تھکن تو اگلے سفر کے لیئے بہانہ تھا

ظفری

لائبریرین

تھکن تو اگلے سفر کے لیئے بہانہ تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا

وہی چراغ بجھا ، جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی ، جو شجر پرانا تھا

متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا

ہوا کی کاٹ شگوفوں نے جذب کر لی تھی
تبھی تو لہجہِ خوشبو بھی جارحانہ تھا

وہی فراق کی باتیں ، وہی حکایت ِ وصل
نئی کتاب کا اک اک ورق پرانا تھا
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ ظفری بھائی افتخار عارف کی خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

اس میں کچھ تبدیلیاں:

دوسرے شعر میں 'اسی پر' کی جگہ 'اسی پہ' ہے۔

تیسرے شعر میں
'متاع جاں کا بدل ایک پل، ایک سرشاری' کی بجائے
'متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری' ہونا چاہیئے۔

چوتھے شعر میں
'شگافوں' جگہ 'شگوفوں' ہے۔

پانچویں شعر میں
'حکایتِ وصال' کی جگہ 'حکایتِ وصل' ہے۔ اور
'ایک ایک' کی جگہ 'ایک اک' ہے۔

اور اسی غزل کا ایک اور خوبصورت شعر

قبائے زرد، نگارِ خزاں پہ سجتی تھی
تبھی تو چال کا انداز خسروانہ تھا
 

ظفری

لائبریرین
تصحیح کا شکریہ وارث بھائی ۔۔۔۔ رومن اردو سے کاپی کرنا واقعی ایک دقت طلب کام ہے ۔ :(
اور عروض میں ہماری مہارت کا علم ، آپ کو تو ویسے بھی ہے ۔ ;)
 

محمداحمد

لائبریرین
وہی چراغ بجھا ، جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی ، جو شجر پرانا تھا

متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا

ہوا کی کاٹ شگوفوں نے جذب کر لی تھی
تبھی تو لہجہِ خوشبو بھی جارحانہ تھا

وہی فراق کی باتیں ، وہی حکایت ِ وصل
نئی کتاب کا اک اک ورق پرانا تھا

بہت خوب ظفری بھائی!

عمدہ انتخاب ہے۔
 

جیا راؤ

محفلین
وہی چراغ بجھا ، جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی ، جو شجر پرانا تھا

متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا


بہت خوب۔۔۔۔۔!
 

مغزل

محفلین

تھکن تو اگلے سفر کے لیئے بہانہ تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا

وہی چراغ بجھا ، جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی ، جو شجر پرانا تھا

متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا

ہوا کی کاٹ شگوفوں نے جذب کر لی تھی
تبھی تو لہجہِ خوشبو بھی جارحانہ تھا

وہی فراق کی باتیں ، وہی حکایت ِ وصل
نئی کتاب کا اک اک ورق پرانا تھا

سبحان اللہ سبحان اللہ ، کیا کہنے ظفری صاحب ، بہت خوب کلام منتخب کیا ہے ، افتخار عارف کو یہ افتخار حاصل ہے کہ ان کے مصرعوں کی بنت عمومی سطح سے خاصی مختلف ہے، جس سے قاری ’‘ گونج ‘‘ ایسے عوارض سے نکل کر شعر کا لطف لے سکتا ہے ، امید کی جاسکتی ہے کہ بزمِ آئندہ انہی کے نام سے معنون ہوجائے۔۔ اس خوبصورت کلام کے پیش کرنے پر مبارکباد، غزل تمام ہی اچھی لگی مگر یہ مصرع ’’متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری ‘‘ ایک نئی جہت لیے ہوئے ہے ، سدا خوش رہیں ،میری جانب سے اس کلام کے پیش کرنے پر مبارکباد قبول کیجے۔
 

طالوت

محفلین
وہی فراق کی باتیں ، وہی حکایت ِ وصل
نئی کتاب کا اک اک ورق پرانا تھا

بہت خو ب ۔
وسلام
 
Top