تھپکی
میرا آخری پیریڈ سائیکولوجی کا تھا۔ جیسے ہی فلسفہ کی کلاس ختم ہونے کی گھنٹی بجی میں نےشوین برگ ہال کی طرف ڈور لگائی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ایٹ لاس انجیلس میں سینکڑوں بلڈنگ ہیں۔ روئیس ہال جنوب میں ہے اور شوین برگ ہال شمال میں۔ جب وہاں پہنچا تو کلاس روم کےدروازے پر ایک اعلان چپکا ہوا تھا۔
آج پروفیسر راجر کینڈل کی کلاس کیمسٹری کی لیبارٹری میں ہے۔
“ کیا ہوا ؟ پیچھےسے آواز آئی ۔
میں نے موڑ کر دیکھا۔ مونا ہانپی کانپتی آرہی تھی۔
“ آج کی کلاس کیمسٹری کی لیبارٹری میں ہے “۔
“ اور پانچ منٹ کا چلنا۔ مجھ سےاب یہ برداشت نہیں ہوتا۔ یہ بوڑھا پہلے سے کیوں نہیں بتاتا“۔ مونا نےغصہ میں کہا۔
“ سب ڈاکٹر سنکی ہوتے ہیں۔ بھول گیا ہوگا“ میں ہنس کر کہا “ چلو ہم پہلے ہی دیر سے آئے ہیں“۔
کلاس فل تھی۔ تمام طلباء لیبارٹری کی میزوں کے اردگرد کھڑے تھے۔ پروفیسر نے ایک میز کی طرف اشارہ کیا اور ہم دونوں بھی وہاں جاکر کھڑے ہوگے۔
“ آپ سب لوگوں کے سامنے گلاس کا ایک بیکر ہے ، گلاس کی چھوٹی چھڑی ، بنسن برنر ہے اور ایک بوتل میں زندہ مینڈک ہے“ ۔ پروفیسر نے سنجیدگی سے کہا۔
“ آپ اپنےمینڈک کوگلاس کے بیکر میں منتقل کریں “۔ پروفیسر نےحکم دیا۔
“ یہ کیا بکواس ہے“ ۔ مونا نےمنہ بنا کر دھیمی آواز میں کہا۔
“ میرا خیال ہے کہ آج شام کا کھانا مینڈک ہوگا“۔ میں مسکرا کر دھیمی آواز میں کہا۔
“ بنسن برنر کو جلائیں اور آنچ کو بالکل دھیمی رکھیں “۔ پروفیسر نے دوسرا حکم دیا
“ تم صحیح ہو “۔ مونا کی آواز میں ترشی تھی
“ اب آپ اس بیکر کو اسٹینڈ کے شکنجے میں جکڑ کر برنر پر لے آئیں“۔ یہ پروفیسر کا تیسرا حکم تھا۔
“ میں نہیں کروں گی“۔ اور مونا نےمینڈک کو واپس بوتل میں ڈال دیا۔
“ مونا “ ۔
“ سر“
“ تم اپنے ساتھی کےتجربہ پر نظر رکھو“۔
“ یس سر“
“ اب آپ اس برنر کی لُو کو بہت ہی آہستگی سے تھوڑے تھوڑے وقفہ میں بڑھاتےجائیں “۔ چوتھا حکم تھا۔
ہم نے بیکر کو بہت ہی آہستہ آہستہ گرم کرنا شروع کیا۔ بیکرگرم ہوتا رہا ۔ مینڈک نے جبنش نہیں کی۔ جیسےاُسےسانپ سونگ گیا ہو اور حرارت سہتا رہا۔ کچھ طلباء، اس بے رحمی کو برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے برنر بند کردیئے۔
پروفیسر نے اپنے دبیز چشمہ کے اوپر سے ہمیں دیکھا اور کہا “۔ اب بیکر کوگلاس کی چھوٹی چھڑی سےتھپکی دو“۔
میں نے بیکر کوگلاس کی چھوٹی چھڑی سے تھپکی دی ۔
“ یہ کیا بکواس ہے“ ۔ اس سے پہلے کے مونا اپنا جملہ مکمل کرتی۔ میرے مینڈک نے پہلانگ لگائی اور وہ بیکر سے باہر میز پر پھدک رہے تھا۔
“ میں نہیں سمجھی “ مونا نےحیرت سے کہا۔ “ جب جل رہا تھا تو اس بے وقوف نے کیوں چھلانگ نہیں لگائی ۔“ مونا نے مجھ سے سوال کیا۔
“ انتظار کرو،اب پروفیسر صاحب بتائیں گے کیا یہاں کیا ہوا؟“۔ میں نے کہا۔
“ کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ یہاں کیا ہوا؟“ پروفیسر پوری کلاس سے مخاطب تھے۔
کلاس روم میں خاموشی تھی۔
“ مینڈک دسیوں انچ چھلانگ لگا سکتا ہے ، لیکن اُ س نے آہستہ آہستہ اور مسلسل حرارت میں اضافہ ہونے کے باوجود بھی بیکر سے باہر چھلانگ نہیں لگائی؟“
