تھاضبط ایسا کہ چہرے سے غم عیاں نہ ہوا

سر الف عین
سید عاطف علی
محمد احسن سمیع:راحل
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


ترے فریب تھے لاکھوں مَیں بدگماں نہ ہوا
تھاضبط ایسا کہ چہرے سے غم عیاں نہ ہوا

لگا کے عمر تعلق جو استوار کِیا
خزاں جو آئی ذرا بھر وہ گلفشاں نہ ہوا

مرے خلوص کی تُو نے لگائی جب قیمت
تو مجھ پہ موت کا عالم تھا کچھ بیاں نہ ہوا

وہ راستہ کہ سجایا جسے گلابوں سے
وہ میری آبلہ پائی میں کہکشاں نہ ہوا

کڑکتی دھوپ میں جس کی پناہ ڈھونڈی تھی
فقط تھا ابرِ رواں سکھ کا سائباں نہ ہوا

شکریہ
 
ترے فریب تھے لاکھوں مَیں بدگماں نہ ہوا
تھاضبط ایسا کہ چہرے سے غم عیاں نہ ہوا
پہلے مصرعے کی بنت بہتر ہو سکتی ہے ویسے، تاہم موجودہ صورت میں لاکھوں کے بعد کاما لگا دیں تاکہ میں (ضمیر متکلم) اور میں (درون) کا اشتباہ نہ ہو۔

لگا کے عمر تعلق جو استوار کِیا
خزاں جو آئی ذرا بھر وہ گلفشاں نہ ہوا
مطلقاً عمر کہنے کے بجائے ایک عمر کہنا زیادہ بامحاورہ ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں ذرا بھر کے بجائے ذرّہ بھر کا محل ہے (جس سے مصرعہ بحر سے خارج ہو جاتا ہے)۔ ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ خزاں میں کیسے کوئی چیز گلفشانی کر سکتی ہے؟

مرے خلوص کی تُو نے لگائی جب قیمت
تو مجھ پہ موت کا عالم تھا کچھ بیاں نہ ہوا
بیاں نہ ہوا بمعنی میں کچھ کہہ نہ سکا؟؟؟ پتہ نہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ اس طرح معنی کا درست ابلاغ نہیں ہو رہا۔ واللہ اعلم۔

وہ راستہ کہ سجایا جسے گلابوں سے
وہ میری آبلہ پائی میں کہکشاں نہ ہوا
اس کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہو سکا۔ خصوصا آبلہ پائی میں راستے کے کہکشاں ہونے کی معنویت کیا ہے؟

کڑکتی دھوپ میں جس کی پناہ ڈھونڈی تھی
فقط تھا ابرِ رواں سکھ کا سائباں نہ ہوا
رہا وہ ابرِ رواں، سکھ کا سائباں نہ ہوا؟
 
پہلے مصرعے کی بنت بہتر ہو سکتی ہے ویسے، تاہم موجودہ صورت میں لاکھوں کے بعد کاما لگا دیں تاکہ میں (ضمیر متکلم) اور میں (درون) کا اشتباہ نہ ہو۔


مطلقاً عمر کہنے کے بجائے ایک عمر کہنا زیادہ بامحاورہ ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں ذرا بھر کے بجائے ذرّہ بھر کا محل ہے (جس سے مصرعہ بحر سے خارج ہو جاتا ہے)۔ ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ خزاں میں کیسے کوئی چیز گلفشانی کر سکتی ہے؟


بیاں نہ ہوا بمعنی میں کچھ کہہ نہ سکا؟؟؟ پتہ نہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ اس طرح معنی کا درست ابلاغ نہیں ہو رہا۔ واللہ اعلم۔


اس کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہو سکا۔ خصوصا آبلہ پائی میں راستے کے کہکشاں ہونے کی معنویت کیا ہے؟


رہا وہ ابرِ رواں، سکھ کا سائباں نہ ہوا؟
شکریہ سر
 
پہلے مصرعے کی بنت بہتر ہو سکتی ہے ویسے، تاہم موجودہ صورت میں لاکھوں کے بعد کاما لگا دیں تاکہ میں (ضمیر متکلم) اور میں (درون) کا اشتباہ نہ ہو۔


مطلقاً عمر کہنے کے بجائے ایک عمر کہنا زیادہ بامحاورہ ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں ذرا بھر کے بجائے ذرّہ بھر کا محل ہے (جس سے مصرعہ بحر سے خارج ہو جاتا ہے)۔ ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ خزاں میں کیسے کوئی چیز گلفشانی کر سکتی ہے؟


