تیرا ہر تیر بھی اب سوئے جگر آتا ہے

سر الف عین
سر یاسر شاہ
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


شب کی تنہائی میں ہر زخم نکھر آتا ہے
اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے

ڈھونڈتا پھرتا ہوں کب سے تجھے ساحل پہ مگر
بیچ موجوں کے ترا عکس نظر آتا ہے

ہے تمنائے قمر بھی ترے چہرے کا طواف
وہ مرے ساتھ بھنور میں ہی اتر آتا ہے

کہکشاں ہے ترا رستہ تری منزل ہے ضیاء
میرے حصے میں اندھیروں کا سفر آتا ہے

موت کی فکر نہیں دکھ تو فقط اتنا ہے
تیرا ہر تیر بھی اب سوئے جگر آتا ہے

حسرت و یاس کے دل پر مرے ایسے ہیں نقوش
اب دروں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے

درد سجاد زمانے میں جہاں بھی جاگے
ڈھونڈنے کو وہ ٹھکانہ مرے گھر آتا ہے
شکریہ
 

یاسر شاہ

محفلین
سجاد بھائی معذرت کہ گزشتہ غزل کی طرح آپ کی اس غزل میں بھی موزونیت اور خوبصورت الفاظ پہ فوکس ہے معنویت اکثر اشعار میں نہیں -گزشتہ غزل پہ تبصرہ نہیں کیا ،اس پہ کر دیتا ہوں -

شب کی تنہائی میں ہر زخم نکھر آتا ہے
اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے

شب کی تنہائی میں زخموں کے نکھرنے اور نہ مسکرا پانے کا آپس میں کیا جوڑ ہے -

ڈھونڈتا پھرتا ہوں کب سے تجھے ساحل پہ مگر
بیچ موجوں کے ترا عکس نظر آتا ہے

مطلب یہ نکلا میں کافی دیر سے ساحل پہ تجھے تلاش کرنے کو پھرتا رہتا ہوں مگر ساحل پہ تو نہیں ملتا البتہ موجوں کے بیچ تیرا عکس نظر آتا ہے -ایک بناوٹی سی بے لطف بات ہے -

ہے تمنائے قمر بھی ترے چہرے کا طواف
وہ مرے ساتھ بھنور میں ہی اتر آتا ہے

اس کی نثر بھی کریں تو کچھ بھی نہ بر آمد ہو سکے گا -

کہکشاں ہے ترا رستہ تری منزل ہے ضیاء
میرے حصے میں اندھیروں کا سفر آتا ہے

راستے اور منزل کا جوڑ کہکشاں اور ضیا میں بن نہیں پایا لہٰذا یہاں بھی کوئی خاص بات نہیں -

موت کی فکر نہیں دکھ تو فقط اتنا ہے
تیرا ہر تیر بھی اب سوئے جگر آتا ہے

دوسرے مصرعے میں اگر ذرا ترمیم کر لیں تو بہتری آ جائے -

تیر تیروں میں ترا سوئے جگر آتا ہے


حسرت و یاس کے دل پر مرے ایسے ہیں نقوش
اب دروں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے

حال دروں کو آپ نے دروں حالی کہہ دیا ہے جو کہ مستعمل نہیں -اس مصرع کو یوں کہیں :

کہ زبوں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے

درد سجاد زمانے میں جہاں بھی جاگے
ڈھونڈنے کو وہ ٹھکانہ مرے گھر آتا ہے

یہ شعر بھی معانی کی منزل سے دور رہ گیا -


دو اشعار میں ترمیم کی ہے وہ رکھ لیں -اور مندرجہ ذیل مصرعوں کو رکھ لیں ان پر دوبارہ گرہ لگائیں اور غزل از سر نو کہہ کر یہاں پیش کریں -

-شب کی تنہائی میں ہر زخم نکھر آتا ہے

-اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے

-میرے حصے میں اندھیروں کا سفر آتا ہے
 
شب کی تنہائی میں ہر زخم نکھر آتا ہے
درد ہجراں کا نئے ڈھب سے ابھر آتا ہے

تلخ ایام کا لہجے پہ اثر ہو کے رہا
اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے

