تھری، فور جی لائسنس ایک ارب گیارہ کروڑ ڈالر میں نیلام

محمداحمد

لائبریرین
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے زیر انتظام تھری جی کے چار اور فور جی موبائل سروسز کے ایک لائسنس کی نیلامی کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔

اس نیلامی سے حکومت کو ایک ارب گیارہ کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم حاصل ہوئی ہے جبکہ فور جی کا ایک لائسنس نیلام نہیں ہو سکا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق نیلامی میں چار کمپنیوں نے حصہ لیا اور ’زونگ‘ دس میگا ہرٹز کے تھری جی اور دس میگا ہرٹز کے ہی فور جی لائسنس حاصل کر کے سب سے کامیاب کمپنی رہی۔

اس کے علاوہ موبی لنک نے تھری جی کے دس میگا ہرٹز جبکہ ٹیلی نور اور یو فون نے پانچ پانچ میگا ہرٹز کے بلاکس کے لیے کامیاب بولی دی۔
اس نیلامی کے مرحلہ وار نتائج کا اعلان پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر کیا گیا۔
تھری جی کے لائسنسوں کی نیلامی کے دوران پہلے سے چوتھے مرحلے تک کم از کم مقررہ قیمت میں ایک کروڑ 78 لاکھ 20 ہزار ڈالر کا اضافہ دیکھا لیکن جب پانچویں، چھٹے، ساتویں اور پھر آٹھویں مرحلے میں وہی قیمتیں برقرار رہیں تو نیلامی کے اختتام کا اعلان کر دیا گیا۔

اس دوران تھری جی کے پانچ اور دس میگا ہرٹز کے چار بلاکس کے لیے کُل 90 کروڑ 20 لاکھ 82 ہزار ڈالر کی بولی لگائی گئی۔

نیلامی کے دوران دس میگا ہرٹز کے بلاک اے اور ڈی میں کمپنیوں نے زیادہ دلچسپی دکھائی اور انھی کی بولی میں اضافہ ہوا جبکہ پانچ میگا ہرٹز کے بلاک کم از کم مقررہ قیمت پر ہی فروخت ہوئے۔
تھری جی کے علاوہ فور جی کا ایک لائسنس ’بیس پرائس‘ یعنی کم از کم مقررہ قیمت پر ہی زونگ نے خریدا جس سے حکومت کو 21 کروڑ ڈالر حاصل ہوئے۔

یوں حکومت نے ان لائسنسوں کی نیلامی سے ایک ارب 11 کروڑ 20 لاکھ 82 ہزار ڈالر حاصل کیے ہیں۔
نیلامی کے اختتام پر نتائج کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی اے کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ فروخت نہ ہونے والا فور جی کا ایک لائسنس بھی جلد ہی نیلام کر دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 110 ممالک میں فور جی موبائل سروس موجود ہے اور پاکستان نہیں چاہتا کہ اس معاملے میں پیچھے رہا جائے۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق نیلامی الیکٹرانک نظام کے ذریعے ہوئی۔ اس نیلامی کے لیے سائملٹینیئس ملٹی پل راؤنڈ سینڈنگ (ایس ایم آر اے) کا طریقہ اختیار کیا گیا جس کے تحت مختلف راؤنڈز کے ذریعے سپیکٹرم کی مختلف لاٹس کے لیے بیک وقت بولیاں لی گئیں۔
نیلامی میں حصہ لینے والی پارٹیوں کو مخصوص کلر کوڈ جاری کیے گئے تھے اور پارٹیوں کی بولیاں ان کے نام کے بجائے مخصوص رنگ میں ظاہر ہوئیں۔

بڈنگ کا یہ طریقہ امریکہ، سویڈن، ناروے، ہانگ کانگ اور کینیڈا میں ہونے والی حالیہ نیلامیوں میں اختیار کیا گیا تھا۔

