حسیب احمد حسیب
محفلین
عشق مجازی والوں کی خدمت میں غزل .
میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے راحت ہے تو
اے مری زندگی ! میری الفت ہے تو
اے میری کیفیت تجھ کو کیا نام دوں
لوگ بتلاتے ہیں کہ محبت ہے تو
فلسفے ہیں مرے مسئلے ہیں مرے
تیرا اک مسئلہ خوبصورت ہے تو
تیرا اک مسئلہ خوبصورت ہے تو
سوچتا ہوں کبھی چھوڑ دوں میں تجھے
چھوڑ سکتا نہیں بیش قیمت ہے تو
چھوڑ سکتا نہیں بیش قیمت ہے تو
بےوفا تو نہیں سنگدل ہے مگر
ہائے مجبور ہوں میری عادت ہے تو
ہائے مجبور ہوں میری عادت ہے تو
تجھ سے کیسے کہوں اے مری جان جاں
تو مری زندگی ہے ضرورت ہے تو
تو مری زندگی ہے ضرورت ہے تو
میرے جوش جنوں کی تجھے کیا خبر
ایک بے جان پتھر کی مورت ہے تو
ایک بے جان پتھر کی مورت ہے تو
تیری فطرت میں ہیں شوخیاں مستیاں
تو ہے اک جل پری اک شرارت ہے تو
تو ہے اک جل پری اک شرارت ہے تو
دسترس میں نہیں تو بڑی دور ہے
بس یہ احساس ہے میری چاہت ہے تو
بس یہ احساس ہے میری چاہت ہے تو
حال دل سن کہ تو..، رودیا آج کیوں
کتنے برسوں کی تشنہ شکایت ہے تو
میرا مقصد نہیں تھا رلانا تجھے
تیرا کیا دوش ہے نیک فطرت ہے تو
حسیب احمد حسیب
کتنے برسوں کی تشنہ شکایت ہے تو
میرا مقصد نہیں تھا رلانا تجھے
تیرا کیا دوش ہے نیک فطرت ہے تو
حسیب احمد حسیب
آخری تدوین: