تھے تواباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیاہو

ابن جمال

محفلین
تھے تواباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیاہو
علامہ اقبال نے پہلے شکوہ لکھااوربعدمیں جواب شکوہ لکھا۔ان سے پہلے یہ کام مولانا حالی مدوجزراسلام المعروف مسدس حالی میں یہ فریضہ انجام دے چکے تھے۔انہوں نے پہلے پہل یہ دکھایاکہ عرب کی کیاحالت تھی پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ان میں کیاانقلاب ایااورکس طرح تھوڑے ہی دنوں بعدمشرق و مغرب کی حکمراں بن گئی اوراس کے فتوحات کا ہندوستان وچین سے لے کرقسطنطنیہ وفرانس تک وسیع ہوگیا۔اس کے بعد انہوں نے موجودہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی تصویر کھنچی اورایک ایک طبقے کی تصویر کھینچ دی۔پھراس کے بعد کچھ بندھائی۔
علامہ اقبال نے اسی کام کو نئے تراش خراش کے ساتھ کیا۔پہلے انہوں نے شکوہ لکھااوراس میں یہ صاف عرض کردیاشکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو۔اوراس کے بعد یہ عرض کیاکہ تیرے محبوب کی امت اتنی زبوں حال اورپستی میں گری ہوئی کیوں ہے۔شکوہ دراصل ان کیلئے قوم کو متوجہ کرنے کاایک ذریعہ تھا۔اس سے پہلے اردو شاعری میں ایساکبھی نہیں ہواتھا کہ کسی نے اس اندازمیں بارگاہ الہی میں اپنااورقوم کا شکوہ نامہ پیش کیاہو۔جب پوری قوم متوجہ ہوگئی توانہوں نے جواب شکوہ لکھااوربتایاکہ پستی اورذلت کی وجہ کیاہے۔یہ خداکی طرف سےکمی نہیں ہے بلکہ تقصیر ہماری جانب سے ہے۔
ہم تومائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرومنزل ہی نہیں
علامہ اقبال نے جواب شکوہ میں ایک جگہ لکھاہے۔تھے تواباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیاہو۔
یہ دراصل موجودہ دور کے مسلمانوں کی ذہنیت پر ایک تازیانہ اورایک تنقید ہے۔ہرمسلمان ہمہ وقت اسی احساس فخر میں ڈوبارہتاہے کہ ہمارے اسلاف نے یہ کیاوہ کیامگرتم نے کیاکیا۔یہ سوال کیاجائے تووہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔اپنی قوم کے بڑوں کویاد کرنااوریادرکھنااچھی بات ہے اگراس کے ذریعہ عمل کی تحریک حاصل کرنے کی نیت ہو۔اگران کے احساس تفاخر میں ڈوب کو خود کو بے عملی کا جواز مہیاکیاجائے تواسلاف پرستی کسی جرم سے کم نہیں ہے۔
گیدڑ رات میں شوروغل کرتے ہیں۔فارسی میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلے پہل ایک گیدڑ باہر نکلتاہے پھر وہ کہتاہے۔پدرم سلطان بودمیراباپ بادشاہ تھا۔پھراس کے بعد پورے گیدڑ ایک ساتھ اس سے پوچھنے لگتے ہیں تراچہ تراچہ لیکن تم کیاہو۔
مقدمہ بہت طویل ہوگیااوراصل بات رہ گئی۔اصل بات یہ تھی کہ ہمارے اسلاف کو جوعزت اوربزرگی ملی تھی وہ خداکے احکام پرعمل کرنے اورمسلسل وکوشش ومحنت کرنےسے ملی تھی۔نماز کے بارہ میں ہمارے اسلاف کاکیاذوق وشوق تھا۔ذرااس کا تذکرہ اج کی محفل میں۔
