پراسرار مثلث ۔ برمودا ٹرائی اینگل ۔حصّہ اوّل
جدید دنیا کی تمام تر سائنسی اور تکنیکی ترقی کے با وجود برمودا ٹرائی اینگلBERMUDA TRIANGLE اب تک ایک نہ حل ہونے والا پُر اسرار مسئلہ بنا ہوا ہے۔ 5 لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے سمندر کے اس ٹرائی اینگل کی فضائی اور بحری حدود میں اب تک سینکڑوں ہوائی اور بحری جہاز ،ہزاروں مسافروں سمیت گم ہو چکے ہیں۔اسی بنا پر اس سمندری حصے اور فضا کو جہازوں کا قبرستان قرار دیا گیا ہے۔
دنیا کی واحد سپر پاورامریکہ کے قریب واقع ہونے کے با وجود کو ئی ریسرچ اس ٹرائی اینگل کی اصل حقیقت یا عقدے کو نہیں کھول سکی۔ ‘‘ٹاور متوجہ ہو!… ہم مشکل میں پھنس گئے ہیں…. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم راستہ بھٹک گئے ہیں…. ہمیں زمین نظر نہیں آرہی…ہمیں زمین نظر نہیں آرہی…’’ آخری بار کمانڈر ٹائلر نے کنٹرول روم کو رپورٹ دی ۔ ٹاور کنٹرولر نے پوچھا ‘‘آپ کی پوزیشن کیا ہے..؟’’ ‘‘ہمیں کچھ پتہ نہیں، معلوم ہوتا ہے ہم راستہ بھٹک گئے ہیں…’’ٹاور کنٹرولر نے کہا ‘‘آپ مغرب کی طرف روانہہوجائیں..’’ ‘‘ہمیں نہیں معلوم مغرب کس رُخ ہے، سب کچھ اُلٹا سیدھا لگ رہا ہے…تعجب ہے، کمپاس کام نہیں کر رہے …. ہم سمتوں کا ادراک کھو بیٹھے ہیں..حتیٰ کہ سمندر بھی بدلا بدلا دکھائی دے رہا ہے…’’ تھوڑی دیر بعد پھر آواز آئی ‘‘اس وقت تین بج کر تیس منٹ ہو رہے ہیں.. ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں ہیں!.. کم سے کم ائیر بیس سے شمال مشرق میں سوا دو میل دور فلوریڈا کے ٹاپوؤں پر تو ضرور ہوں گے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہم…’’ پھر رابطہ منقطع ہوگیا۔(ٹاپو چھوٹے چھوٹے آئس لینڈز کا ایک سلسلہ ہے جو فلوریڈا کے کے جنوب میں واقعہ ہیں) ۔ ٹاور کنٹرولر پر موجود لیفٹننٹ کاکس نے کہا ‘‘اگر تمہیں یقین ہے کہ تم وہاں ہو تو شمال کی جانب میامی کی طرف اڑو….’’ تھوڑی دیر بعد آواز آئی ‘‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم سفید پانی میں داخل ہورہے ہیں ہم مکمل طور پر بھٹک چکے ہیں….’’اس کے بعد ٹاور سے رابطہ منقطع ہوگیا اور پھر اس کے متعلق کچھ اطلاع نہ ملی۔