کلاس ختم ہونے کی بیل بجی اور میں اور مونا کلاس سے ساتھ باہر نکلے۔
“مجھے پتہ ہے کہ مینڈک نے کیوں چھلانگ لگائی“ ۔ مونا نےسوچتے ہوئے کہا۔
“ کیوں“ ۔ میں مسکرا کر کہا۔
“ جب تم نے مینڈک کو بیکر میں ڈالا، تم نے دیکھا ہوگا کہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ مگر بیکر زیادہ چوڑا نہیں ہے اور بیکر کی دیواریں مینڈک کے بہت قریب تھیں“۔
“ اچھا مشاہدہ ہے۔ لیکن تم تو مینڈک کی جان بچانے کے چکر میں تھیں۔ تم نے یہ کیسے ملاحظہ کیا “۔ میں حیرت سے کہا۔
“ مینڈک نے محسوس کیا ۔۔۔ یہ گلاس کی دیواریں اس کی دنیا کی حدود ہیں۔۔۔
مینڈک میں چھلانگ لگانے کی صلاحیت تھی۔۔۔لیکن اس تنگی نظر کی وجہ سے اس کی دنیا محدود ہوگی ہے ۔۔۔ اور اس تنگی نظر نے اس کی صلاحیتوں کو مفلوج کردیا۔“ مونا نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے فتح مندی سے کہا“۔
“ یہ بات تو صحیح ہے ۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے“ میں نے مونا سے دریافت کیا۔
مونا نے اپنی بات جاری رکھی۔
“ انسانوں کو بھی یہی مسئلہ ہے۔ سینکڑوں انسان جب زندگی کے ایسےجال میں الجھ جاتے ہیں جس سے انہیں نکلنا نہیں آتا وہ امید چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔اس بات پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ ہرمسئلہ کئی حل ہوتے ہیں۔۔۔وہ اس بات پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں کے ان میں ایسی صلاحیتیں ہیں جو ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔۔۔وہ اس مینڈک کی طرح ہیں جو ہلکی آگ میں آہستہ آہستہ بُھنتا رہتا ہے۔ان لوگوں کو ایک تھپکی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تھپکی ۔۔۔
صرف ایک تھپکی جو ان کو چھلانگ مارنے پرمجبور کردے“۔
آج پروفیسر راجر کینڈل کی کلاس کیمسٹری کی لیبارٹری میں ہے۔
“ کیا ہوا ؟ پیچھےسے آواز آئی ۔
میں نے موڑ کر دیکھا۔ مونا ہانپی کانپتی آرہی تھی۔
“ آج کی کلاس کیمسٹری کی لیبارٹری میں ہے “۔
“ اور پانچ منٹ کا چلنا۔ مجھ سےاب یہ برداشت نہیں ہوتا۔ یہ بوڑھا پہلے سے کیوں نہیں بتاتا“۔ مونا نےغصہ میں کہا۔
“ سب ڈاکٹر سنکی ہوتے ہیں۔ بھول گیا ہوگا“ میں ہنس کر کہا “ چلو ہم پہلے ہی دیر سے آئے ہیں“۔
کلاس فل تھی۔ تمام طلباء لیبارٹری کی میزوں کے اردگرد کھڑے تھے۔ پروفیسر نے ایک میز کی طرف اشارہ کیا اور ہم دونوں بھی وہاں جاکر کھڑے ہوگے۔
“ آپ سب لوگوں کے سامنے گلاس کا ایک بیکر ہے ، گلاس کی چھوٹی چھڑی ، بنسن برنر ہے اور ایک بوتل میں زندہ مینڈک ہے“ ۔ پروفیسر نے سنجیدگی سے کہا۔
“ آپ اپنےمینڈک کوگلاس کے بیکر میں منتقل کریں “۔ پروفیسر نےحکم دیا۔
“ یہ کیا بکواس ہے“ ۔ مونا نےمنہ بنا کر دھیمی آواز میں کہا۔
“ میرا خیال ہے کہ آج شام کا کھانا مینڈک ہوگا“۔ میں مسکرا کر دھیمی آواز میں کہا۔
“ بنسن برنر کو جلائیں اور آنچ کو بالکل دھیمی رکھیں “۔ پروفیسر نے دوسرا حکم دیا
“ تم صحیح ہو “۔ مونا کی آواز میں ترشی تھی
“ اب آپ اس بیکر کو اسٹینڈ کے شکنجے میں جکڑ کر برنر پر لے آئیں“۔ یہ پروفیسر کا تیسرا حکم تھا۔
“ میں نہیں کروں گی“۔ اور مونا نےمینڈک کو واپس بوتل میں ڈال دیا۔
“ مونا “ ۔
