یوسف-2
محفلین
تصورات وتخیلات کی حسین وادیوں کی سیر کرنے میں پیسہ صَرف ہوتا ہے نہ محنت کرنی پڑتی ہے البتہ انسان ہواؤں کے دوش پر سوار ہو کر اپنے مَن کی ساری مرادیں پا لیتا ہے ۔ہم نے بھی سیاست کے اکھاڑے میں اُترنے کے لیے بہت سے سہانے سپنے سجارکھے ہیں کیونکہ ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جِس کسی نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا ، آن کی آن میں فرش سے عرش تک جا پہنچا ۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم ’’ٹیں ٹیں ‘‘ کرتی پروٹوکول کی گاڑیوں کے جلَو میں ’’روٹ لگی‘‘ سڑکوں پر محوِ سفر ہوں اور سڑکوں پر کھڑے ’’کیڑے مکوڑے ‘‘عالمِ حسرت میں ہمیں تکتے رہ جائیں ۔ عالمِ تخیل میں تو ہم ایسا سفر کئی بار بلکہ دِن میں کئی کئی بار کر چکے ہیں لیکن عالمِ آب و گِل میں اِس کی نوبت ابھی تک نہیںآئی ۔ اِسی لیے ہمارا عزمِ مصمم ہے کہ ہم لازماََ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا دَر کھٹکٹائیں گے ۔یہ تو خیر طے ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے حاضر سٹاک میں ہماری کوئی گنجائش نہیں ۔اسی لیے ہم نے سوچ رکھا تھا کہ جنابِ پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ جوائن کر لی جائے ۔اِس جماعت کو جوائن کرنے کی کئی وجوہات تھیں ۔پہلی یہ کہ اِس جماعت میں کوئی بھی بڑا عہد ہ آسانی سے مِل سکتا تھا ۔ایک عہدہ کیا ، اگر ہم چاہیں تو بیک وقت تین چار عہدوں پر بھی قبضہ جما سکتے ہیں کیونکہ فی الحال تمام سیٹیں خالی پڑی ہیں ۔دوسرے یہ کہ اِس جماعت کا مستقبل بہت ’’روشن‘‘ دکھائی دیتا ہے کیونکہ بیرونی ممالک میں ہمارے لیڈر کو چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور سوشل میڈیا کی تو سب سے بڑی جماعت ہے ہی آل پاکستان مسلم لیگ ۔ کسی زمانے میں تحریکِ انصاف کا بھی سوشل میڈیا پر بہت چرچا تھا لیکن اب وہ میدانِ عمل میں ہے اور اُس کی جگہ آل پاکستان مسلم لیگ لے چکی ہے ۔تیسری وجہ یہ کہ ہمیں پاکستان سے بہت پیار ہے اور یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا نعرہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ہے ۔چوتھی اورسب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اِس جماعت کی سَر براہی اُس عظیم شخصیت کے پاس ہے جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سیاست دانوں میں وہ واحد شخص ہیں جو کئی سال تک ایٹمی پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک اور ’’تھری اِن وَن‘‘ رہے جو اُن کی ’’ارسطوانہ حکمت‘‘ کا مُنہ بولتا ثبوت ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ عقیل و فہیم پرویز مشرف صاحب نے مُکّے لہراتے ہوئے بیک وقت صدرِ پاکستان ، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے ایسے سنبھالے کہ اُن کے آگے کسی کو دَم مارنے کی مجال نہیں تھی ۔اِنہی خوبیوں کی بنا پر ہم آل پاکستان مسلم لیگ کا حصّہ بننے کے لیے کمر بستہ تھے لیکن خصوصی عدالت نے دھماکہ کرکے ہمارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ۔
