تیرگی میں جل رہے ہیں خواب سارے

احسن مرزا

محفلین
السلام و علیکم! ایک غزل محفل میں موجود احباب کے خدمت میں بغرضِ اصلاح حاضر ہے

تیرگی میں جل رہے ہیں خواب سارے​
ٹمٹماتے ہیں مری حسرت کے تارے​
ہم نے اکثر، اک جلا کر شمع تیری​
بس پتنگے حسرتِ دوراں کے مارے​
شاعری خونَ جگر سے ہورہی ہے​
چل پڑے جب سے جگر پر غم کے آرے​
کرب کی سولی پہ لٹکی ہے محبت​
اب بھی زندہ ہے تو حسرت کے سہارے​
جب ہوا تیری وفائوں کی چلے گی​
پھر ہی چٹخیں گے محبت سے شرارے​
کھول رکھی ہے لحد دل کی کبھی سے​
اب کوئی آکر نئی حسرت اتارے​
دل میں خیمے لگ گئے تنہائیوں کے​
(کون آنکھوں میں بسی دنیا سنوارے)​
کس طرح سے غم منایا جائے احسن​
اور کیسے، شب کوئی رو کر گزارے​
 
Top