ربط
 

محمداحمد

لائبریرین
تھری جی ٹیکنالوجی ۔ اہم سوالات کے جواب
(یہ پرانا آرٹیکل ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کو سمجھنے میں مددگار ہے سو یہاں لگا دیا ہے۔)


پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے تھری جی ٹیکنالوجی کے متعارف کروائے جانے کی باتیں کی جا رہی ہیں مگر ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ نہیں جانتا کہ تھری جی کیا ہے۔ ذیل میں ایسے ہی چند سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے:
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تھری جی ہے کیا؟

مواصلاتی ٹیکنالوجی کی تھرڈ جینریشن یعنی تیسرے دور کا مطلب ہے کہ تھری جی کا نظام استعمال کر کے وائرلیس فون اور موبائل انٹرنیٹ تک رسائی۔
یاد رہے کہ ون جی یعنی برقی لہروں کے ذریعے مواصلات کا پہلا دور 1981 اور 1982 میں متعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد تقریباً ہر دس سال کے عرصے میں برقی مواصلات کی ترقی کا معیار نئے دور میں داخل ہو جاتا ہے اور ہر نئے دور کی شناخت نئی فریکوئنسی ڈیٹا کی کثرت اور ترسیل کی رفتار میں اضافے کی بنا پر ہوتی ہے۔

موبائل ٹیکنالوجی کے معاملے میں دنیا آج کہاں کھڑی ہے؟
پاکستان تو ابھی تھری جی کو متعارف کرنے کی بحث میں مصروف ہے اور اسی معاملے کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے، مگر دنیا اس سے بہت آگے نکل چکی ہے اور فور جی بلکہ فائیو جی کی طرف بڑھ رہی ہے، حتیٰ کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں تھری جی کے بعد اب فور جی کی سہولت متعارف کروائی جا رہی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جنوبی کوریا 2017 میں فائیو جی کا استعمال شروع کر دے گا۔ جس کا مطلب ہے کہ موبائل فون پر فلمیں اور ویڈیو برق رفتاری سے ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھنا بہت آسان ہو جائے گا۔

پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں فور جی ٹیکنالوجی دستیاب ہے
پاکستان میں تھری جی متعارف کروانے میں اتنی دیر کیوں؟
ای میل پر دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے اتھارٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید اسماعیل شاہ نے لکھا ہے کہ شروع میں پاکستانی مارکیٹ تھری جی کے لیے تیار ہی نہیں تھی لیکن اب اگلے دور (جینریشن) کی موبائل سروسز استعمال کرنے کے لیے مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ موجودہ طریقۂ کار حکومتی پالیسی اور ہدایت کی روشنی میں ہی وضع کیا گیا ہے۔
وزیر انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے ایک سابق مشیر اور ٹیکنالوجی کے ماہر سلمان انصاری کہتے ہیں کہ پاکستان میں تھری جی نہ لانے کی اصل وجہ حکومت کی نا اہلی ہے۔ ’مختصر بات یہ ہے کہ عطاالرحمان کے جانے کے بعد ہر بات سیاسی بن گئی اور ہر کوئی پیسے کمانے کے پیچھے لگ گیا۔ ان کو یہ سمجھ ہی نہیں کہ ٹیکنالوجی کے معاملات مشکل اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ بلکہ میں صاف صاف کہوں گا کہ اگر آپ غیر ملکیوں کو نیلام میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں تو اس کام میں چوری نہیں کی جا سکتی۔‘