تئیسویں ہجری چل رہی ہے۔خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کازمانہ ہے۔صبح کا وقت ہے۔ مسجد نبوی میں باجماعت نماز ہورہی ہے اور حسب معمول امیر المومنین نماز پڑھارہے ہیں۔اسی دوران مجوسی ابولولوء جوپہلے سے مسجد میں چھپاہواتھا۔اچانک حضرت عمرپر پے درپے کئی خنجر کے وارکرتاہے۔حضرت عمرخنجر کی تاب نہ لاکر گرپڑتے ہیں۔لیکن اللہ رے شوق نماز دیکھئے اس دردناک منظر کو دیکھنے کے باوجود بھی کسی صحابی نے نماز کی نیت نہیں توڑی اورنہ کسی نے اپنی جگہ چھوڑی۔ مجرم ابولولوء کو بھاگنے کا راستہ نہیں ملتاہے کیونکہ تمام صحابہ صف میں بنیان مرصوص سیسے کی دیوار بن کرکھڑے ہیں۔ وہ کئی دیگر صحابہ کرام پر بھی خنجر چلاکراخرباہرجاتاہے۔اوربالاخرچند صحابہ کرام اس پرچاردڈال کراس کو پکڑلیتے ہیں۔
اس واقعہ کاتقابل اج کی ہماری نمازوں سے کیجئے۔اگرخدانخواستہ ایساواقعہ کسی مسجد میں ہوجائے تویہ منظردیکھنے کے ساتھ شاید ہی کوئی نمازی کھڑے ہوکر اپنی نماز مکمل کرے ۔سب کے سب اپنی جان بچانے کیلئے دوڑپریں گے۔صحابہ کرام کاشوق نماز دیکھئے اس دردناک حادثہ کے باوجود نماز مکمل ہوتی ہے۔ حضرت عمر فاروق نماز کیلئے اپنی جگہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کو کھڑے کردیتے ہیں اورتمام صحابہ ان کی اقتداءمیں نماز فجر مکمل کرتے ہیں۔یہ ہے نماز کا شوق جوصحابہ کرام میں تھا۔واقعہ کتناہی دردناک اورہولناک ہو لیکن نماز سب سے بڑھ کر ہے اوراس کاعملی نمونہ ہمیں اس واقعہ میں ملتاہے۔
اسی واقعہ میں اگے بڑھئے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ خنجر کے ضربات سے اورخون نکلنے سے بیہوش ہوگئے ہیں۔ ان کی بے ہوشی طویل ہوتی جارہی ہے۔صحابہ کرام مشورہ کرتے ہیں کہ اخر یہ بے ہوشی کیسے دور ہو۔بالآخر یہ طئے پایاکہ ان کو جتنی رغبت نماز سے ہے اتنی کسی اورچیز سے نہیں لہذاان کے کان میں الصلاۃ یاامیرالمومنین کہاجائے۔یہ سنتے ہی حضرت عمر کوہوش آگیااور کہنے لگے ہاں خداکی قسم نماز ۔پھرانہوں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا،کیالوگوں نے نماز پڑھ لی انہوں نے عرض کیاجی ہاں۔فرمایا ۔جس نے نماز چھوڑدی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔پھرپانی منگایاوضوکیا اورنماز پڑھی اس حال میں ان کے زخموں سے خون بہہ رہاتھا۔
صحابہ کرام کا نماز سے عشق کایہ حال تھاکہ وہ موت کے وقت اورآخری لمحات تک نماز کی فکر کرتے تھے اورکیوں نہ کرتے کیونکہ ان کو فداہ ابی وامی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایاتھاکہ نماز کی اہمیت اسلام میں کیاہے۔اورنماز کوچھوڑنے پر کتنی سخت وعیدیں ہیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاتھاکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاؤں ورم کرجاتے ۔حالانکہ آپ بخشے بخشائے تھے۔انہوں نے دیکھاتھاکہ سکرات الموت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری لمحات میں فرمارہے تھے۔الصلاۃ الصلاۃ وماملکت ایمانکم ،نماز اوراپنے زیردستوں کاخیال رکھنا۔
صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےعشق کی عملی اورزندہ تفسیرتھے کہ اگرکسی سے محبت کا دعویٰ ہوتواس کی پیروی اوراتباع کس طرح کرنی چاہئے۔اورایک ہم ہیں۔زبان سے محبت کادعویٰ کرنے میں توبہت آگے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے توپھسڈی بن جاتے ہیں۔ نماز جیسی اہم چیز کس طرح ہماری زندگیوں سے نکل گئی ہے۔ہمیں احساس تک نہیں ہے۔ہوسکتاہے کہ ہم نماز پڑھتے ہوں لیکن وہ چیز جس کو قیام صلاۃ کہاجاتاہے.وہ دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتا۔نماز کی دواہم صفت خشوع اورخضوع جس کے بغیر نماز محض ورزش اوراٹھک بیٹھک کے سواکچھ نہیں رہ جاتاآج ہماری نماز سے غائب ہیں۔
صحابہ کرام کے بعد آتے ہیں۔ تابعین عظام کی جانب۔ان کا نماز کے ساتھ عشق وتعلق کاکیاحال تھاوہ بھی تاریخ کی کتابوں خاص طورپر اسماء الرجال اورتذکرہ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔افسوس اس بات کاہے کہ ہم ساری دنیاکی تاریخ پڑھ لیتے ہیں لیکن کبھی توفیق نہیں ملتی کہ صحابہ کے حالات ،تابعین کے حالات تبع تابعین اوربزرگان دین کے حالات پڑھیں اورجانیں کہ ان کی زندگی کیسے اسلام کے سانچے میں ڈھل چکی تھی اوران کاہرقدم اسلام کے حکم کی تعمیل میں اٹھتاتھا۔
یہ سعید بن المسیب ہیں۔اپنے دور کے سب سے بزرگ اورجلیل القدر تابعی ہیں۔تقریباًتمام تذکرہ نگاران اس پر متفق ہیں کہ اس دو رمیں ان کے پائے کاکوئی دوسراتابعی نہ تھا۔نماز سے ان کے عشق کا حال ان کے اپنے الفاظ میں سنئے۔
فرماتے ہیں۔میں نے چالیس سال سے باجماعت نماز ترک نہیں کی۔
ایک مرتبہ جب ان کی آنکھیں دکھنے لگیں توکسی نے مشورہ دیاکہ آپ عقیق جاکر ہرے بھرے اورسرسبزوشاداب مناظردیکھیں توشاید آنکھوں کو کچھ آرام ملے۔فرمایامشورہ بہترہے لیکن بتاؤپھرعشاء اورفجر کی نماز میں حاضری کس طرح ہوگی۔یعنی یہ نمازیں باجماعت کس طرح اداہوں گی۔
ربیع بن خیثم ایک بزرگ تابعی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ان کے بارے میں ہے کہ اے ربیع اگرتم کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے توتم سے محبت فرماتے۔نماز سے شیفتگی کایہ حال اورنماز کی ادائیگی کایہ خیال کہ جب ان پر فالج کا حملہ ہواتب بھی وہ دوسروں کے سہارے گھسٹ کر نماز کیلئے جاتے۔ان سے کسی نے کہاکہ آپ کو ایسے حال میں رخصت ہے(گھرمیں پڑھ لیاکریں)فرمایا میں موذن کی نداسنتاہوں۔حی علی الصلاۃ اورارشاد رسول ہے کہ اگرتم (اذان کی آواز سنو)گھسٹ کر آنے کی قدرت رکھتے ہوتوگھسٹ کر آؤ۔
