کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تُو دیکھ رہا ہے مرے دل ، میری نظر کو
میں دیکھ رہا ہوں تری دزدیدہ نظر کو
صدقے لبِ خاموش سے کر آنے کا وعدہ
پلکوں سے میں جھاڑوں گا تری راہ گذر کو
حیرت ہی کی دنیا ہے، میں حیرت کے تصدّق
منزل نظر آتی ہے، میں جاتا ہوں جدھر کو
تجھ کو بھی قسم ہے مجھے پامال کئے جا
میں بھی نہ اُٹھاؤں گا ترے پاؤں سے سر کو
اب تک تو ہوں میں بے خودِ فریادِ محبت
جب ہوش میں آؤں گا تو ڈھونڈوں گا اثر کو
کیا کون و مکاں ہیں مری نظروں میں سمائے
یہ وسعتیں دیدیں مری دُنیائے نظر کو
ہر دم مجھے رونا ہے ہر اک لحظہ تڑپنا
تم خوب سمجھتے ہو مری شام و سحر کو
مضطر ہے مرا دل بھی، مری جان بھی، میں بھی
اب لاؤں کہاں سے تری دزدیدہ نظر کو
بہزاد ذرا قلب میں بھی آگ لگا لوں
جلوؤں میں تو الجھا ہی چکا تارِ نظر کو
(بہزاد لکھنوی)
تُو دیکھ رہا ہے مرے دل ، میری نظر کو
میں دیکھ رہا ہوں تری دزدیدہ نظر کو
صدقے لبِ خاموش سے کر آنے کا وعدہ
پلکوں سے میں جھاڑوں گا تری راہ گذر کو
حیرت ہی کی دنیا ہے، میں حیرت کے تصدّق
منزل نظر آتی ہے، میں جاتا ہوں جدھر کو
تجھ کو بھی قسم ہے مجھے پامال کئے جا
میں بھی نہ اُٹھاؤں گا ترے پاؤں سے سر کو
اب تک تو ہوں میں بے خودِ فریادِ محبت
جب ہوش میں آؤں گا تو ڈھونڈوں گا اثر کو
کیا کون و مکاں ہیں مری نظروں میں سمائے
یہ وسعتیں دیدیں مری دُنیائے نظر کو
ہر دم مجھے رونا ہے ہر اک لحظہ تڑپنا
تم خوب سمجھتے ہو مری شام و سحر کو
مضطر ہے مرا دل بھی، مری جان بھی، میں بھی
اب لاؤں کہاں سے تری دزدیدہ نظر کو
بہزاد ذرا قلب میں بھی آگ لگا لوں
جلوؤں میں تو الجھا ہی چکا تارِ نظر کو
مدیر کی آخری تدوین: