کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تھی پرسکون دُنیا، خاموش تھیں فضائیں
میں نے بھریں جو آہیں، چلنے لگیں ہوائیں
اُلفت کا جب مزا ہے، ملنے کی ہوں دعائیں
تم ہم کو یاد آؤ، ہم تم کو یاد آئیں
تم خوش ہو گر اسی میں ہم پر رہیں بلائیں
ہم بھی ہیں خوش اسی میں ہاں ہاں کرو جفائیں
جاؤ خدا نگہباں الٹی چلیں ہوائیں
تم ہم کو بھول جاؤ، ہم تم کو بھول جائیں
اک جُرم عاشقی پر اور اس قدر سزائیں
یہ کیا ستم ہے آخر اک جان سو بلائیں
پیشِ نگاہ تم ہو بجلی ہیں یا ادائیں
دل سے نکل رہی ہیں، بیساختہ دُعائیں
مجبوریء محبت اللہ تجھ سے سمجھے
ان کے ستم بھی سہہ کر دینا پڑیں دعائیں
اک وار میں کئے ہیں قلب و جگر کے ٹکڑے
او مستِ حُسن آجا لے لوں تری بلائیں
تم ہم کو بھول جاؤ، یہ حُسن کا ہے شیوہ
امکان میں نہیں ہے ہم تم کو بھول جائیں
آخر ستم یہ کیا ہے، انصاف کوئی شے ہے
ہم بےکسی سے روئیں، سرکار مسکرائیں
بہزاد مُبتلا تو چپ چاپ ہی کھڑا تھا
دُنیا سمجھ رہی تھی آنکھوں کی التجائیں
(بہزاد لکھنوی)
تھی پرسکون دُنیا، خاموش تھیں فضائیں
میں نے بھریں جو آہیں، چلنے لگیں ہوائیں
اُلفت کا جب مزا ہے، ملنے کی ہوں دعائیں
تم ہم کو یاد آؤ، ہم تم کو یاد آئیں
تم خوش ہو گر اسی میں ہم پر رہیں بلائیں
ہم بھی ہیں خوش اسی میں ہاں ہاں کرو جفائیں
جاؤ خدا نگہباں الٹی چلیں ہوائیں
تم ہم کو بھول جاؤ، ہم تم کو بھول جائیں
اک جُرم عاشقی پر اور اس قدر سزائیں
یہ کیا ستم ہے آخر اک جان سو بلائیں
پیشِ نگاہ تم ہو بجلی ہیں یا ادائیں
دل سے نکل رہی ہیں، بیساختہ دُعائیں
مجبوریء محبت اللہ تجھ سے سمجھے
ان کے ستم بھی سہہ کر دینا پڑیں دعائیں
اک وار میں کئے ہیں قلب و جگر کے ٹکڑے
او مستِ حُسن آجا لے لوں تری بلائیں
تم ہم کو بھول جاؤ، یہ حُسن کا ہے شیوہ
امکان میں نہیں ہے ہم تم کو بھول جائیں
آخر ستم یہ کیا ہے، انصاف کوئی شے ہے
ہم بےکسی سے روئیں، سرکار مسکرائیں
بہزاد مُبتلا تو چپ چاپ ہی کھڑا تھا
دُنیا سمجھ رہی تھی آنکھوں کی التجائیں