا ۔۔ ؟ اُس دن کی طرح آج بھی تمہیں سانپ سونگھ گیا۔ ”
میں جھینپ گیا ۔۔۔ اور کہا نہیں۔۔۔ یہ بات نہیں ہے دراصل میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ زندگی میں تم سے یوں اور اس طرح ملاقات ہو جائے گی۔
ا گر دل میں ملنے کا جذبہ ہو تو پھر ملاقات زندگی میں کیا زندگی کے بعد بھی ہو جاتی ہے ۔” اُس نے کہا
۔
مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ پر طنز کر رہی ہے جو کہ اُس کا حق بھی تھا۔
وہ کچھ اور قریب آگئی
میں نے دیکھا کہ وہ آج بھی اُسی طرح کے عجلہ عروسی کے جوڑے میں تھی جیسا کہ میں نے اُسے آخری بار دیکھا تھا۔اور آٹھ برسوں نے اُس کے حُسن کو ُچھوا تک بھی نہیں تھا۔
تم نے آج کسی اور کی شادی میں اپنی شادی کا جوڑا کیوں پہن رکھا ہے ۔۔۔ میں نے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔
میں نے یہ اُتارا ہی کب تھا جو دوبارہ پہنتی ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑی تو میں بھی مُسکرا پڑا۔
پتا ہے جہانزیب ۔۔! میں تم کو آج آخری بار دیکھنے کے لئے آئی ہوں ۔ میں نے اس وقت کا پُورے آٹھ برس انتظار کیا ہے کیونکہ میں نے اُس دن جاتے وقت تم کو دیکھا نہیں تھا ۔۔ تم تو جانتے ہو کہ جب بھی ہم تم ملتے تھے ۔۔۔ میں تم کو اُس وقت تک دیکھتی رہتی تھی جب تک میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتے تھے۔
اُس کی اس بات نےگویا جیسے میرے دل کے زخموں کو ایک آگ سی لگا دی۔ میں اپنی آنکھوں میں آتی ہوئی نَمی کو روک نہیں سکا ۔ ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میرے عقب سے کسی کے قدموں کی آواز سُنائی دی۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو غیاث چلا آرہا تھا۔
یار ۔۔ ! سگریٹ پینی ہی تھی تو ٹینٹ میں ہی پی لیتے ، اتنی سردی میں پینے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ ویسے بھی یہ کوئی امریکہ نہیں ہے ، یہاں کوئی کچھ نہیں کہتا۔
میں نے فرح کی طرف مُڑ کر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھی ۔۔۔ شاید غیاث کے آنے کی وجہ سے چلی گئی تھی ۔ مجھے ایک دن میں غیاث پر دوسری بار غصہ آیا۔
شادی کی رسومات سے فارغ ہوکر میں اور غیاث واپس گھر پہنچے ۔ آج غیاث کا میرے گھر ہی رات گذارنے کا ارادہ تھا۔ کمرے میں پہنچ کر میں نے ایک بار پھر سگریٹ سلگائی ۔ غیاث مجھے غور سے دیکھتا رہا ۔ کچھ دیر بعد اُس نے کہا ” یار جہانزیب ۔۔۔ مجھے تیرے غم کا ہمیشہ دُکھ رہے گا ۔ کوشش کر کہ تُو اُس کو بُھلا دے ۔ میں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔ بس ایک سگریٹ کا کش لے کر دھواں فضا میں چھوڑ دیا۔
اُس دن کے واقعے کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ۔ وہ کہتا رہا ۔۔۔ مجھے معلوم ہے جب تُو نے یہ سُنا ہوگا تو تجھے کتنا دکھ ہوا ہوگا ۔۔۔ شاید اسی وجہ سے تُو نے ہم سب سے کوئی رابطہ نہیں رکھا کہ ہم اُسی واقعے کا ہی ذکر کریں گے۔
میری نظروں کے سامنے فرح کی شادی اور پھر اپنی امریکہ روانگی کا منظر گھوم گیا
اُس روز ہم جب تجھے چھوڑ کر گھر پہنچے تو بارش شروع ہو چکی تھی وہ مسلسل بولتا رہا ۔۔۔ ہمیں بھی اُس کی شادی کا دعوت نامہ ملا تھا مگر میں اور شاہد نہیں گئے ورنہ شاید یہ بات ہمیں اُسی رات معلوم ہوجاتی ۔