سلمان انصاری نے مزید یہ کہا کہ ’ایسے معاملات میں سیاسی جرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو قابلیت رکھنے والی ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی کی سمجھ بوجھ رکھتی ہو، قانونی پہلوؤں سے واقف ہوں اور ان کے پاس عالمی معیار کی قابلیت والے کنسلٹنٹس (صلاح کار) ہوں جو تھری جی حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ دستاویزات (انفارمیشن میمورینڈم) تیار کر سکتے ہوں۔ حکومت انوشہ رحمان کو لے تو آئی جن کا کام تھا یوٹیوب کے معاملے کو سلجھانا، مگر وہ آپ دیکھ لیں کہ کیا ہو رہا ہے؟‘
اب موجودہ صورتِ حال میں تھری جی کو متعارف کروا بھی دیا جائے اسے استعمال کر کے ڈاؤن لوڈ کرنے اور ویڈیو دیکھنے کے لیے استعمال کرنے میں مشکلات ہوں گی، کیونکہ پاکستان میں یوٹیوب جیسی بہت سی سائٹس تک رسائی تو ویسے ہی بند ہے۔
بی بی سی کی جانب سے ماضی کی طرح ایک بار پھر وزیرِ آئی ٹی اینڈ ٹی کا موقف لینے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔

امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں تھری جی کے لائسنس کی نیلامی اسی سال ہو جائے گی
تھری جی پاکستان میں کب آئے گا اور اس سارے عمل میں ہم اس وقت کس جگہ پر کھڑے ہیں؟
ڈاکٹر سید اسماعیل شاہ کے مطابق نیلامی شاید مارچ 2014 کے آخر میں ہوگی۔ صلاح کار (کنسلٹنٹس) اس وقت ضروری معلومات پر مبنی میمورینڈم کی تیاری اور نیلامی کے طریقۂ کار پر کام کر رہے ہیں۔

اسی سہولت سے ٹیلی کام کمپنی کے صارفین کو کیا توقعات ہیں؟
سلمان انصاری کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ ملے گا۔ بالفاظ دیگر اس سے آپ اپنے سمارٹ فون میں دیگر کئی سہولیات استعمال کر سکیں گے۔ ویڈیو بہت تیزی سے ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے اور ویڈیو کانفرنس کے لیے بھی بہت آسانی ہو گی۔
ٹیلی کام صنعت کو تھری جی متعارف کروانے میں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا؟

سلمان بشیر کہتے ہیں کمپنیاں دو قسم کی ہوں گی: ایک جو بینڈ وتھ فراہم کریں گی اور دوسری ایکسس پرووائڈرز ہوں گی، یعنی رسائی فراہم کرنے میں مدد کریں گی۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹیلی کام کمپنیاں تھری جی کو مارکیٹ میں لانے کے لیے نئی سوچ سے کام لیں اس طرح کہ وہ اپنے صارفین کو تھری جی کے متعلق پوری معلومات اور سوجھ بوجھ دے سکیں۔

ربط
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا تھری جی، فورجی کی نیلامی کامیاب رہی؟

بدھ کے روز بالآخر پاکستان بھی تھری جی اور فورجی کے دور میں داخل ہوگیا۔ ہر ایک کو جس کا طویل عرصے سے انتظار تھا، لیکن بہت زیادہ تاخیر کے پس پردہ کچھ نہ کچھ تو رہا ہوگا۔ ٹیلی کام کے ایک سینئر ایگزیکٹیو نے کچھ اس طرح بیان کیا ’’یہ طریقہ کار کی خوبصورتی ہے کہ حکومت نے اس نیلامی کے ساتھ جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔‘‘

بولی لگانے والے چاروں اداروں کو تھری جی کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ دو کو 2x10MHz اور ایک کو 2x10MHz دی گئی ہے، اس طرح حکومت کو اپنے بجٹ کا خسارہ دور کرنے کے لیے کچھ ریونیو ہاتھ لگ گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بولی دہندہ نے فور جی لائسنس خرید لیا ہے۔

باقی تین اداروں نے فور جی کا انتخاب نہیں کیا تھا، شاید ممکنہ طور پر ان کو مقابلے کا خوف تھا۔