بیاں نہ ہوا بمعنی میں کچھ کہہ نہ سکا؟؟؟ پتہ نہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ اس طرح معنی کا درست ابلاغ نہیں ہو رہا۔ واللہ اعلم۔


اس کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہو سکا۔ خصوصا آبلہ پائی میں راستے کے کہکشاں ہونے کی معنویت کیا ہے؟


رہا وہ ابرِ رواں، سکھ کا سائباں نہ ہوا؟



ترے فریب تھے لاکھوں' مَیں بدگماں نہ ہوا
تھاضبط ایسا کہ چہرے سے غم عیاں نہ ہوا

بنا تھا ربط جو اک عمر کی مسافت سے
بہار آئی تو پھر بھی وہ گلفشاں نہ ہوا

مرے خلوص کی تُو نے لگائی جب قیمت
تو مجھ سے بزم رقیباں میں کچھ بیاں نہ ہوا

وہ راستہ کہ سجایا جسے گلابوں سے
تری جفاؤں کے باعث وہ کہکشاں نہ ہوا

کڑکتی دھوپ میں جس کی پناہ ڈھونڈی تھی
رہا وہ ابرِ رواں سکھ کا سائباں نہ ہوا

مرے نصیب میں سجاد ہجر تھا شاید
مقام وصل تھا طوفاں میں' آشیاں نہ ہوا

سر نظر ثانی فرما دیجئے
 
ترے فریب تھے لاکھوں' مَیں بدگماں نہ ہوا
تھاضبط ایسا کہ چہرے سے غم عیاں نہ ہوا

بنا تھا ربط جو اک عمر کی مسافت سے
بہار آئی تو پھر بھی وہ گلفشاں نہ ہوا

مرے خلوص کی تُو نے لگائی جب قیمت
تو مجھ سے بزم رقیباں میں کچھ بیاں نہ ہوا

وہ راستہ کہ سجایا جسے گلابوں سے
تری جفاؤں کے باعث وہ کہکشاں نہ ہوا

کڑکتی دھوپ میں جس کی پناہ ڈھونڈی تھی
رہا وہ ابرِ رواں سکھ کا سائباں نہ ہوا

مرے نصیب میں سجاد ہجر تھا شاید
مقام وصل تھا طوفاں میں' آشیاں نہ ہوا

سر نظر ثانی فرما دیجئے

سر محمّد احسن سمیع :راحل:
 
مطلع پر استاد محترم کی بھی رائے لیں. پتہ نہیں کیوں مجھے کچھ دو لختی محسوس ہو رہی ہے، میرا وہم بھی ہو سکتا ہے.

بنا تھا ربط جو اک عمر کی مسافت سے
بہار آئی تو پھر بھی وہ گلفشاں نہ ہوا
مسافت کے معنی تو فاصلے کے ہیں. سو درست بات یہ ہوگی کہ اک عمر کی مسافت "طے" کرنے کے بعد کوئی ربط بنا.
دوسرے یہ کہ ربط یا تعلق کی گلفشانی کی معنویت پر بھی سوال ہوسکتا ہے، لیکن اگر اس کو میرا وہم سمجھ کر نظر انداز بھی کردیا جائے تو "پھر بھی" اچھا نہیں لگ رہا، زبردستی کے الفاظ معلوم ہو رہے ہی‍ں. ان کی جگہ کچھ اور لا کر دیکھیں مثلا وہی وغیرہ

وہ راستہ کہ سجایا جسے گلابوں سے
تری جفاؤں کے باعث وہ کہکشاں نہ ہوا
اس کا مفہوم مجھ پر اب بھی واضح نہیں ہوا. گلابوں کی سجاوٹ سے کہکشاں نہ بن پانے تعلق میں سمجھ نہیں پا رہا. اگر وہ جفا نہ کرتا تو بھی گلابوں سے سجا راستہ کہکشاں میں کیسے تبدیل ہوجاتا؟
 
دوسرا مصرع بہت الجھا ہوا ہے.
جسے کہ خونِ وفا سے تھا عمر بھر سینچا
بہار آئی تو وہ نخل گلفشاں نہ ہوا

وہ راستہ کہ سجائے جہاں وفا کے گلاب
تری جفاؤں سے مانندِ کہکشاں نہ ہوا

مرے نصیب میں سجاد ہجر تھا شاید
مقام وصل مرا ' کوئی آشیاں نہ ہوا

سر نظر ثانی فرما دیجئے
 
Top