“ سر“
“ تم اپنے ساتھی کےتجربہ پر نظر رکھو“۔
“ یس سر“
“ اب آپ اس برنر کی لُو کو بہت ہی آہستگی سے تھوڑے تھوڑے وقفہ میں بڑھاتےجائیں “۔ چوتھا حکم تھا۔
ہم نے بیکر کو بہت ہی آہستہ آہستہ گرم کرنا شروع کیا۔ بیکرگرم ہوتا رہا ۔ مینڈک نے جبنش نہیں کی۔ جیسےاُسےسانپ سونگ گیا ہو اور حرارت سہتا رہا۔ کچھ طلباء، اس بے رحمی کو برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے برنر بند کردیئے۔
پروفیسر نے اپنے دبیز چشمہ کے اوپر سے ہمیں دیکھا اور کہا “۔ اب بیکر کوگلاس کی چھوٹی چھڑی سےتھپکی دو“۔
میں نے بیکر کوگلاس کی چھوٹی چھڑی سے تھپکی دی ۔
“ یہ کیا بکواس ہے“ ۔ اس سے پہلے کے مونا اپنا جملہ مکمل کرتی۔ میرے مینڈک نے پہلانگ لگائی اور وہ بیکر سے باہر میز پر پھدک رہے تھا۔
“ میں نہیں سمجھی “ مونا نےحیرت سے کہا۔ “ جب جل رہا تھا تو اس بے وقوف نے کیوں چھلانگ نہیں لگائی ۔“ مونا نے مجھ سے سوال کیا۔
“ انتظار کرو،اب پروفیسر صاحب بتائیں گے کیا یہاں کیا ہوا؟“۔ میں نے کہا۔
“ کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ یہاں کیا ہوا؟“ پروفیسر پوری کلاس سے مخاطب تھے۔
کلاس روم میں خاموشی تھی۔
“ مینڈک دسیوں انچ چھلانگ لگا سکتا ہے ، لیکن اُ س نے آہستہ آہستہ اور مسلسل حرارت میں اضافہ ہونے کے باوجود بھی بیکر سے باہر چھلانگ نہیں لگائی؟“
کلاس ختم ہونے کی بیل بجی اور میں اور مونا کلاس سے ساتھ باہر نکلے۔
“مجھے پتہ ہے کہ مینڈک نے کیوں چھلانگ لگائی“ ۔ مونا نےسوچتے ہوئے کہا۔
“ کیوں“ ۔ میں مسکرا کر کہا۔
“ جب تم نے مینڈک کو بیکر میں ڈالا، تم نے دیکھا ہوگا کہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ مگر بیکر زیادہ چوڑا نہیں ہے اور بیکر کی دیواریں مینڈک کے بہت قریب تھیں“۔
“ اچھا مشاہدہ ہے۔ لیکن تم تو مینڈک کی جان بچانے کے چکر میں تھیں۔ تم نے یہ کیسے ملاحظہ کیا “۔ میں حیرت سے کہا۔
“ مینڈک نے محسوس کیا ۔۔۔ یہ گلاس کی دیواریں اس کی دنیا کی حدود ہیں۔۔۔
مینڈک میں چھلانگ لگانے کی صلاحیت تھی۔۔۔لیکن اس تنگی نظر کی وجہ سے اس کی دنیا محدود ہوگی ہے ۔۔۔ اور اس تنگی نظر نے اس کی صلاحیتوں کو مفلوج کردیا۔“ مونا نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے فتح مندی سے کہا“۔
“ یہ بات تو صحیح ہے ۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے“ میں نے مونا سے دریافت کیا۔
مونا نے اپنی بات جاری رکھی۔
“ انسانوں کو بھی یہی مسئلہ ہے۔ سینکڑوں انسان جب زندگی کے ایسےجال میں الجھ جاتے ہیں جس سے انہیں نکلنا نہیں آتا وہ امید چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔اس بات پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ ہرمسئلہ کئی حل ہوتے ہیں۔۔۔وہ اس بات پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں کے ان میں ایسی صلاحیتیں ہیں جو ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔۔۔وہ اس مینڈک کی طرح ہیں جو ہلکی آگ میں آہستہ آہستہ بُھنتا رہتا ہے۔ان لوگوں کو ایک تھپکی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تھپکی ۔۔۔
صرف ایک تھپکی جو ان کو چھلانگ مارنے پرمجبور کردے“۔