چار بولی دہندہ کو دیکھ کر حکومت نے امید لگا رکھی تھی کہ اس سے قیمت بہت زیادہ بلندی پر جاپہنچے گی، لیکن اس کی بہ نسبت ایسا کچھ بھی دیکھنے میں آیا۔

دوسری جانب وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جو پاکستانیوں کو اس ٹیکنالوجی بطور تحفہ دینے کا کریڈٹ لے رہے تھے، اپنے اس دعوے پر قائم نہیں رہ سکتے، اس لیے کہ یہ ٹیکنالوجی تو دنیا بھر کے دو سو سے زائد ملکوں میں استعمال کی جارہی ہے۔

موبائل براڈ بینڈ کی فروخت کا معاملہ 2008ء سے زیرِ غور تھا۔ پچھلی حکومت کے اس پر عملدرآمدنہ کرپانے کی ایک وجہ تو اسحاق ڈار اور ان کی پارٹی کے ساتھی تھے، جنہوں نے پارلیمنٹ میں کتنی ہر مرتبہ اس تجویز کو تیکنیکی بنیادوں پر مسترد کردیا تھا۔

لہٰذا اس اسپکیٹرم کی نیلامی میں تاخیر کے لیے ان کی پارٹی کو بھی خاصی حد تک موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے، جس سے پچھلے پانچ سالوں یا اس سے زیادہ کے دوران تقریباً نصف ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔

اس کے علاوہ اس تاخیر سے صارفین کے حق سے بھی انحراف کیا گیا، اس لیے کہ یہ ٹیکنالوجی شورش زدہ افغانستان تک کے لوگوں کو بھی 2012ءسے فراہم کردی گئی تھی۔

ہمیشہ کی طرح آئی ٹی اور ٹیلی کام سیکٹر کے تجزیہ نگار اس اسپیکٹرم لائسنس کی نیلامی سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی کی مختلف وجوہات پیش کررہے ہیں۔

حکومت اس نیلامی کو 1.182 ارب ڈالرز تک ہی لے جاسکی، جبکہ اس کا انتہائی محتاط ہدف 1.3 ارب ڈالرز تھا۔ اس خاصی بڑی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ حکومت اس نیلامی کو مناسب طریقے سے مارکیٹ نہیں کرسکی اور مقابلے کی حقیقی فضا پیدا کرنے کے لیے نئے کھلاڑی لانے میں بھی ناکام رہی۔

کراچی میں اے کے ڈی سیکیورٹىیز کے لیے کام کرنے والے ایک تجزیہ نگار زور دیتے ہیں کہ ’’حکومت بولی دہندہ سے کیونکر یہ توقع رکھ سکتی ہے کہ وہ اپنی بولیوں کی قیمت میں اضافہ کریں گے، جبکہ وہاں مقابلے کی کوئی فضا موجود نہیں تھی، اور خود اس کے اہداف ہر چند ہفتوں میں تبدیل ہورہے تھے۔‘‘

ابتدائی طور پر اسحاق ڈار نے اس نیلامی کے لیے دو ارب ڈالرز کا ہدف مقرر کیا تھا، جبکہ اس کے بجٹ کا تخمینہ تقریباً 1.2 ارب ڈالرز تھا۔ لیکن پھر وہ خود ہی اس ہدف کو 1.5 ارب ڈالرز تک لے آئے، اور بالآخر یہ ہدف نیچے آتے آتے 1.3 ارب ڈالرز پر جا کر رُک سکا۔

حکومت پر موجودہ ٹیلی کام آپریٹرز کی جانب سے دباؤ تھا، جنہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر مقررہ قیمت کو کم نہیں کیا گیا تو وہ اس عمل سے باہر نکل جائیں گے۔

پھر اس نیلامی میں خلیج اور ترکی کے سرمایہ کاروں کو لانے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئیں، جن کی موجودگی سے گرتی ہوئی بولی کی رقم میں اضافہ ہوسکتا تھا۔