ہمیں یقین تھا کہ خصوصی عدالت آرمی ایکٹ کے تحت پرویز مشرف صاحب کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں بھیج کر چین کی بانسری بجائے گی لیکن پتہ نہیں عدالت کے مَن میں کیا آئی کہ اُس نے پرویز مشرف صاحب کی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنا دیا کہ سنگین غداری کا مقدمہ صرف اور صرف خصوصی عدالت کا اختیار ہے اور کوئی دوسری عدالت یہ مقدمہ سننے کا اختیار نہیں رکھتی ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ 1977 ء کے جس آرمی ایکٹ کا حوالہ دیا گیا ہے اُس ایکٹ کو 1981ء میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اِس لیے پرویز مشرف پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا ۔خصوصی عدالت نے پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے اُنہیں 11 مارچ کو طلب کر لیا ہے ۔مشرف صاحب کے وکلاء بجا طور پر کہتے ہیں کہ یہ ایک بُرا فیصلہ ہے جسے وہ تسلیم نہیں کرتے ۔ احمد رضا قصوری کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف ایمرجنسی لگائی اِس لیے اُن کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں ہی چلنا چاہیے ۔فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ فیصلہ خلافِ قانون ہے ، ہم اِس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جلد ہی قانونی ٹیم کا اجلاس بلا کر فیصلہ چیلنج کیا جائے گا ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ 11 مارچ تک بہت سے قانونی آپشن موجود ہیں گویا ’’ہنوز دِلّی دُور است‘‘۔وکلاء کے اِن اُمید افزاء بیانات کے بعد ہمارا نہ صرف حوصلہ بڑھا بلکہ ہم نے اُمید کی ٹوٹی ڈور کو ایک دفعہ پھر ’’گانٹھ‘‘دے لی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ’’ہمارے لیڈر‘‘ کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں آ گیا تو پھر راوی عیش ہی عیش لکھے گا کیونکہ وہاں سبھی اپنے ہیں اور یہاں سبھی بیگانے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلا گیا تو پھرسب سے پہلے ہمارے لیڈر کو 21 توپوں کی سلامی دی جائے گی ، پھر گارڈ آف آنر اور آخر میں با عزّت و باوقار رخصتی جبکہ خصوصی عدالت کی شدید ترین خواہش پر مشرف صاحب جب عدالت آئے تو بنچ کے سَر براہ جناب جسٹس فیصل عرب نے اُن کے وکیل انور منصور سے استفسار کیا کہ اُن کے مؤکل کہاں ہیں جِس پر انور منصور نے پرویز مشرف صاحب کی طرف اشارہ کیا تو جسٹس فیصل عرب صاحب نے کہا ’’مسٹر مشرف ! آپ کھڑے ہو جائیں‘‘۔ سابق صدر ، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف ایگزیکٹو (تھری اِن وَن) نہ صرف کھڑے ہو گئے بلکہ عدالت کو ٹَھک سے سلیوٹ بھی دے مارا ۔کچھ بَد باطن کہتے ہیں کہ خوفزدہ پرویز مشرف نے زرد رنگ اور پھولی سانسوں کے ساتھ عالمِ بے اختیاری میں سلیوٹ کیا حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے تھری اِن وَن کمانڈو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں ۔کچھ مشرف مخالف تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ پاک فوج مشرف صاحب سے’’اوازار‘‘ ہے کیونکہ اُن کے دَور میں افواجِ پاکستان کی شہرت کو شدید دھچکا لگا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور ایں خیال است و محال است و جنوں۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے کمانڈو کو اے ایف آئی سی کی صورت میں ایک ایسی پناہ گاہ میسر آ گئی ہے جہاں پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ واقعی ’’بیمار شمار‘‘ ہیں اور بیماری کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ سوائے اے ایف آئی سی کے وی وی آئی پی روم کے کوئی اورجگہ اُن کے لیے مناسب نہیں ۔