الف عین
محمد عبدالرؤوف
شاہد شاہنواز
ظہیراحمدظہیر
-----------
تُو ہے میرا خدا ، میں ہوں بندہ ترا
اپنی چوکھٹ سے رکھنا نہ مجھ کو جدا
---------
خود کو تنہا کبھی میں نے سمجھا نہیں
ہر قدم پر ملا جو ترا آسرا
-------------
فضل کر دے خدا بھر دے جھولی مری
در پہ تیرے میں آیا ہوں بن کر گدا
------------
مشرکوں کے میں رستے پہ چلتا نہیں
سر ہمیشہ مرا در پہ تیرے جھکا
----------
فرض مجھ پر ہوا شکر رب کا کروں
بڑھ کے میری ضرورت سے مجھ کو دیا
--------
کیوں میں اپنی ضرورت کسی سے کہوں
جانتا ہے مرا جو ہے حاجت روا
----------
تُو جو رحمان ہے بخش دینا مجھے
میں جو انسان ہوں ہو گی مجھ سے خطا
----------
مجھ پہ شیطان غالب نہ آئے کبھی
تُو حفاظت میں رکھنا مجھے اے خدا
-----------
حکم تیرا ہی چلتا ہے ہر چیز پر
ذکر تیرا ہی کرتی ہے بادِ صبا
-----------
سانس چلتی ہے میری ترے حکم سے
جان تیری امانت ہے میرے خدا
--------
ہے تری ذات اوّل ، ہے آخر بھی تُو
حکم تیرا ہوا تب جہاں سب بنا
----------
ایک لذّت سی محسوس ہونے لگی
جب زباں نے مری نام تیرا لیا
----------
تُو نے ارشد کو بخشی ہیں سب نعمتیں
شکر کرنا ترا اس پہ لازم ہوا
------------
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
محمد عبدالرؤوف
شاہد شاہنواز
ظہیراحمدظہیر
-----------
تُو ہے میرا خدا ، میں ہوں بندہ ترا
اپنی چوکھٹ سے رکھنا نہ مجھ کو جدا
---------
خود کو تنہا کبھی میں نے سمجھا نہیں
ہر قدم پر ملا جو ترا آسرا
-------------
دونوں ٹھیک
فضل کر دے خدا بھر دے جھولی مری
در پہ تیرے میں آیا ہوں بن کر گدا
------------
محض خدا سے اے خدا/ خدایا کا مفہوم نہیں نکلتا، پہلا مصرع بدلو
مشرکوں کے میں رستے پہ چلتا نہیں
سر ہمیشہ مرا در پہ تیرے جھکا
----------
دونوں مصرعوں میں صیغے کی یکسانیت نہیں، دوسرا ماضی میں ہے، پہلے کو بدلیں، بلکہ بہتر ہو کہ نکال ہی دین، دوسرا مصرع بھی اچھا انداز بیان نہیں
فرض مجھ پر ہوا شکر رب کا کروں
بڑھ کے میری ضرورت سے مجھ کو دیا
--------
یہی مفہوم مقطع کا بھی ہے، اسے بھی نکال دیں یا اولی مصرع پھر کہیں
کیوں میں اپنی ضرورت کسی سے کہوں
جانتا ہے مرا جو ہے حاجت روا
----------
ضرورت کہنا درست محاورہ نہیں، ضرورت کا کہنا درست ہے
تُو جو رحمان ہے بخش دینا مجھے
میں جو انسان ہوں ہو گی مجھ سے خطا
----------
مجھ پہ شیطان غالب نہ آئے کبھی
تُو حفاظت میں رکھنا مجھے اے خدا
-----------
دونوں درست
حکم تیرا ہی چلتا ہے ہر چیز پر
ذکر تیرا ہی کرتی ہے بادِ صبا
-----------
دو لخت
سانس چلتی ہے میری ترے حکم سے
جان تیری امانت ہے میرے خدا
--------
ہے تری ذات اوّل ، ہے آخر بھی تُو
حکم تیرا ہوا تب جہاں سب بنا
----------
ایک لذّت سی محسوس ہونے لگی
جب زباں نے مری نام تیرا لیا
----------
تُو نے ارشد کو بخشی ہیں سب نعمتیں
شکر کرنا ترا اس پہ لازم ہوا
------------
یہ سارے اشعار درست
 
الف عین
(اصلاح)
میری جھولی ہے خالی نہ خالی رہے
---------یا
میری جھولی ہے خالی تُو بھر دے اسے
در پہ آیا ہوں تیرے میں بن کر گدا
-------------
در پہ غیروں کے ہرگز میں جاتا نہیں
سر ہمیشہ مرا در پہ تیرے جھکا
--------
ہر ضرورت ہے میری ترے علم میں
میں نے مانا تجھی کو ہے حاجت روا
-------یا
ہر ضرورت مری جانتا ہے وہی
میں نے مانا خدا کو ہے حاجت روا
-----------
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
(اصلاح)
میری جھولی ہے خالی نہ خالی رہے
---------یا
میری جھولی ہے خالی تُو بھر دے اسے
در پہ آیا ہوں تیرے میں بن کر گدا
-------------
دوسرا متبادل بہتر ہے
در پہ غیروں کے ہرگز میں جاتا نہیں
سر ہمیشہ مرا در پہ تیرے جھکا
--------
حال اور ماضی کا شتر گربہ تو اب بھی ہے
غیر کے در پہ ہر گز گیا ہی نہیں
سے شتر گربہ تو دور ہو سکتا ہے لیکن اچھا شعر نہیں بنتا
ہر ضرورت ہے میری ترے علم میں
میں نے مانا تجھی کو ہے حاجت روا
-------یا
ہر ضرورت مری جانتا ہے وہی
میں نے مانا خدا کو ہے حاجت روا
-----------
... جانتا ہے وہی بہتر پہلا مصرع
دوسرا
میں نے رب کو ہی مانا.... بہتر ہو گا
 
Top