ٹیلی کام شعبے کے ایک ماہر مدثر جہانگیر مفتی کہتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں مقررہ قیمت مقرر کرنا ایک پیچیدہ عمل تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کی جانب سے مقرر کردہ قیمت سے ہماری مارکیٹ کی صورتحال کی عکاسی ہوتی تھی۔‘‘

مدثر جہانگیر نے بتایا ’’ہندوستان میں تھری جی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے اور وہ کمپنیاں جنہوں نے فورجی کا لائسنس خریدا تھا، اب تک اس ٹیکنالوجی کو صارفین تک لانے کے قابل نہیں ہوسکی ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اس کی قیمتِ فروخت پر توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیٔے، بلکہ ہمیں اس نئی ٹیکنالوجی سے معیشت اور صارفین کو حاصل ہونے والے بیش قدر فوائد اور ٹیکس ریوینیو میں اضافے پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیٔے۔‘‘

پھر بھی انہوں نے اس مؤقف کو تسلیم کیا کہ جس حتمی قیمت پر اسپیکٹرم لائسنس فروخت کیا گیا، اس سے ٹیلی کام آپریٹرز کے پُرجوش ردّعمل کی عکاسی نہیں ہوتی۔

ٹیلی کام انڈسٹری کے ماہرین کو امید ہے کہ تیزرفتار ڈیٹا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں 2020ء تک ڈھائی کروڑ سے ساڑھے چار کروڑ تک اضافہ ہوجائے گا، جس سے معیشت کو لگ بھگ چار سو ارب روپے اور تیئس ارب روپے کا ٹیکس ریونیو حاصل ہوگا۔

اس کے علاوہ اس نئی ٹیکنالوجی کے متعارف کرائے جانے سے ایک لاکھ افراد کے لیے نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور ای کامرس اور ای سیکیورٹی وغیرہ کے شعبے میں انقلابی تبدیلی آجائے گی۔

معیار میں توسیع اور بہتری کے لیے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

یوفون کے ایک ایگزیکٹیو عامر پاشا کہتے ہیں ’’لائسنس کی زیادہ قیمت آپریٹرز کو اپنے نیٹ ورک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی و توسیع میں سرمایہ کاری میں تاخیر پر مجبور کردے گی، اس کے ساتھ ساتھ صارفین کے لیے سروسز کی قیمت میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔‘‘

یہ ٹیکنالوجی سری لنکا میں شروع ہونے میں ناکام رہی تھی، جہاں اسپیکٹرم لائسنس کی فیس پاکستان سے کہیں زیادہ مقرر کی گئی تھی۔

چیک ری پبلک میں نیلامی اس وقت روک دی گئی تھی، جب کہ بولی مقررہ قیمت سے کہیں زیادہ آگے چلی گئی تھی۔ اس لیے کہ بہت زیادہ قیمت اور کمتر معیار کی سروسز کی صورت میں یہ صارفین کے لیے بوجھ بن جاتی۔

ایک اور ٹیلی کام ادارے کے ایگزیکٹیو نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’پاکستان میں فی صارف سے حاصل ہونے والا اوسط ریونیو 2.25 ڈالر ، دنیا میں سب سے کم ریونیو میں سے ایک ہے۔آپ لائسنس فیس کا مکمل بوجھ صارفین پر نہیں ڈال سکتے ہیں۔‘‘

ربط
 

تلمیذ

لائبریرین
اس جدید نظام کے بارےمیں جو معلومات اب تک حاصل ہوئی ہیں، ان کے مطابق ایک layman کے طور پر ہمیں یہ سمجھ آئی ہے کہ یہ نظام وائی فائی کی بنیاد پرفقط موبائل فون یا (شاید لیپ ٹاپ)کے لیے ہی کارآمد ہوگا۔ کیا کوئی ماہر اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ ہم جو عام کمپیوٹر (یعنی ڈیسک ٹاپ) پر DSL کے ذریعےا نٹر نیٹ چلاتے ہیں۔ کیا ان کو بھی اس نئی سہولت سے کوئی فائدہ ہوگا کہ نہیں۔
محمداحمد, قیصرانی,
 