یہ احوال تھا ایونجر Avengerنامی پانچ تارپیڈو بمبار جہازوں کا جسے فلائٹ 19 بھی کہا جاتا تھا۔ ان جہازوں کے گروپ نے 5 دسمبر 1945 کی دوپہر ..بج کر 10 منٹ پر فلوریڈا کے فورٹ لاؤڈرڈیل کے نیول ائیر بیس سےمعمول اڑان بھری، اس کا کمانڈر لیفٹینٹ چارلس ٹائلر تھا اور باقی اس کے شاگرد شامل تھے جنہیں مشرق کی جانب چھپن میل تک جانا تھا۔ لیکن یہ فاصلہ طے کرنے کے بعد کمانڈر نے مزید سڑسٹھ میل مشرق کی جانب اڑنے کا کہا اور پھر وہاں سے تہتّر میل شمال کی جانب جا کر سیدھا واپس بیس پر آنا تھا یہ فاصلہ ایک سو بیس میل کا بن گیا اور یہ اضافی فاصلہ انہیں انجان مقام کی جانب لے گیا۔ آج کل کے جہازوں کے پاس تو اپنی موجودہ پوزیشن کو چیک کرنے کے لئے بہت سے راستے موجود ہیں جن کا مطالعہ جی۔پی۔ایس کے تحت کیا جاتا ہے اور اگرکپتان ان سب آلات کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا جانتا ہو تو ان حالات میں یہ بات تقریبا ناممکن ہے کہ کوئی جہاز اپنا راستہ کھو دے لیکن 1945 میں پانی پر اڑتے ہوئے اپنے ابتدائی نقطے کے بارے میں معلومات پر انحصار کیا جاتا تھا کہ وہ کتنی رفتار سے کتنی دور اور کس سمت میں اڑ رہے ہیں اور اگر پائلٹ ان میں سے کسی ایک کا بھی حساب نہیں رکھ پاتا تو وہ یقیناً گم ہو جاتا تھا ۔ کے اوپر کوئی نشانیاں نہیں تھیں جو انہیں سیدھا راستہ دکھا سکتیں۔ یہ سب جہاز 3 بجکر 45 منٹ پر غائب ہو گئے اور اس کے بعد ان کا بیس سے رابطہ منقطع ہو گیا۔اس بیڑے کی تلاش میں جانے والا و بچانے کے لئے جانے والا ایک اور جہاز مارٹن مارنئر جو کپتان ٹام گارنر اور بارہ فضائی اہلکار سمیت ان کے پیچھے مدد کے لیے روانہ ہوا لیکن وہ بھی پراسرارطور پر غائب ہو گیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود حادثے کا شکار ہونے والے ان چھ ہوائی جہازوں اور عملے کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ تحقیقاتی کمیٹی نے یہ رپورٹ پیش کر کے اس پر پردہ ڈال دیا کہ شاید اس جہاز کی تباہی کا سبب کاک پٹ میں گیس بھر جانے اور عملے کے ارکان میں سے کسی کے سگریٹ جلانے کی وجہ سے اس میں ہونے والے دھماکے کو بیان کیا گیا۔ادھر ایونجر کی گمشدگی کے بارے میں تحقیق میں کہا گیا کہ ٹائلر سمت کے بارے میں دو راہے کا شکار تھا لیکن لیفٹننٹ کاکس کا بیان تھا کہ ٹائلر ایک ماہر پائلٹ تھا اور اس سے اس قسم کی غلطی کی کوئی توقع نہیں تھی۔ لیکن بعد میں اس تحقیق کو اس عنوان کے ساتھ بند کر دیا گیا کہ اس کی وجوہات جانی نہ جاسکیں..
