مصطفیٰ زیدی تُو مری شمعِ دلِ و دیدہ ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
تُو مری شمعِ دلِ و دیدہ

وہ کوئی رقص کا انداز ہو یا گیت کی تان
میرے دل میں تری آواز ابھر آتی ہے
تیرے ہی بال بکھر جاتے ہیں دیواروں پر
تیری ہی شکل کتابوں میں نظر آتی ہے

شہر ہے یا کسی عیّار کا پُرہول طلسم
تُو ہے یا شہرِ طلسمات کی ننھی سی پری
ہر طرف سیلِ رواں، بس کا دھواں، ریل کا شور
ہر طرف تیرا خُنک گام، تری جلوہ گری

ایک اک رگ تری آہٹ کے لیے چشمِ براہ
جیسے تُو آئے گی بس کوئی گھڑی جاتی ہے
تیری پرچھائیں ہے یا تُو ہے مرے کمرے میں
بلب کی تیز چمک ماند پڑی جاتی ہے

ٹینک سڑکوں پہ چلیں جیپ کے آگے پیچھے
دن گذرتا ہے ترا سایۂ ابرو لے کر
فلسفے تُند حقائق کی شعائیں ڈالیں
شام آتی ہے تری آنکھ کا جادو لے کر
لنگر انداز ہوں ساحل پہ مشینوں کے جہاز
رات ڈھل جاتی ہے مہکے ہوئے گیسو لے کر
میں اسی گیس کی دنیا میں تعفّن کے قریب
شعر لکھتا ہوں ترے جسم کی خوشبو لے کر

(مصطفیٰ زیدی)​
 
آخری تدوین:
Top