جب بھی امیدِ سحر دل میں لئے چلتا ہوں
میرے حصے میں اندھیروں کا سفر آتا ہے

کھا کے ہر بار مرا ساتھ نبھانے کی قسم
کیوں وہ پھر ترکِ تعلق پہ اتر آتا ہے

جب کسی جھیل پہ جا کر میں غزل تجھ پہ کہوں
بیچ موجوں کے ترا عکس نظر آتا ہے

حسرت و یاس کے دل پر مرے ایسے ہیں نقوش
کہ زبوں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے

موت کی فکر نہیں دکھ ہے تو بس اتنا سا
تیر تیروں میں ترا سوئے جگر آتا ہے

سر غزل دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے نظر ثانی فرما دیں اور یاسر شاہ بھائی اگر محسوس نہ کریں تو میں مقطع کے بارے میں آپ کی مفصل رائے چاہتا ہوں کیونکہ سر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس شعر میں کیا کمی ہے بار بار سوچنے پر بھی یہ شعر مجھے مطلب کے لحاظ سے پورا محسوس ہو رہا ہے اگر سر آپ اپنا خیال قلمبند کر دیں گے تو کم از کم آپ کے اس شاگرد کے علم میں کچھ اضافہ ہو جائے گا اور سر یاسر آپ سے درخواست ہے کہ میری ہر کوشش پہ تھوڑا سا وقت نکال کر ضرور لکھا کریں اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے اور ہمیشہ خوش و خرم رہیں آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم عزیزم سجاد بھائی!

شب کی تنہائی میں ہر زخم نکھر آتا ہے
درد ہجراں کا نئے ڈھب سے ابھر آتا ہے
واہ ۔اب ٹھیک ہو گیا ماشاء اللہ ۔
تلخ ایام کا لہجے پہ اثر ہو کے رہا
اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے
یہاں دیکھیے خیال میں دم نہیں اور جب ایسا ہو تو کچھ زبان وبیان کا سہارا لینا چاہیے۔جیسے:
اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے
دل سے درد اٹھتا ہے چہرے پہ نظر آتا ہے

ب بھی امیدِ سحر دل میں لئے چلتا ہوں
میرے حصے میں اندھیروں کا سفر آتا ہے
دوسرے مصرع میں جب آپ «میرے حصے میں » کہہ رہے ہیں تو پہلے میں بانٹنے یا تقسیم کرنے کا ذکر کریں۔
کھا کے ہر بار مرا ساتھ نبھانے کی قسم
کیوں وہ پھر ترکِ تعلق پہ اتر آتا ہے
یہ ٹھیک ہے۔
جب کسی جھیل پہ جا کر میں غزل تجھ پہ کہوں
بیچ موجوں کے ترا عکس نظر آتا ہے
جھیل میں موجیں ؟
حسرت و یاس کے دل پر مرے ایسے ہیں نقوش
کہ زبوں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے
پہلے مصرع کی بندش ذرا اور چست کر دیں :
حسرت و یاس نے چھوڑے ہیں مرے دل پہ وہ نقش
کہ زبوں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے

ر یاسر شاہ بھائی اگر محسوس نہ کریں تو میں مقطع کے بارے میں آپ کی مفصل رائے چاہتا ہوں کیونکہ سر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس شعر میں کیا کمی ہے بار بار سوچنے پر بھی یہ شعر مجھے مطلب کے لحاظ سے پورا محسوس ہو رہا ہے اگر سر آپ اپنا خیال قلمبند کر دیں گے تو کم از کم آپ کے اس شاگرد کے علم میں کچھ اضافہ ہو جائے گا
جہاں تک آپ کے مقطع کا سوال ہے تو سرسری دیکھنے سے تو یوں لگتا ہے کہ آپ نے «جاگے»کا استعمال درد کی جمع کے لیے کیا ہے اور اگلے مصرع میں پھر اسے واحد کے طور پر برتا ہے لیکن غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ پہلے مصرع میں: درد جاگے : ماضی ہے اور : گھر آتا ہے : حال جوکہ ٹھیک نہیں -
درد سجاد زمانے میں جہاں بھی جاگے
ڈھونڈنے کو وہ ٹھکانہ مرے گھر آتا ہے
پھر یہ بیانیہ بھی بہت کمزور لگتا ہے کہ کوئی پوری دنیا میں جہاں بھی جاگے آپ کے گھر ٹھکانہ ڈھونڈنے آئے -دیکھیے امیر مینائی نے اس مضمون کو کس خوبی سے ادا کیا کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


