ش زاد
محفلین
تیرا کوئی حُُکم صادِر چاہتا ہوں
میں اُُبھرنا خاک سے پِھر چاہتا ہوں
آ گِرائیں پِھر جو کنکر ہاتھیوں پر
نیل دریا سے ! وہ طائِر چاہتا ہوں
میرے مستقبِل کو ماضی میں بدل دے
اس قدر بس دورِ حاضِر چاہتا ہوں
کوئی دھڑکن کی زمیں میں شعر لکھے
کوئی دل جیسا ہو شاعِر چاہتا ہوں
ابتدائے حرفِ اوّل ہو چکی ہے
انتہائے حرفِ آخِر چاہتا ہوں
ش زاد
میں اُُبھرنا خاک سے پِھر چاہتا ہوں
آ گِرائیں پِھر جو کنکر ہاتھیوں پر
نیل دریا سے ! وہ طائِر چاہتا ہوں
میرے مستقبِل کو ماضی میں بدل دے
اس قدر بس دورِ حاضِر چاہتا ہوں
کوئی دھڑکن کی زمیں میں شعر لکھے
کوئی دل جیسا ہو شاعِر چاہتا ہوں
ابتدائے حرفِ اوّل ہو چکی ہے
انتہائے حرفِ آخِر چاہتا ہوں
ش زاد