یار ۔۔۔ ! وہ تجھے بہت چاہتی تھی ۔۔۔ یہ تو بعد میں صبح مجھے فرح کی گلی میں رہنے والے میرے ایک دوست کے فون کرنے پر معلوم ہوا کہ عین برات کی آمد پر فرح نے خواب آور گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔
----------------------------------------------------------------------------------------
میں نے شاعری کے علاوہ کچھ افسانوں کی صورت میں بھی کہنے کی کوشش کی ہے ایک یہ کوشش آپ سب کی خدمت میں حاضر ہے ۔۔۔ دیکھیں ۔۔۔ ! یار دوستوں کو کیسی لگتی ہے۔؟
[hr:24f4690218]
آج رات میری آنکھوں سے نیند کوسوں دُور تھی۔ مجبوراً سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا۔ کل میری وطن روانگی تھی ۔۔۔ پُورے آٹھ سال بعد ۔۔۔ ان آٹھ سالوں میں جہاں میں نے پایا تھا ۔۔ وہاں کھویا بھی بہت کچھ تھا۔ بلکہ یُوں کہنا بہتر رہے گا کہ میں نے کھویا ہی کھویا تھا۔
وطن چھوڑنے کے بعد بھی میرے دل میں وہ کسک اب بھی موجود تھی جو میں یہاں امریکہ آتے ہوئے ساتھ لایا تھا۔ وہ آخری رات کا منظر میری نظروں میں ابھی تک اس طرح محفوظ تھا کہ جیسے کل کی ہی بات ہو۔ اُس رات فرح کی شادی تھی اور میری امریکہ روانگی ۔۔۔ اور فرح میرے پاس عجلہ عروسی کے جوڑے میں میرے گھر میں آکر میرے کمرے میں کھڑی تھی ۔۔۔۔ (اور اُس رات میرے گھر والے میرے لئے گرم کپڑوں کی خریداری کے لئے باہر نکلے ہوئے تھے کہ امریکہ میں ضرورت پڑے گی۔) وہ دسمبر کی بڑی سرد رات تھی۔ جب وہ سارے رشتے ، سارے بندھن میری خاطر توڑ کر آئی تھی۔ اُس کے گھر پر برات آنے والی تھی اور وہ میرے گھر اور میرے کمرے میں کھڑی سیسکیاں بھر رہی تھی۔
جہانزیب ۔۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ میں تمہاری خاطر ہر چیز کو داؤ پر لگا کر آئی ہوں ۔۔۔۔ حتٰی کے اپنی اور اپنی گھر کی عزت وناموس کو بھی ۔۔۔ پلیز مجھے اپنا لو ۔۔۔اب بھی وقت ہے ۔۔۔ میں تمہارے علاوہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔۔ میں اپنی محبت کو اپنے اور تمہارے گھر کے جھگڑوں میں دفن نہیں کروں گی۔
میں اور فرح بچپن ہی ایک ساتھ کھیل کود کر جوان ہوئے تھے۔ لڑکپن کی معصومیت اور اپنائیت کا رشتہ اب محبت کے عظیم رشتے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مجھے اُس کو اور اُسے مجھے دیکھے بغیر چین نہیں آتا تھا ۔ میرا گھراُس کے گھر کے عین سامنے تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہماری محبت میں ایسا والہانہ پن آگیا کہ جسے دیکھ کر میرے اور اُس کے گھر والوں نے اشاروں ہی اشاروں میں ہمیں ایک دوسرے سے منسُوب کر دیا ۔ ہم مسرور اور مطمئن تھے کہ ہم خوشنصیب ہیں جنہیں محبت کی منزل بغیر کسی دُشواری کےمل جائےگی۔ مگر قدرت ایک ایسا طوفان ہم دو گھروں کی بیچ لے کر آگئی کہ جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے اور اُس کے والد ایک ہی فرم میں کام کرتے تھے ۔ وہاں ایک دن رقم کی لین دین کا کچھ ایسا معاملہ اُٹھ کھڑا ہوا کہ ابو اور فرح کے پاپا نے ایک دوسرے پر الزام رکھ دیا ۔ صیح واقعہ کا مجھے آج تک علم نہیں ۔۔۔ مگر وہ واقعہ میرے اور فرح کے گھروں کے درمیان ایسی خلیج پیدا کر گیا کہ فرح اور میرے گھر والوں نے نہ صرف ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیا بلکہ فرح کے والد اپنا گھر بیچ کر کسی اور علاقے منتقل ہو گئے۔
