تیری آنکھوں میں اگر خواب ہمارے ہوتے

سر الف عین
سید عاطف علی
محمّد احسن سمیع :راحل:
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


مہرباں کاش مقدر کے ستارے ہوتے
تجھ کو پھر ہم بھی دل و جان سے پیارے ہوتے

آرزوؤں کے دئیے ہم بھی نہ بجھنے دیتے
تیری آنکھوں میں اگر خواب ہمارے ہوتے

ہم بھی ٹکراتے جہاں سے, تری جانب سے اگر
چاہے مبہم ہی سہی کچھ تو اشارے ہوتے

اپنی قسمت میں اگر وصل کی نعمت ہوتی
اسطرح آج نہ ہم کرب کے مارے ہوتے

بپھری موجوں کے تھپیڑوں میں سنبھل ہی جاتے
ہم جو تقدیر سے طوفاں میں نہ ہارے ہوتے


تُو نے امید کا دامن جو نہ چھوڑا ہوتا
تیرے سودائی کو اتنے نہ خسارے ہوتے

فْاصلے پر ہی سہی ساتھ تو چلتے رہتے
چاہے اک نہر کے ہم دونوں کنارے ہوتے

ہم کو سجاد نہ محشر میں ندامت ہوتی
چند لمحے جو عبادت میں گذارے ہوتے
 
اچھی غزل ہے سجاد بھائی، ماشاءاللہ ... غزل کے روایتی مضامین اچھے باندھے ہیں آپ نے.

ہم بھی ٹکراتے جہاں سے, تری جانب سے اگر
چاہے مبہم ہی سہی کچھ تو اشارے ہوتے
بس یہاں پہلے مصرعے میں م دونوں "سے" کے درمیان فاصلہ کم ہے جس سے تکرار کا شائبہ ہوتا ہے. میرے خیال میں پہلے مصرعے کی بندش بہتر ہو تو شعر کافی جاندار ہوجائے گا.
 
اچھی غزل ہے سجاد بھائی، ماشاءاللہ ... غزل کے روایتی مضامین اچھے باندھے ہیں آپ نے.


بس یہاں پہلے مصرعے میں م دونوں "سے" کے درمیان فاصلہ کم ہے جس سے تکرار کا شائبہ ہوتا ہے. میرے خیال میں پہلے مصرعے کی بندش بہتر ہو تو شعر کافی جاندار ہوجائے گا.
شکریہ سر کوشش کرتا ہوں سلامت رہیں راحل بھائی
 
اچھی غزل ہے سجاد بھائی، ماشاءاللہ ... غزل کے روایتی مضامین اچھے باندھے ہیں آپ نے.


بس یہاں پہلے مصرعے میں م دونوں "سے" کے درمیان فاصلہ کم ہے جس سے تکرار کا شائبہ ہوتا ہے. میرے خیال میں پہلے مصرعے کی بندش بہتر ہو تو شعر کافی جاندار ہوجائے گا.
ہم زمانے سے الجھتے , تری جانب سے اگر
چاہے مبہم ہی سہی کچھ تو اشارے ہوتے
 
Top