تھا کبھی خود پہ اختیار مرا
اب ہے مجھ کو ہی انتظار مرا
کیا کہوں دشمنوں کے جیسا ہے
آسمانوں میں ایک یار مرا
ہے کسی اور کا زمانے میں
دل جو رہتا ہے بے قرار مرا
کھیل سمجھا رقیب لوگوں نے
آپ سے انس چاہ پیار مرا
اپنے ہی آپ کو تسلی دی
غم بنا خود ہی غم گسار مرا
اِس بھری بزم میں نہ بن پایا
لاکھ لوگوں میں کوئی یار مرا
رات دن اشک ہی بہاتا ہوں
اک یہی بس ہے کاروبار مرا
*****
جنوری ، 2015