یوں ایک صورت دیکھیں :

درد پاتا نہیں سجاد کہیں پر جو قرار
ڈھونڈنے کو وہ ٹھکانہ مرے گھر آتا ہے

ایک مشوره ہے کہ آپ کا تخلص خاصا طویل ہے :مفعول: کے وزن پر -کوئی تخلص فعلن ،فاع یا فعول کے وزن پر ڈھونڈیں -
سر یاسر آپ سے درخواست ہے کہ میری ہر کوشش پہ تھوڑا سا وقت نکال کر ضرور لکھا کریں اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے
میں ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ جلد یا بدیر آپ کی غزل پہ رائے ضرور دوں کہ آپ کا میری صاف گوئی کا برا نہ ماننا خود میرے لیے اس ضمن میں حوصلہ افزائی ہے کہ آگے بھی رائے دیتا رہوں۔
اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے اور ہمیشہ خوش و خرم رہیں آمین
آمین
اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دارین عطا فرمائے اور تاثیر کلام بھی ۔آمین
 
السلام علیکم عزیزم سجاد بھائی!


واہ ۔اب ٹھیک ہو گیا ماشاء اللہ ۔

یہاں دیکھیے خیال میں دم نہیں اور جب ایسا ہو تو کچھ زبان وبیان کا سہارا لینا چاہیے۔جیسے:
اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے
دل سے درد اٹھتا ہے چہرے پہ نظر آتا ہے


دوسرے مصرع میں جب آپ «میرے حصے میں » کہہ رہے ہیں تو پہلے میں بانٹنے یا تقسیم کرنے کا ذکر کریں۔

یہ ٹھیک ہے۔

جھیل میں موجیں ؟

پہلے مصرع کی بندش ذرا اور چست کر دیں :
حسرت و یاس نے چھوڑے ہیں مرے دل پہ وہ نقش
کہ زبوں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے


جہاں تک آپ کے مقطع کا سوال ہے تو سرسری دیکھنے سے تو یوں لگتا ہے کہ آپ نے «جاگے»کا استعمال درد کی جمع کے لیے کیا ہے اور اگلے مصرع میں پھر اسے واحد کے طور پر برتا ہے لیکن غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ پہلے مصرع میں: درد جاگے : ماضی ہے اور : گھر آتا ہے : حال جوکہ ٹھیک نہیں -

پھر یہ بیانیہ بھی بہت کمزور لگتا ہے کہ کوئی پوری دنیا میں جہاں بھی جاگے آپ کے گھر ٹھکانہ ڈھونڈنے آئے -دیکھیے امیر مینائی نے اس مضمون کو کس خوبی سے ادا کیا کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


یوں ایک صورت دیکھیں :

درد پاتا نہیں سجاد کہیں پر جو قرار
ڈھونڈنے کو وہ ٹھکانہ مرے گھر آتا ہے

ایک مشوره ہے کہ آپ کا تخلص خاصا طویل ہے :مفعول: کے وزن پر -کوئی تخلص فعلن ،فاع یا فعول کے وزن پر ڈھونڈیں -

میں ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ جلد یا بدیر آپ کی غزل پہ رائے ضرور دوں کہ آپ کا میری صاف گوئی کا برا نہ ماننا خود میرے لیے اس ضمن میں حوصلہ افزائی ہے کہ آگے بھی رائے دیتا رہوں۔

آمین
اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دارین عطا فرمائے اور تاثیر کلام بھی ۔آمین
سر بہت بہت شکریہ یاسر شاہ بھائی آپ کی وضاحت کے ساتھ دی ہوئی اصلاح سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اللہ پاک آپ کو مزید علم اور ہمت عطا فرمائے آمین!
 
السلام علیکم عزیزم سجاد بھائی!


واہ ۔اب ٹھیک ہو گیا ماشاء اللہ ۔

یہاں دیکھیے خیال میں دم نہیں اور جب ایسا ہو تو کچھ زبان وبیان کا سہارا لینا چاہیے۔جیسے:
اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے
دل سے درد اٹھتا ہے چہرے پہ نظر آتا ہے


دوسرے مصرع میں جب آپ «میرے حصے میں » کہہ رہے ہیں تو پہلے میں بانٹنے یا تقسیم کرنے کا ذکر کریں۔

یہ ٹھیک ہے۔

جھیل میں موجیں ؟

پہلے مصرع کی بندش ذرا اور چست کر دیں :
حسرت و یاس نے چھوڑے ہیں مرے دل پہ وہ نقش
کہ زبوں حالی کا چہرے پہ اثر آتا ہے


جہاں تک آپ کے مقطع کا سوال ہے تو سرسری دیکھنے سے تو یوں لگتا ہے کہ آپ نے «جاگے»کا استعمال درد کی جمع کے لیے کیا ہے اور اگلے مصرع میں پھر اسے واحد کے طور پر برتا ہے لیکن غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ پہلے مصرع میں: درد جاگے : ماضی ہے اور : گھر آتا ہے : حال جوکہ ٹھیک نہیں -

پھر یہ بیانیہ بھی بہت کمزور لگتا ہے کہ کوئی پوری دنیا میں جہاں بھی جاگے آپ کے گھر ٹھکانہ ڈھونڈنے آئے -دیکھیے امیر مینائی نے اس مضمون کو کس خوبی سے ادا کیا کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


یوں ایک صورت دیکھیں :

درد پاتا نہیں سجاد کہیں پر جو قرار
ڈھونڈنے کو وہ ٹھکانہ مرے گھر آتا ہے

ایک مشوره ہے کہ آپ کا تخلص خاصا طویل ہے :مفعول: کے وزن پر -کوئی تخلص فعلن ،فاع یا فعول کے وزن پر ڈھونڈیں -

میں ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ جلد یا بدیر آپ کی غزل پہ رائے ضرور دوں کہ آپ کا میری صاف گوئی کا برا نہ ماننا خود میرے لیے اس ضمن میں حوصلہ افزائی ہے کہ آگے بھی رائے دیتا رہوں۔

آمین
اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دارین عطا فرمائے اور تاثیر کلام بھی ۔آمین
باقی سر سجاد کی جگہ پھر سعید ہی استعمال کر سکتا ہوں لیکن اس میں بھی ایک مشکل یہ ہے کہ آپ کی اور سر الف عین صاحب کی انتھک محنت سے میری جو غزلیں قاری کی کچھ توجہ کی حقدار ہوئیں تھیں انہیں ایک کتاب کا نام دے کر میں نے شائع کروا دیا تھا اب بعد والی شاعری میں تخلص بدلنا معیوب نہیں لگے گا سر؟
 

یاسر شاہ

محفلین
سر بہت بہت شکریہ یاسر شاہ بھائی آپ کی وضاحت کے ساتھ دی ہوئی اصلاح سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اللہ پاک آپ کو مزید علم اور ہمت عطا فرمائے آمین!
آمین۔
باقی سر سجاد کی جگہ پھر سعید ہی استعمال کر سکتا ہوں
«سعید» شاعری کے لحاظ سے «سجاد »کی نسبت خوبتر ہے۔اس میں تشدید بھی نہیں اور متنوع بحور میں آسانی سے کھپ جائے گا۔
شاعری میں تخلص بدلنا معیوب نہیں لگے گا سر؟
تخلص بدلنے میں حرج ہی کیا ہے۔تخلص بدلنے کے ساتھ ساتھ یہاں سخن میں بھی مشق سے تبدیلیاں آجائیں گی ۔نئی کتاب میں سب کچھ نیا نیا ہوگا۔
آپ کی اور سر الف عین صاحب کی انتھک محنت سے میری جو غزلیں قاری کی کچھ توجہ کی حقدار ہوئیں تھیں انہیں ایک کتاب کا نام دے کر میں نے شائع کروا دیا تھا
مبارک ہو بھائی بہت بہت ۔پی ڈی ایف ہو تو یہاں پیش کریں۔کچھ بتائیں کہ کتنا خرچا ہوا ،کتنی کتابیں شایع کر وائیں اور چھپوا کر خوش ہیں یا نہیں؟
 
آمین۔

«سعید» شاعری کے لحاظ سے «سجاد »کی نسبت خوبتر ہے۔اس میں تشدید بھی نہیں اور متنوع بحور میں آسانی سے کھپ جائے گا۔