جہازوں کی پراسرار گمشدگی کا واقعہ اس خطہ کی لیے نیا نہیں تھا بحری جہازوں اور انسانوں کا پر اسرار طور پر غائب ہو جانا جیسے واقعات اس علاقہ میں صدیوں سے چلے آرہے تھے۔ اس سمندری علاقے میں حادثات کب سے رونما ہونا شروع ہوئے اس کامکمل ریکارڈ تو موجود نہیں لیکن تاریخی کتابوں میں کولمبس (جس نے امریکہ دریافت کیا تھا) کی یاداشتوں کے حوالے سے جو تفصیل ملتی ہے اس کے مطابق جب وہ اپنی مہماتی کشتی میں اس علاقے کے قریب پہنچا تو سمجھا کہ وہ زمین کے قریب پہنچ گیا ہے لیکن جب اس کی کشتی کو اچانک خطرناک جھٹکے لگنے شروع ہوئے اور اس کے کمپاس نے کام کرنا بند کردیا تو وہ بمشکل راستہ تبدیل کر کے بچ سکا۔ سب سے پہلا حادثہ جس کا تحریری ثبوت ملتا ہے 1780ء میں ہوا جب برطانیہ کا ایک جنگی بحری جہاز جنرل گیٹس برمودا ٹرائی اینگل میں پر اسرار طور پر گم ہو گیا۔اس کے بعد 1799ء میں ایک فرانسیسی جنگی جہاز 340افراد سمیت تباہ ہو گیا۔ 1780ء سے 1824ء کے درمیان امریکن نیوی کے کئی جنگی جہاز برمودا ٹرائی اینگل میں گُم ہوگئے۔
1814ء میں امریکی بحریہ کا عظیم الجثّہ تیز ترین جنگی جہاز Wasp ایسا لاپتہ ہوا کہ آج تک اس کی گمشدگی کا جواز پیش نہیں کیا جاسکا جبکہ یہ جہاز بے شمار جنگوں میں حصّہ لے چکا تھا اور ناصرف اپنی مضبوطی و پائیداری بلکہ اپنے کپتان کی بہادری اور صلاحیت کی وجہ سے بھی پورے ملک میں مشہور تھا۔ برمودا ٹرائی اینگل میں پہلا تجارتی جہاز 1840ء میں گم ہوا، اس کا نام روسالی تھا، 222 ٹن وزنی لکڑیوں سے تیار کیا گیا یہ جہاز باہاماس کے نزدیک لاپتہ ہوگیا۔ جبکہ پہلا مسافر بردار بحری جہاز 1843ء میں لاپتہ ہوا اس بحری جہاز میں400سے زیادہ افراد سوار تھے۔ان میں سے نہ کوئی مسافر اور نہ ہی بحری جہاز کا ملبہ مل سکا۔ بحری جہازوں کی تباہی کی ترتیب کا معلوم ریکارڈ کچھ اس طرح ہے۔ لیری کوشے نے اپنی کتاب میں 1840ء سے 1973ء تک کے کُل 57 حادثات کا ذکر کیا۔ دنیا کی فضائی تاریخ کے ریکارڈ کی چھان بین سے پتہ چلتا ہے کہ اس پر اسرار سمندر اور فضا میں سب سے پرانا حادثہ جس کا ریکارڈ بمع تصویر ملتا ہے 1945ء میں فلائٹ 19 نامی پانچ جہازوں کا ہے جس کا تذکرہ ہم مضمون کی ابتداءمیں کرچکے ہیں ۔ 1945
ء سے قبل برمودا ٹرائی اینگل کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ۔ اسے فرسودہ کہانیاں کہہ کر نظر انداز کردیا گیا۔ فلائٹ 19 کے واقعہ میں بیک وقت چھ جہاز اور ستائس افراد کی گمشدگی نے اس خطہ میں ہونے والے پراسرار واقعات کے اسباب پر ریسرچ کا دروازہ کھولدیا۔ یہ واقعات بحراوقیانوس کے جس حصہ میں ہوئے وہ برمودا، میامی ، فلوریڈا ، سان جوآن، پورٹو ریکو کی سمندری حدود کے درمیان میں واقع ہے، اس وقت سے اس علاقے کو پرواز کے لئے نہایت خطرناک قرار دے دیا گیا۔ فلوریڈ، برمودا اور پورٹوریکو کی سرحدوں کے مابین لکیر کھینچی جائے تو یہ ایک مثلث کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔5 لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے سمندر کے اس مثلثی حدود میں اب تک سینکڑوں ہوائی اور بحری جہاز ،ہزاروں مسافروں سمیت گم ہو چکے ہیں۔ اس علاقے میں جہازوں کے غائب ہونے کی بات سب سے پہلے 1950ء میں کی گئی۔ یہ کہانی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ذریعے سامنے آئی اوراس کے لکھنے والے کا نام ای وی ڈبلیوجونز تھا۔ جونز نے جہاں اپنے آرٹیکل میں ان حادثات کو ہوائی جہازوں اور چھوٹی کشتیوں کی پراسرار گمشدگی سے تعبیر کیاوہیں اس علاقے کو شیطانی مثلث کا نام بھی دیا۔دوسری بار اس کا ذکر 1952ء کے فیٹ میگزین کے ایک فیچر میں ہوا جسے جارج ایکس سینڈ نے تحریر کیا اور اس میں کئی پراسرار بحری گمشدگی کا ذکر کیا گیا۔ برموداٹرائی اینگل کی اصطلاح 1964ء کے آرگوسی میگزین میں میں ونسنٹ گیڈیز کے فیچرآرٹیکل کے ذریعے مقبول ہوئی، اس آرٹیکل میں اس نے لکھا کہ اس خطرناک علاقے میں بہت سے بحری اور ہوائی جہاز بنا کوئی نشان یا ثبوت چھوڑے غائب ہو گئے۔ جو مقبولیت اس علاقے کو آج حاصل ہے اس میں چارلس برلٹیز نامی شخص کی تھریروں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ برموداٹرائی اینگل کے نام سے چارلس کی ایک کتاب 1974ء شائع ہوئی ۔
اس کے علاوہ 1969 میں جان دیلس اسپینسر نے ایک کتاب لکھی جس کا نام لمبو آف لوسٹ شپ Limbo of the Lost Ships ہے جس میں اس پر اسرار تکون پر تفصیل کے ساتھ بات کی گئی۔ ان سب کتابوں کے علاوہ بے شمار مضامین اور کتابیں اس حوالے سے شائع ہوئیں۔ جن میں برمودا مثلث کو ایک افسانوی حیثیت سے پیش کیا گیا اور بہت سے مصنفین اور ناول نگاروں نے ان واقعات کو مزید پر اسرار بنا کر پیش کیا۔ لیکن سائنس نے آج تک کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بناء پر ان سب چیزوں کو رد کر دیا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ تمام باتیں سائنسی اصولوں سے ہٹ کر صرف مافوق الفطرت انداز میں پیش کی گئیں۔ 1945ء کے بعد بھی برمودا کے حادثات میں کمی نہیں آئی۔ بین الاقوامی فضائی ریکارڈ کے مطابق پہلا مال بردار ہوائی جہاز تین جولائی 1947ء کو برمودا سے میامی جا تے ہوئے اس علاقے میں حادثے کا شکار ہوا ہوائی جہاز میں سوار عملے کے سات ارکان بھی ہلاک ہو گئے۔ اگلے سال جنوری 1948ء میں اسٹار ٹائیگر ائر لائنز کا ایک مسافر طیارہ آزورس میں سانتا ماریا ہوائی اڈے سے کنڈلی فیلڈ، برمودا آتے ہوئے راستے میں غائب ہوگیا ہے۔جس میں ایئرمارشل سر آرتھر کو نیگھم سمیت تیس مسافر سوار تھے۔ اسی سال 28 دسمبر 1948 کی رات ڈگلس ڈی سی تھری NC16002 نامی مسافر بردار طیارہ، سان جان، پورٹوریکو سے میامی(فلوریڈا) جا رہا تھا غائب ہوگیا۔موسم بھی بالکل صاف تھا اور پائلٹ کے مطابق میامی سے 50 میل دور تھا کہ اچانک غائب ہو گیا۔ اس میں سوار عملے کے تین اور چھبیس مسافروں کا کبھی بھی سراغ نہیں مل سکا۔ اس طرح 1948ء میں دو ہوائی جہاز اور اُنسٹھ افراد پر اسرار طور پر لقمہ اجل بنے۔حکومتی تفتیش میں یہ بات بتائی گئی کہ اڑان کے دوران رابطہ سسٹم خراب ہو جانے کے سبب میامی سے جو میسج جہاز کو دیا گیا پائلٹ کو موصول نہیں ہو سکا اور وہ بروقت حفاظتی انتظام نہیںکرسکا۔اگلے سال 17 جنوری1949ء کو اسٹار اپرئیل بیس مسافروں کے ساتھ کنڈلی فیلڈ، برمودا، سے کنگسٹن ایئر پورٹ جمیکا کے راستہ میں لاپتہ ہوگیا۔ 30 اکتوبر 1954ء کو طیارہ فلائٹ 441 کُل 42 مسافروں کے ساتھ اس حادثے کا شکار ہوا۔ 9 نومبر 1956ء میں مارٹن مارلن نامی ہوائی اور پانی کا جہاز ریڈار سے اچانک غائب ہوگیا۔ اس میں دس افراد سوار تھے۔ مارٹن مارلن بحری جہازوں میں پیٹرول پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ اس کے بع بھی یکے بعد دیگر جہاز گم ہوتے رہے ، برمودا ٹرائی اینگل میں لاپتہ ہونے والے جہازوں کے ریکارڈ کے مطابق 1945ء سے اب تک کُل ایک سو پچیس حادثات ہوئے اورایک سو انتیس ہوائی جہاز برمودا ٹرائی اینگل میں گُم ہوگئے۔
جب ہم بحری جہازوں کی گمشدگی کا ریکارڈ دیکھتے ہیں تو صورتحال اور بھی تشویش ناک محسوس ہوتی ہے۔ 1918 میں سب سے مشہورو معروف بحری جہاز USS Cyclops اس مثلث میں کا غائب ہوگیا۔ 542 فٹ لمبا یہ جہاز 1910 میں بنایا گیا تھا اور یہ امریکن نیوی کو دوسری جنگِ عظیم میں بحری جہازوں کے لئے ایندھن لے جانے کا کام کرتا تھا۔ یہ جہاز سلواڈور، بہایا سے سپلائی لے کر بالٹیمور، میری لینڈکی جانب روانہ ہوا لیکن اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ بعد میں اس کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ یہ جہاز اپنی روٹین سے ہٹ کر 3 اور 4 مارچ 1918 کو بارباڈوس میں مزید سپلائی لینے کے لئے رکا تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ ایسا غائب ہوا کہ اپنا نام و نشان تک نہیں چھوڑا۔ اس جہاز میں عملے سمیت کل تین سو چھے مسافر سوار تھے جن میں سے کسی کا بھی کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ جنگِ عظیم میں امریکی نیوی کا سب سے بڑا نقصان تھا جو بغیر کسی لڑائی کے ہوا۔ یہ بلاشبہ ایک پر اسرار واقعہ تھا لیکن یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعی برمودا مثلث کے علاقے میں ہی غائب ہوا، ہو سکتا ہے یہ جہاز بارباڈوس اور بالٹیمور کے درمیان کسی اور علاقے میں غائب ہوا ہو کیونکہ بارباڈوس اور بالٹیمور کے درمیان بے حد وسیع سمندری علاقہ ہے۔ دو فروری 1963ء میں بحری جہاز کی گمشدگی کا دوسرا بڑا واقعہ ہو جس میں ایس ایس مرین سلفر کوئن نامی جہاز جو فلوریڈا کے قریب اس مثلث میں غائب ہوا۔ یہ جہاز بیومونٹ، ٹیکساس سے سلفر کے پندرہ ہزار دو سو ساٹھ ٹن کارگو کے ساتھ روانہ ہوا اور دو دن بود آخری بار ریڈیو سے رابطہ میں رہا، جب وہ محض پچیس تا چھیالیس ناٹ (سمندری میل)کے فاصلہ میں تھا، مگر دو دن کے بھی اس کا کوئی سراغ نہ ملا، بعدمیں کوسٹ گارڈ ماہرین نے یہی سمجھا کہ سلفر سے بھرے کارگو رکھنے کی وجہ سے شاید یہ جہاز کسی آفت کاشکار ہوگیا ۔
