تیرا سپنا امر سمے تک ،نامعلوم

تیرا سپنا امر سمے تک
اپنی نیند ادھوری سائیں
کالے پنکھ کھلے کوئل کے
کوکی من میں دوری سائیں
میرا عشق زمیں کی مٹی
نه ناری ، نه نوری سائیں
سزا ، جزا، مالک کا حصہ
بندے کی مزدوری سائیں
تیرا ھجر، رتوں کی هجرت
تیرا قرب ، حضوری سائیں
تیرا کبر ، تیری یکتائی
اپنا من منصوری سائیں
اپنی نیند ادھوری سائیں ...!!!
 

فلک شیر

محفلین
شاہ صاحب! صہبائی کی ایک نظم جو مجھے بے حد پسند ہے..........
پل بھر کا بہشت
ایک وہ پل جو شہر کی خفیہ مٹھی میں
جگنو بن کر
دھڑک رہا ہے
اُس کی خاطر
ہم عمروں کی نیندیں کاٹتے رہتے ہیں
یہ وہ پل ہے
جس کو چھو کر
تم دنیا کی سب سے دلکش
لذت سے لبریز اک عورت بن جاتی ہو
اور میں ایک بہادر مرد
ہم دونوں آدم اور حوا
پل بھر کے بہشت میں رہتے ہیں
اور پھر تم وہی ڈری ڈری سی
بسوں پہ چڑھنے والی، عام سی عورت
اور میں دھکے کھاتا بوجھ اُٹھاتا
عام سا مرد
دونوں شہر کے
چیختے دھاڑتے رستوں پر
پل بھر رُک کر
پھر اُس پل کا خواب بناتے رہتے ہیں
 

فلک شیر

محفلین
اور سرمد صہبائی کی یہ نظم تو عجیب ہے.......بہت عجیب.........سینکڑوں دفعہ پڑھی کہ المیہ اور نام نہاد طربیہ کو اتنی خوب صورتی سے کم ہی paintکیا جا سکتا ہے...........
مرد اور عورت
پیڑ پہ اگتے غیبی پھل کو چکھ لیتے ہیں
اپنی اپنی خواہش نوچ کے
اپنے اندر رکھ لیتے ہیں
پسلی کے بل چڑھتے سانپ کا
پھن تالو میں در آتا ہے
جسم کے اندر رستے پھل کا
زہر لبوں پر بھر آتا ہے
بستر کی میلی سلوٹ میں
گرم لہو کی تیز مہک مرجھا جاتی ہے
دھندلی سانسوں کے موسم میں
وہ عورت گہنا جاتی ہے
تھکے ہوئے کندھوں پر اس کی
دونوں بانہیں، آہستہ سے
کھنچ آتی ہیں
جلتی لال لویں چھاتی پر
مرد کے ہونٹ سے بجھ جاتی ہیں
خود سے ہار کے
مرد اور عورت
پھٹی ہوئی آنکھوں کو جھوٹے خوابوں سے کفنا لیتے ہیں
دن چڑھنے تک
اک دوجے کو
اپنے اپنے جسموں میں دفنا لیتے ہیں
 
Top