3 جی میں بغیر انٹرنیٹ کے بھی وڈیو کال ہو سکتی ہے اور اس پر انٹرنیٹ کی رفتار 2جی سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آواز کی کوالٹی بھی بہت بہتر ہوتی ہے۔
4 جی کی انٹرنیٹ کی رفتار بہت زیادہ یعنی تقریبآ 100 ایم بی تک ہوتی ہے۔
3 جی تو کافی ملکوں میں عام ہو چکا ہے لیکن 4 جی صرف چند ملکوں میں ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس جدید نظام کے بارےمیں جو معلومات اب تک حاصل ہوئی ہیں، ان کے مطابق ایک layman کے طور پر ہمیں یہ سمجھ آئی ہے کہ یہ نظام وائی فائی کی بنیاد پرفقط موبائل فون یا (شاید لیپ ٹاپ)کے لیے ہی کارآمد ہوگا۔ کیا کوئی ماہر اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ ہم جو عام کمپیوٹر (یعنی ڈیسک ٹاپ) پر DSL کے ذریعےا نٹر نیٹ چلاتے ہیں۔ کیا ان کو بھی اس نئی سہولت سے کوئی فائدہ ہوگا کہ نہیں۔
محمداحمد, قیصرانی,
3G اور 4G میں Layman کے لئے چند ایک موٹے موٹے فائدے یہ ہیں کہ کال کوالٹی، نیٹ کی رفتار وغیرہ بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ جیسے آپ کو یاد ہوگا کہ موڈیم پر فون لائن کنکٹ کرتے تھے، اس کا اور ڈی ایس ایل کی رفتار کا جو فرق ہے، اسی طرح کا فرق آپ کو 2G کے انٹرنیٹ اور اس میں ملے گا۔ اس وقت میرے پاس گھر کا ڈی ایس ایل جو ہے، وہ 24 میگا بٹس کا ہے لیکن اس پر ملنے والی رفتار سے زیادہ میرا 4G والا سمارٹ فون دیتا ہے :)
 

دوست

محفلین
پی ٹی سی ایل کی یو ایس بی جیسے کئی آلات مارکیٹ میں آ جائیں گے۔ اس سے سستا بھی شاید ہو کچھ اور صارف کے پاس انتخاب بھی ہو گا۔ اور ایسے ڈونگل یا سِم والے آلات زیادہ دور دراز بھی کام کر سکیں گے، مثلاً موٹر وے پر اچھے رفتار کا انٹرنیٹ مل سکے گا۔
 
اس ڈیل کا ایک اور فائدہ ہونے کا امکان ہے کہ ایک ارب سے زیادہ ڈالر ملک میں آنے سے ڈالر بھی سستا ہوجائے گا جس مہنگائی کم ہونے کا بھی امکان ہے۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
اس ڈیل کا ایک اور فائدہ ہونے کا امکان ہے کہ ایک ارب سے زیادہ ڈالر ملک میں آنے سے ڈالر بھی سستا ہوجائے گا جس مہنگائی کم ہونے کا بھی امکان ہے۔ :)
اب حکومت ڈالر مزید سستا نہیں کرنا چاہتی۔ روپے کی قدر بڑھانے کے بجائے برامد کنندگان کو ریلیف دینا مقصود ہے۔
حکومت نے مستقبل میں روپے کی قدرمستحکم رکھنے اور برآمدکنندگان کو ریلیف دینے کے لیے وزارت تجارت کی سفارشات پرامریکی ڈالر کے اتار چڑھاو کو 98 سے 102روپے تک محدود کردیا، اتار چڑھاو 4 روپے سے تجاوز ہونے کی صورت میں حکومت مداخلت کرے گی۔
 
Top