میں نے بہت کوشش کی کہ مصالحت کا کوئی راستہ نکل آئے مگر بے سُود ۔۔ فرح کے پاپا نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو ختم دیں گے مگر مجھ سے اُس کی شادی نہیں کریں گے۔ فرح نے بھی بہت کوشش کی مگر کوئی حل نہ نکلا۔ میں اور فرح کبھی کبھار چوری چھپے کہیں مل لیتے اور اپنی قسمت کو روتے رہتے۔
ایک سال گذرنے کے بعد فرح کا پاپا نے اُس کی شادی کہیں طے کردی اور ہمیں شادی کا دعوت نامہ بھی بھیجا جسے میرے ابو نے پُرزہ پُرزہ کردیا ۔۔۔۔فرح کی شادی والے دن ہی میری سیٹ اچانک ہی کنفیرم ہوگئی اور گھر والوں کو عُلجت میں میرے کپڑوں کی خریداری کے لئے نکلنا پڑا تھا اور میں گھر رُک گیا تھا کہ جو اور جتنا ہو سکے میں پیکنگ کر لوں ۔ ابو بھی ۔۔ امی اور چھوٹی بہن شگفتہ کے ساتھ چلے گئے تھے (جو کہ عموماً نہیں جاتے تھے) میرے ابو کو یہی یہی دکھ تھا کہ ایک چھوٹی سی غلط فہمی نے اُن کے بیٹے کی محبت چھین لی ، مگر وہ یہ ضرور کہتے تھے کہ بیٹا ! جو ہوگیا سو ہوگیا مگر کوئی ایسا قدم نہ اُٹھانا کہ مجھے اُس دن کی ذلت سے بھی بڑی ذلت دیکھنا پڑے ) ۔۔۔ اور یہ وہی وقت تھا جب فرح سارے رشتوں کو چھوڑ کر میرے گھر میں میرے سامنے کھڑی تھی۔
تُم جواب کیوں نہیں دیتے جہانزیب ۔۔۔ کیا تم ایک قدم بھی بڑھا نہیں سکتے ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ سارا سفر تو میں کر کر آئی ہوں ۔۔۔ تمہیں تو صرف ایک قدم بڑھانا ہے ۔
دیکھو فرح ۔۔۔۔ ! (میں نے کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا ) میں اور تم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔۔۔ مگر جو قسمت نے اپنا کھیل کھیلا ہے اُسے ہم مات نہیں دے سکتے ۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں یا تم اپنی محبت ۔۔ اپنے بڑوں کی عزت کی قربانی دے کر حاصل کریں ۔۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔ پلیز واپس لوٹ جاؤ اب بھی وقت ہے ۔
میرا جواب سن کر وہ ایک دم خاموش ہوگئی ۔۔۔ اُس کے چہرے کا کرب دیکھ کر میری روح میں جیسےشگاف پڑ نے سے لگے ۔۔۔ مگر میں خاموش رہا۔ کچھ دیر توقف کے بعد اُس نے کہا ۔۔ ” تمہارے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم حتمی ٍفیصلہ کر چکے ہو ۔۔۔ تو میں بھی اب کوئی فیصلہ کر ہی لوں گی ۔۔۔ مگر مجھے اس بات کی اجازت دو کہ میں تمہیں آخری بار چُھو لوں” ۔۔۔ میری خاموشی دیکھ کر وہ خود ہی آگے بڑھی اور میرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر ِٹکٹتی باندھ کر مجھے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی ایک چمک دیکھ کر مجھے جھرجُھری سی آگئی مگر میں اُسں چمک کو کوئی نام نہیں دے سکا۔
”بس اب میں چلتی ہوں ۔۔۔ ” یہ کہہ کر وہ واپس مڑ گئی مگر اس بار اُس کی چال میں بلا کی خوداعتمادی تھی ۔۔۔۔ اُس نے مجھے مڑ کر دوبارہ نہیں دیکھا اور چلی گئی۔
گھر والوں کے آنے بعد میں نے سامان گاڑی میں ڈالا اور گھر والوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ غیاث اور شاہد بھی اپنی گاڑی میں آ گئے مجھے خوشی ہوئی کہ میرے دوست میری ایک کال پر مجھے الوادع کہنےآگئے۔ ہم سب ائیر پورٹ پہنچے اور میں سب کی دُعائیں لے کر اور اپنی زندگی یہاں چھوڑ کر پردیس روانہ ہوگیا۔
امریکہ آنے کے بعد جیسے مجھے کوئی وحشت سی ہوگئی ۔۔ کہیں دل نہیں لگتا تھا ۔۔۔ یونی ورسٹی میں شروع کے تین سالوں میں مجھ سے کئی سمسٹر بھی مِس ہوئے۔ میں کبھی کبھار گھر فون کرلیا کرتا تھا ۔۔۔ ویسے توعموماً گھر سے ہی کال آتی تھی۔ میں نے اپنے دوستوں کہ بھی ان آٹھ سالوں میں کبھی فون نہیں کیا۔ ایک عجیب سی بے چینی تھی ایک آگ تھی جو مجھے چین ہی نہیں لینے دیتی تھی ۔
