تھکن تو اگلے سفر کے لیئے بہانہ تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
وہی چراغ بجھا ، جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی ، جو شجر پرانا تھا
متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا
ہوا کی کاٹ شگوفوں نے جذب کر لی تھی
تبھی تو لہجہِ خوشبو بھی جارحانہ تھا
وہی فراق کی باتیں ، وہی حکایت ِ وصل
نئی کتاب کا اک اک ورق پرانا تھا