عامر بن عبداللہ بن زبیر نے اذان کی آواز سنی توانہوں نے اپنے ہمراہیوں سے کہاکہ میراہاتھ پکڑ کر مجھے مسجد لے چلو۔ان کے ہمراہیوں نے کہاکہ آپ بیمار ہیں فرمایا میں اللہ کے داعی کے آواز اورنداسن رہاہوں توکیاجواب نہ دوں۔ان کے ہمراہی ان کو سہارادے کر مسجد لے گئے۔مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ایک رکعت پڑھی اوردوران نماز ہی انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ
اس واقعہ کا تقابل آج ذراہم اپنی حالت سے کریں۔خدالگتی بات کہی جائے۔کیاکبھی اذان کی آواز سن کر ہمارے دلوں میں یہ احساس ذمہ داری پیداہواہے کہ موذن خدا کاداعی ،اللہ کامنادی،مالک کل دوجہاں کا ڈھنڈورچی آواز دے رہاہے۔ پکاررہاہے۔ سب کو اس کے درباری میں حاضری کاحکم سنارہاہے۔ہم اپنے خالق اورمالک کی پکار کا جواب دیں۔ہم اپنے مولاکے فرمان کی تعمیل کریں۔آج توہم نے یہ سمجھ رکھاہے کہ یہ توموذن کی ڈیوٹی ہے کہ پانچ وقت اذان دے۔خداکی ندااوراس کے جواب دینے کا تصور ہمارے ذہن سے کچھ اس طرح صاف ہوگیاہے کہ اس طرح کی باتوں کوبھی ہم عجیب سمجھتے ہیں۔
عربی شاعرنے بالکل صحیح کہاہے۔
منائرکم علت فی کل حی
ومسجدکم من العباد خالی
وصوت اذانکم فی کل واد
ولکن این صوت من بلال
ترجمہ بلکہ ترجمانی ان اشعار کی یہ ہے کہ مسجدیں تو ہربستی میں ہیں لیکن بقول اقبال مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ اس میں نمازی اوراوصاف حجازی والے نہیں ہیں۔مسجدیں نمازیوں سے خالی ہیں۔اذان کی آواز ہرجگہ گونجتی ہے لیکن موذن کی آواز میں حضرت بلال کے اذان جیسااثر نہیں ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ اگرموذن کی آواز میں اثرحضرت بلال جیساہولیکن ہمارے اندر ہی قبول کی صلاحیت نہ ہوتو اس میں موذن کا کیاقصور۔
آج ہماری نمازیں تواتر کے ساتھ چھوٹتی ہیں۔ہمارے درمیان شاید ہی کوئی ایسافرد ہو جوصاحب ترتیب ہو۔یہ صاحب ترتیب کیاہوتاہے۔یہ بھی شاید بہت سے لوگوں کومعلوم نہ ہو۔ فقہ کی اصطلاح میں صاحب ترتیب اس کو کہاجاتاہے بلوغت کے بعد سے پانچ سے زائد نمازیں قضاء نہ کی ہوں۔ اگرپانچ سے زائد نمازیں اس نے قضاء کررکھی ہیں توپھروہ صاحب ترتیب نہیں۔
اگرکبھی دنیاوی امور کے متعلق سروے کی طرح دینی امور کے متعلق بھی سروے کیاجائے توشاید ہماری دینی اوراخلاقی حالت کھل کرسامنے آجائے گی۔
نماز کی کیااہمیت تھی ۔یہ دیکھئے حضرت عبدالرحمن بن مہدی مشہور محدث ہیں ان سے پوچھاگیاکہ کیاکوئی شخص جس کی شادی ہورہی ہووہ کچھ نمازیں باجماعت ترک کرسکتاہے۔فرمایا ایک نماز بھی باجماعت ترک نہیں کرسکتا۔اورآج کا حال یہ ہے کہ شادی کامطلب ہی یہ سمجھاجاتاہے کہ ہرقسم کے منہیات اورخلاف شرع امور کی لائسنس مل گئی ہے۔ جس کو جومرضی میں آئے کرتاجائے۔
آپ نے عبدالرحمن بن مہدی کا فتویٰ سن لیا۔اب عمل دیکھئے۔عموماًکہناآسان ہوتاہے اورکرنامشکل ہوتاہے۔یہی عبدالرحمن بن مہدی ہیں ان کی ایک بیٹی کی شادی ہوئی توفجر کے وقت اس مکان کے باہرجاکر کھڑے ہوگئے جہاں ان کی بیٹی اورداماد تھے ۔انہوں نے باندی سے کہاکہ جاؤ،جاکر کہو کہ فجر کی نماز اداکریں اورداماد سے کہو وہ فجر کی نماز کیلئے مسجد چلیں۔عورتوں نے کہابھی آپ یہ کیاکرتے ہیں فرمایا میں یہاں سے تب تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ وہ مسجد نہیں چلتے اورایساہی کیا۔