جیسے تیسے میں کمپیوٹر سانئس میں میں نے ایم سی ایس کیا ۔۔ ایک دو سال جاب بھی کی لیکن ایک دن طبعیت ایسی یہاں سے اُچاٹ ہوگئی کہ اگلے ہفتے کی واپسی کی سیٹ کر والی۔
میرے پاکستان پہنچنے پر امی ابو کا خوشی سے بُرا حال تھا ۔شگفتہ کی شادی ہوچکی تھی وہ بھی اپنے تین سالہ بچے اور شوہر کے ساتھ مجھے ملنے آئی تھی۔
سب کے جانے کے بعد میں اپنے اُس کمرے میں چلا گیا، جہاں میری فرح سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ ابھی میں بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کہ فون کی بیل بج پڑی۔ میں نے رسیور کان سے لگایا اور ہیلو کہا ۔۔۔ دوسری جانب غیاث تھا ۔۔۔ اُسے جانے کیسے علم ہوگیا تھا کہ میں پاکستان آگیا ہوں ۔ مجھے بہت بُرا بھلا کہا ۔۔۔۔ کہ کبھی پلٹ کر ہی نہیں پُوچھا ۔۔۔ میں نے کہا یار بس غلطی ہوگئی کل گھر آجا ۔۔۔ پھر بات کرتے ہیں۔ کہنے لگا ۔۔۔ ٹھیک ہے میں کل شام کو آؤں گا تجھ لینے مگر تُو صیح ٹائم پر آیا ہے کہ کل شاہد کی شادی ہے ، کسی کو اُس پر رحم آگیا ہے ۔۔۔ میں یہ سن کی بے ساختہ ہنس پڑا ۔۔۔ پتا نہیں کتنی صدیوں بعد ہنسا تھا ۔۔۔ بچپن کے ساتھی اور اچھے دوستوں کی یہی نشانیاں ہوتیں ہیں جن کی قُربت میں انسان کچھ دیر کے لیئے اپنا غم بھول جاتا ہے۔
غیاث شام کو تو نہیں البتہ دوپہر کو ہی آگیا ۔ شاہد اُس کے ساتھ تھا ۔۔۔ ہم باہر گئے اور بچپن کی کئی یادیں تازہ کیں۔ خوب باتیں کیں ۔۔۔ مگر میں نے ایک بات نوٹ کی کہ دونوں نے میرے زندگی کے اُس عظیم سانحے کا ذکر تک نہیں کیا جس نے میری زندگی کو سب سے دُور کر دیا تھا ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہ مجھے رنجیدہ نہیں کرنا چاہتے۔
شام کو میں اپنی گاڑی میں غیاث کے ساتھ برات کے ساتھ چلا ۔۔۔ مگر جس محلے میں برات جا کر رُکی وہ میرے لئے نیا نہیں تھا ۔۔۔ یہاں میری فرح رہتی تھی ۔ میں نے غیاث کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اُس نے کہا کہ یار ۔۔۔ شاہد کی شادی فرح کے برابر والے گھر میں ہورہی ہے ۔ یعنی فرح کے پڑوس میں ۔۔ مجھے غصہ آیا کہ یہ بات اُس نے پہلے کیوں نہیں بتائی ۔
دسمبر میں کبھی کراچی میں ایسی ٹھنڈ نہیں پڑتی جیسی کہ آج پڑ رہی تھی یا پھر اُس روز پڑی تھی جب فرح اپنا سب کچھ چھوڑ کر میرے پاس آئی تھی ۔
مجھے سگریٹ کی طلب ہوئی تو میں ٹینٹ سے باہر نکل کر آگیا ۔۔۔ پیچھے اندھیرا تھا مگر ٹینٹ کے قمقموں سے کہیں نہ کہیں سے روشنی اس طرح آرہی تھی کہ اندھیرے کا احساس نہیں ہورہا تھا ۔ میں نے ساتھ والے مکان کی دیوار کے پاس کھڑے ہو کر اپنی سگریٹ سُلگائی اور منہ اُوپر کر کے دھواں چھوڑا تو مجھے احساس ہوگیا کہ یہ فرح کا گھر ہے اچانک ہی مجھے چُوڑیوں کی کھنک سُنائی دی ۔ میں نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو وہاں فرح کھڑی تھی۔
میں سُن ہوکر رہ گیا ۔۔۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ فرح سےکبھی اس طرح ملاقات ہوگی۔۔۔
” کیوں کیا ہوا ۔۔ ؟ اُس دن کی طرح آج بھی تمہیں سانپ سونگھ گیا۔ ”
میں جھینپ گیا ۔۔۔ اور کہا نہیں۔۔۔ یہ بات نہیں ہے دراصل میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ زندگی میں تم سے یوں اور اس طرح ملاقات ہو جائے گی۔
