جیا راؤ
محفلین
تیرا رستہ دیکھتے اپنے دن گنتی، اعداد بنے
پہلے ہم نے ہجر گزارا شاعر اﹸس کے بعد بنے
تتلی، جگنو، چاند، ستارے، برکھا، جھرنے اور گلاب
پہلے یہ سب دوست تھے میرے لیکن اب تو یاد بنے
وہ یہ چاہے مجھ کو ساری فکروں سے آزاد کرے
میں یہ چاہوں قید کرے اور میرا وہ صیاد بنے
ہوا ہے شاید ہر مکتب میں عشق کا پڑھنا لازم اب
ہر لڑکی شیریں کہلائے، ہر لڑکا فرہاد بنے
مجھ کو جب سمجھاتا ہے دل، کمسن بچہ لگتا ہے
خود کو ہی شاگرد کرے جو اپنا ہی استاد بنے
غم سہہ کر بھی غزلیں اپنی چڑیوں کی چہکاریں ہیں
جیا ! بتاو شعر ہمارے کب نالہ، فریاد بنے
لیجئیے مغل جی اس بار ہم نے غزل اصلاح سخن میں پوسٹ کی ہے ﴿اسپتال کے بجائے۔۔۔ ﴾