اگر حاکمانِ وقت کے دِل میں مشرف صاحب کا وی وی آئی پی روم کانٹے کی طرح چبھتا ہے تو اُنہیں چاہیے کہ مشرف صاحب کو بغرضِ علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دیں کیونکہ یہ تو طے ہے کہ اُن جیسی ’’عظیم ترین ‘‘ ہستی کا علاج اے ایف آئی سی کے ڈاکٹروں کے بَس کا روگ نہیں ۔اِسی لیے ہمارے کمانڈو اِن ’’عامی‘‘ ڈاکٹرں سے اپنا علاج کروانے کا رِسک نہیں لے رہے اور اُنہیں رِسک لینا بھی نہیں چاہیے کیونکہ وہ ملک و قوم کا ایسا سرمایہ ہیں جِن کی قومی خدمات کا اعتراف امریکہ بھی کرتا ہے اور طالبان بھی ۔امریکہ ڈرون اور طالبان خود کُش حملوں کی صورت میں ہر وقت مشرف صاحب کو یاد کرتے رہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہ احسان نا سپاس قوم امریکہ کو پسند کرتی ہے نہ طالبان کو ۔ہم امریکہ سے ڈالر بھی لیتے ہیں اور اُسے آنکھیں بھی دکھاتے ہیں اور طالبان جو ’’ہمارے اپنے‘‘ ہیں ، اُن کے خلاف بھی ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں ۔اب تو حکمرانوں نے بھی کھُل کر کہہ دیا ہے کہ ’’تُم ایک ماروگے تو ہم دو‘‘ ۔اللہ بھلا کرے محترم عمران خاں ، سید منّور حَسن صاحب ، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق کا جو آج بھی کسی موہوم سی اُمید کے سہارے مذاکرات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں ۔ویسے اگر حاکمانِ وقت مناسب سمجھیں تو وہ ہمارے’’تھری اِن وَن‘‘ کمانڈو کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اُنہیں امریکہ سے نپٹنے کا بھی تجربہ ہے اور طالبان سے دو ، دو ہاتھ کرنے کا بھی۔ (پروفیسر رفعت مظہر، نئی بات)
ہمیں یقین تھا کہ خصوصی عدالت آرمی ایکٹ کے تحت پرویز مشرف صاحب کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں بھیج کر چین کی بانسری بجائے گی لیکن پتہ نہیں عدالت کے مَن میں کیا آئی کہ اُس نے پرویز مشرف صاحب کی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنا دیا کہ سنگین غداری کا مقدمہ صرف اور صرف خصوصی عدالت کا اختیار ہے اور کوئی دوسری عدالت یہ مقدمہ سننے کا اختیار نہیں رکھتی ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ 1977 ء کے جس آرمی ایکٹ کا حوالہ دیا گیا ہے اُس ایکٹ کو 1981ء میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اِس لیے پرویز مشرف پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا ۔خصوصی عدالت نے پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے اُنہیں 11 مارچ کو طلب کر لیا ہے ۔مشرف صاحب کے وکلاء بجا طور پر کہتے ہیں کہ یہ ایک بُرا فیصلہ ہے جسے وہ تسلیم نہیں کرتے ۔ احمد رضا قصوری کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف ایمرجنسی لگائی اِس لیے اُن کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں ہی چلنا چاہیے ۔فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ فیصلہ خلافِ قانون ہے ، ہم اِس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جلد ہی قانونی ٹیم کا اجلاس بلا کر فیصلہ چیلنج کیا جائے گا ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ 11 مارچ تک بہت سے قانونی آپشن موجود ہیں گویا ’’ہنوز دِلّی دُور است‘‘۔وکلاء کے اِن اُمید افزاء بیانات کے بعد ہمارا نہ صرف حوصلہ بڑھا بلکہ ہم نے اُمید کی ٹوٹی ڈور کو ایک دفعہ پھر ’’گانٹھ‘‘دے لی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ’’ہمارے لیڈر‘‘ کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں آ گیا تو پھر راوی عیش ہی عیش لکھے گا کیونکہ وہاں سبھی اپنے ہیں اور یہاں سبھی بیگانے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلا گیا تو پھرسب سے پہلے ہمارے لیڈر کو 21 توپوں کی سلامی دی جائے گی ، پھر گارڈ آف آنر اور آخر میں با عزّت و باوقار رخصتی جبکہ خصوصی عدالت کی شدید ترین خواہش پر مشرف صاحب جب عدالت آئے تو بنچ کے سَر براہ جناب جسٹس فیصل عرب نے اُن کے وکیل انور منصور سے استفسار کیا کہ اُن کے مؤکل کہاں ہیں جِس پر انور منصور نے پرویز مشرف صاحب کی طرف اشارہ کیا تو جسٹس فیصل عرب صاحب نے کہا ’’مسٹر مشرف ! آپ کھڑے ہو جائیں‘‘۔ سابق صدر ، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف ایگزیکٹو (تھری اِن وَن) نہ صرف کھڑے ہو گئے بلکہ عدالت کو ٹَھک سے سلیوٹ بھی دے مارا ۔کچھ بَد باطن کہتے ہیں کہ خوفزدہ پرویز مشرف نے زرد رنگ اور پھولی سانسوں کے ساتھ عالمِ بے اختیاری میں سلیوٹ کیا حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے تھری اِن وَن کمانڈو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں ۔کچھ مشرف مخالف تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ پاک فوج مشرف صاحب سے’’اوازار‘‘ ہے کیونکہ اُن کے دَور میں افواجِ پاکستان کی شہرت کو شدید دھچکا لگا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور ایں خیال است و محال است و جنوں۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے کمانڈو کو اے ایف آئی سی کی صورت میں ایک ایسی پناہ گاہ میسر آ گئی ہے جہاں پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ واقعی ’’بیمار شمار‘‘ ہیں اور بیماری کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ سوائے اے ایف آئی سی کے وی وی آئی پی روم کے کوئی اورجگہ اُن کے لیے مناسب نہیں ۔اگر حاکمانِ وقت کے دِل میں مشرف صاحب کا وی وی آئی پی روم کانٹے کی طرح چبھتا ہے تو اُنہیں چاہیے کہ مشرف صاحب کو بغرضِ علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دیں کیونکہ یہ تو طے ہے کہ اُن جیسی ’’عظیم ترین ‘‘ ہستی کا علاج اے ایف آئی سی کے ڈاکٹروں کے بَس کا روگ نہیں ۔اِسی لیے ہمارے کمانڈو اِن ’’عامی‘‘ ڈاکٹرں سے اپنا علاج کروانے کا رِسک نہیں لے رہے اور اُنہیں رِسک لینا بھی نہیں چاہیے کیونکہ وہ ملک و قوم کا ایسا سرمایہ ہیں جِن کی قومی خدمات کا اعتراف امریکہ بھی کرتا ہے اور طالبان بھی ۔امریکہ ڈرون اور طالبان خود کُش حملوں کی صورت میں ہر وقت مشرف صاحب کو یاد کرتے رہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہ احسان نا سپاس قوم امریکہ کو پسند کرتی ہے نہ طالبان کو ۔ہم امریکہ سے ڈالر بھی لیتے ہیں اور اُسے آنکھیں بھی دکھاتے ہیں اور طالبان جو ’’ہمارے اپنے‘‘ ہیں ، اُن کے خلاف بھی ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں ۔اب تو حکمرانوں نے بھی کھُل کر کہہ دیا ہے کہ ’’تُم ایک ماروگے تو ہم دو‘‘ ۔اللہ بھلا کرے محترم عمران خاں ، سید منّور حَسن صاحب ، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق کا جو آج بھی کسی موہوم سی اُمید کے سہارے مذاکرات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں ۔ویسے اگر حاکمانِ وقت مناسب سمجھیں تو وہ ہمارے’’تھری اِن وَن‘‘ کمانڈو کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اُنہیں امریکہ سے نپٹنے کا بھی تجربہ ہے اور طالبان سے دو ، دو ہاتھ کرنے کا بھی۔ (پروفیسر رفعت مظہر، نئی بات)