اگرآج کوئی ایساکرے تواسے پاگل ،مجنون ،خشک مزاج اورپتانہیں کیاکیاسمجھاجائے گا۔لیکن یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی آخرت محفوظ کرلی ہےاورخداکی رضاحاصل کرلی ہے۔
صحیح مسلم میں ایک روایت ہے" لایزال قوم یتاخرون حتی یوخرھم اللہ "ایک قوم ہمیشہ پیچھے ہٹتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ اس کو پیچھے کردے گا۔امام نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ پیچھے ہٹنے سے مراد نماز میں اول صف سے پیچھے ہٹناہے یعنی اس بات کی کوشش نہیں کریں گے کہ وہ نماز صف اول میں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ اس کو اپنے فضل عظیم اورحمت عام سے محروم کردے گا اوردنیا میں بڑائی اورسیادت کے مرتبہ سے پیچھے کردے گا۔
صف اول میں نماز پڑھنااورتکبیراولیٰ کے فوت نہ ہونے کااہتمام ایک مومن اورپکے سچے مسلم کاشعار ہوناچاہئے اوردوراول کے صحابہ وتابعین کا یہی حال تھا وہ اس بات کی پوری کوشش کرتے تھے کہ کسی بھی حال میں صف اول میں نماز پڑھیں اورتکبیر اولیٰ فوت نہ ہو۔حضرت عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ کبھی ایسانہیں ہواکہ نماز کھڑی ہوئی اورمیں باوضونہ رہاہوں۔ابراہیم بن میمون ایک محدث ہیں ان کے حالات میں آتاہے کہ ان کا پیشہ سونےا ورچاندی کو پیٹ کر اس کاورق تیار کرنے کا تھا۔چنانچہ جب کبھی وہ ہتھوڑااٹھاتے اوراس درمیان اذان کی آواز سنائی دیتی تو ہتھوڑاچاندی یاسونے پرمارے بغیر اسے رکھ دیتے ۔سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ تیس سالوں میں کبھی ایسانہیں ہواکہ موذن نےاذان دی ہو اورمیں اس سے پہلے مسجد میں حاضرنہ رہوں۔
تکبیراولیٰ کا اہتمام دراصل ایک مومن کی نشانی ہے اوراس کا نہ ہونا اس کے ضد یعنی نفاق کی علامت ہے۔اس کی دلیل ترمذی کی حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جو شخص چالیس دن تک اللہ کے واسطے اس طرح نمازپڑھے کہ اس کی کوئی تکبیراولیٰ فوت نہ ہو تواللہ اس کودوچیزوں سے بری کردیتاہے۔ ایک جہنم سے اوردوسرانفاق سے بری ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم التیمی فرمایاکرتے تھے کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو جوتکبیر اولیٰ کااہتمام نہیں کرتا اورسستی برتتاہے تواس سے ہاتھ دھولو،یعنی اس سے کسی خیر کی توقع نہ رکھو۔
آج اسلاف کے کردار کےآئینہ میں ہم اپناجائزہ لیں توپتہ چلے گاکہ وہ لوگ کہاں ہیں اورہم کہاں ہیں۔
ایک وہ لوگ تھے نجانے کون لوگ تھے
زندگی بیچ دی بندگی کیلئے
ایک ہم لوگ ہیں نجانے کون لوگ ہیں
بندگی بیچ دی زندگی کیلئے
 
Top