31 جنوری1921ء کیرول اے ڈیرنگ نامی جہاز، کیپٹن ورمل کو ڈائمنڈشاؤلز کیپ ہیٹراز، شمالی کیرولائنا کے قریب ملا ساحل پر دھنسا ہوا اور لاوارث اس میں کوئی مسافر موجود نہ تھا ۔ یکم دسمبر 1925ء ایس ایس کوٹو پاکسی، چارلسٹن، جنوبی کیرولینا سے دو روزپہلے روانہ ہوا، جسے ہوانا کیوبا پہنچنا تھا مگر نہ پہنچا، کوسٹ گارڈ نے اسے گمشدہ کے طور پر درج کردیا تھا ، تقریباً ایک مہینے بعد 31 دسمبر کو اچانک اس نے ریڈیو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کے جہاز مصیبت میں ہے اور ڈوب رہا ہے، اس کے بعد اس کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔1926ء میں گم ہونے والے سٹروفو نامی جہاز میں انتیس افرادسوار تھے۔ 1938ء میں آسٹریلیا کا ایک جہاز جس میں 34 افراد سوار تھے اپنے کپتان پارسلو سمیت لاپتہ ہوگیا۔1940ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اس بحری مثلث ہونے والے نقصانات کا اندازہ جنگ کی وجہ سے نہیں لگایا جا سکا۔ 23 نومبر1943ء کو میں امریکی نیوی کا جہاز پروٹیوس اے سی نائن، باکسائٹ کی ایک کارگو کے ساتھ سینٹ تھامس ورجن آئی لینڈ سے روانہ ہوا مگر اٹھاون افراد سمیت غائب ہوگیا، اس کے اگلے مہینے 10 دسمبر کو، اس جیسا دوسرا جہاز نیریوس اے سی ٹین تمام اکسٹھ مسافروں سمیت باکسائٹ کی ایک کارگو کے ساتھ سینٹ تھامس سے روانہ ہوا مگر وہ بھی غائب ہوگیا، ریٹائرڈ ایڈمرل جارج وین ڈیورس، نے یہ کہہ کر اس واقعہ پر پردہ ڈال دیا کہ کارگو میں رکھا تیزاب اور کیمیکل جہازکو نقصان پہنچا نےکا سبب بناہوگا۔ 25 اکتوبر 1980 کو گیارہ ہزار ٹن وزنی بحری جہاز ایس ایس پوئٹ بھی اسی طرح پر اسرار طور پر غائب ہوا اور اپنا نام و نشان تک نہ چھوڑا لیکن تحقیق میں یہ الزام لگایا گیا کہ انشورنش کی رقم حاصل کرنے کے لئے اس جہاز کو غائب کیا گیا ہے۔ 1946ء سے اب تک ساٹھ سے زائد بڑے بحری جہاز اس ٹرائینگل میں گم ہوئے…. ان بڑے بحری جہازوں کے علاوہ کئی چھوٹی کشتیاں اور ان کے مسافر بھی لقمہ اجل بنتے رہے ہیں لیکن ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہے
۔ پانچ لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے سمندر کے اس ٹرائی اینگل کی فضائی اور بحری حدود میں اب تک سینکڑوں ہوائی اور بحری جہاز ،ہزاروں مسافروں سمیت گم ہو چکے ہیں۔اسی بنا پر اس سمندری حصے اور فضا کو جہازوں کا قبرستان قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاورامریکہ کے قریب واقع ہونے کے با وجود کو ئی ریسرچ اس ٹرائی اینگل کی اصل حقیقت یا عقدے کو نہیں کھول سکی۔ برمودا ٹرائی اینگل میں اس طرح کے پراسرار واقعات کیوں پیش آتے ہیں….؟ اس کے بارے میں مختلف لوگوں نے رائے کا اظہار کیا ہے، آئندہ ماہ ہم کچھ آرا کا ذکر کریں گے اور حقیقت کیا ہے ….؟ یہ جاننے کی کوشش کریں گے!
دوسرا حصہ یہاں