کاشف اسرار احمد
محفلین
احباب کی خدمت میں ایک تازہ غزل لے کر حاضر ہوں۔
آپ سب کی آراء ، مشوروں کا منتظر رہونگا۔
*********** -------------- ***********
آہ اک سرد سی اس دل سے رہا ہو جیسے
تھرتھراتا ہوا لب عقدہ کُشا ہو جیسے
ہر تمنّا مری یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
ایسی منزل کو چلیں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے
شب یہ تنہائی کی، ہے میری تھکن کی درماں
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے
لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں مدھم سا چِھڑا ہو جیسے
راہِ منزل میں ہر اک لمحہ گماں ہو مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے
صفحِ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے
داغ کاشف یہ چمکتا ہوا پیشانی پر
ماں کی بے لوث دعاؤں کا صلا ہو جیسے
سیّد کاشف
*********** -------------- ***********
آپ سب کی آراء ، مشوروں کا منتظر رہونگا۔
*********** -------------- ***********
آہ اک سرد سی اس دل سے رہا ہو جیسے
تھرتھراتا ہوا لب عقدہ کُشا ہو جیسے
ہر تمنّا مری یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
ایسی منزل کو چلیں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے
شب یہ تنہائی کی، ہے میری تھکن کی درماں
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے
لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں مدھم سا چِھڑا ہو جیسے
راہِ منزل میں ہر اک لمحہ گماں ہو مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے
صفحِ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے
داغ کاشف یہ چمکتا ہوا پیشانی پر
ماں کی بے لوث دعاؤں کا صلا ہو جیسے
سیّد کاشف
*********** -------------- ***********