تیری الفت اگر نہیں ہوگی

تیری الفت نہیں اگر ہوگی
زندگی کسطرح بسر ہوگی
اِس توقّع پہ سانس لیتا ہوں
تیری خوشبو اِدھر اُدھر ہوگی
اپنی چوکھٹ کو چوم لینے دے
زندگی اب یہیں بسر ہوگی
ترے در سے نہ اٹھوں گا مفلس
دولتِ درد اِس قدر ہوگی
مدّتیں حبس میں گذاری ہیں
ایک دن تو شرحِ صدر ہوگی
دل کی بے نور فضاوءں میں مرے
تیرے جلوے سے اک سحر ہوگی
میری ان خشک آنکھوں میں محمود
وہ نمی ہوگی جو گہر ہوگی
 

مغزل

محفلین
شکریہ محمود غزنوی صاحب، ماشا اللہ ، اللہ کرے زورِقلم مشقِ سخن تیز۔ عمدہ کاوش ہے ،
 

الف عین

لائبریرین
مطلع؟
تیری الفت اگر نہیں ہوگی
یوں ہوگا
تیری الفت نہیں اگر ہوگی

یہ مصرعے بحر سے خارج ہیں، یعنی اس بحر میں نہیں
ترے در سے نہ اٹھوں گا مفلس
اور
دل کی بے نور فضاوءں میں مرے

اور یہ
ایک دن تو شرحِ صدر ہوگی
میں شرح کا تلفظ غلط ہے، شاید ح گرا دی گئی ہے جو جائز نہیں۔
خیالات حسبِ معمول اچھے ہیں۔ غزل مجموعی طور پر اچھی ہے۔
 

فرخ

محفلین
محمود بھائی بہت خوب۔
شاعری کی اونچ نیچ اپنی جگہ (اور اعجاز بھائی ہیں‌نا تصحیح کے لئے ؛) )مگر خیالات اور غزل کا انداز بہت خوب ہے۔
ماشاءاللہ
 
Top