ا گر دل میں ملنے کا جذبہ ہو تو پھر ملاقات زندگی میں کیا زندگی کے بعد بھی ہو جاتی ہے ۔” اُس نے کہا
۔
مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ پر طنز کر رہی ہے جو کہ اُس کا حق بھی تھا۔
وہ کچھ اور قریب آگئی
میں نے دیکھا کہ وہ آج بھی اُسی طرح کے عجلہ عروسی کے جوڑے میں تھی جیسا کہ میں نے اُسے آخری بار دیکھا تھا۔اور آٹھ برسوں نے اُس کے حُسن کو ُچھوا تک بھی نہیں تھا۔
تم نے آج کسی اور کی شادی میں اپنی شادی کا جوڑا کیوں پہن رکھا ہے ۔۔۔ میں نے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔
میں نے یہ اُتارا ہی کب تھا جو دوبارہ پہنتی ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑی تو میں بھی مُسکرا پڑا۔
پتا ہے جہانزیب ۔۔! میں تم کو آج آخری بار دیکھنے کے لئے آئی ہوں ۔ میں نے اس وقت کا پُورے آٹھ برس انتظار کیا ہے کیونکہ میں نے اُس دن جاتے وقت تم کو دیکھا نہیں تھا ۔۔ تم تو جانتے ہو کہ جب بھی ہم تم ملتے تھے ۔۔۔ میں تم کو اُس وقت تک دیکھتی رہتی تھی جب تک میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتے تھے۔
اُس کی اس بات نےگویا جیسے میرے دل کے زخموں کو ایک آگ سی لگا دی۔ میں اپنی آنکھوں میں آتی ہوئی نَمی کو روک نہیں سکا ۔ ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میرے عقب سے کسی کے قدموں کی آواز سُنائی دی۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو غیاث چلا آرہا تھا۔
یار ۔۔ ! سگریٹ پینی ہی تھی تو ٹینٹ میں ہی پی لیتے ، اتنی سردی میں پینے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ ویسے بھی یہ کوئی امریکہ نہیں ہے ، یہاں کوئی کچھ نہیں کہتا۔
میں نے فرح کی طرف مُڑ کر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھی ۔۔۔ شاید غیاث کے آنے کی وجہ سے چلی گئی تھی ۔ مجھے ایک دن میں غیاث پر دوسری بار غصہ آیا۔
شادی کی رسومات سے فارغ ہوکر میں اور غیاث واپس گھر پہنچے ۔ آج غیاث کا میرے گھر ہی رات گذارنے کا ارادہ تھا۔ کمرے میں پہنچ کر میں نے ایک بار پھر سگریٹ سلگائی ۔ غیاث مجھے غور سے دیکھتا رہا ۔ کچھ دیر بعد اُس نے کہا ” یار جہانزیب ۔۔۔ مجھے تیرے غم کا ہمیشہ دُکھ رہے گا ۔ کوشش کر کہ تُو اُس کو بُھلا دے ۔ میں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔ بس ایک سگریٹ کا کش لے کر دھواں فضا میں چھوڑ دیا۔
اُس دن کے واقعے کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ۔ وہ کہتا رہا ۔۔۔ مجھے معلوم ہے جب تُو نے یہ سُنا ہوگا تو تجھے کتنا دکھ ہوا ہوگا ۔۔۔ شاید اسی وجہ سے تُو نے ہم سب سے کوئی رابطہ نہیں رکھا کہ ہم اُسی واقعے کا ہی ذکر کریں گے۔
میری نظروں کے سامنے فرح کی شادی اور پھر اپنی امریکہ روانگی کا منظر گھوم گیا
اُس روز ہم جب تجھے چھوڑ کر گھر پہنچے تو بارش شروع ہو چکی تھی وہ مسلسل بولتا رہا ۔۔۔ ہمیں بھی اُس کی شادی کا دعوت نامہ ملا تھا مگر میں اور شاہد نہیں گئے ورنہ شاید یہ بات ہمیں اُسی رات معلوم ہوجاتی ۔
یار ۔۔۔ ! وہ تجھے بہت چاہتی تھی ۔۔۔ یہ تو بعد میں صبح مجھے فرح کی گلی میں رہنے والے میرے ایک دوست کے فون کرنے پر معلوم ہوا کہ عین برات کی آمد پر فرح نے خواب آور گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔
----------------------------------------------------------------------------------------