تخلص بدلنے میں حرج ہی کیا ہے۔تخلص بدلنے کے ساتھ ساتھ یہاں سخن میں بھی مشق سے تبدیلیاں آجائیں گی ۔نئی کتاب میں سب کچھ نیا نیا ہوگا۔

مبارک ہو بھائی بہت بہت ۔پی ڈی ایف ہو تو یہاں پیش کریں۔کچھ بتائیں کہ کتنا خرچا ہوا ،کتنی کتابیں شایع کر وائیں اور چھپوا کر خوش ہیں یا نہیں؟
ٹھیک ہے سرمیں اگلی کوشش میں سعید استعمال کروں گا انشاء اللہ
خیر مبارک بہت بہت شکریہ بھائی میں نے دو سال پہلے جون 21 میں چھپوائی تھی اس وقت تین سو جلدوں پر 45000 لگا تھا 108 صفحات پر مشتمل کتاب ہے خوش ہوں یاسر بھائی کم از کم جو لکھا ہے وہ کتاب کی شکل میں محفوظ ہو گیا شاید مرنے کے بعد بھی کوئی اک نظر دیکھ کر یاد کر لیا کرے اور مغفرت کی دعا کر دے کتاب کا نام میں نے سرابِ زیست رکھا ہے پی ڈی ایف میں ہے میرے پاس مجھے طریقہ بتا دیجئیے سر میں اپ لوڈ کر دیتا ہوں
 

یاسر شاہ

محفلین
ٹھیک ہے سرمیں اگلی کوشش میں سعید استعمال کروں گا انشاء اللہ
خیر مبارک بہت بہت شکریہ بھائی میں نے دو سال پہلے جون 21 میں چھپوائی تھی اس وقت تین سو جلدوں پر 45000 لگا تھا 108 صفحات پر مشتمل کتاب ہے خوش ہوں یاسر بھائی کم از کم جو لکھا ہے وہ کتاب کی شکل میں محفوظ ہو گیا شاید مرنے کے بعد بھی کوئی اک نظر دیکھ کر یاد کر لیا کرے اور مغفرت کی دعا کر دے کتاب کا نام میں نے سرابِ زیست رکھا ہے پی ڈی ایف میں ہے میرے پاس مجھے طریقہ بتا دیجئیے سر میں اپ لوڈ کر دیتا ہوں
مجھے تو فی الحال آپ ای میل کر دیں اس ایڈریس پر
yasir ali rashdi@gmail.com

اور محترمی الف عین صاحب کو بھی ٹیگ کر دیتے ہیں ،امید ہے وہ یہ کتاب یہاں لائبریری میں بھی شامل کر دیں۔
 
ٹھیک ہے سر میں انشاء اللہ ابھی آپ کو ای میل کرتا ہوں ویسے یاسر بھائی میں خوش قسمت ہوں کہ کتاب کے وسیلے سے مجھے آپ کا ای میل تو ملا ہاہاہا
 
شب کی تنہائی میں ہر زخم نکھر آتا ہے
درد ہجراں کا نئے ڈھب سے ابھر آتا ہے

اب تبسم مرے ہونٹوں پہ کدھر آتا ہے
دل میں درد اٹھتا ہے چہرے پہ نظر آتا ہے

کہکشائیں تری قسمت میں سدا رہتی ہیں
میرے حصے میں اندھیروں کا سفر آتا ہے

کھا کے ہر بار مرا ساتھ نبھانے کی قسم
کیوں وہ پھر ترکِ تعلق پہ اتر آتا ہے

جب بھی کہتا ہوں غزل بیٹھ کے ساحل پہ کبھی
بیچ موجوں کے ترا عکس نظر آتا ہے

حسرت و یاس نے چھوڑے ہیں مرے دل پہ وہ نقش
کہ زبوں حالی کا چہرے پہ اثر آتا

موت کی فکر نہیں دکھ ہے تو بس اتنا سا
تیر تیروں میں ترا سوئے جگر آتا ہے

درد پاتا نہیں سجاد کہیں پر جو قرار
ڈھونڈنے کو وہ ٹھکانہ مرے گھر آتا ہے

سر نظر ثانی کے لئے غزل حاضرِ خدمت ہے
سر الف عین
سر یاسر شاہ
 
Top