عبدالرزاق قادری
معطل
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پر
حق و باطل کا معرکہ بہت تیزی سے ایک براہ راست تصادم کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہم خاموش تماشائی بن کر اس آنے والے تصادم کو بطور مبصر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن فطرت کا قانون اور فطرت کا فیصلہ ایسے نہیں ہوتا جس طرح سے ہم خیال کرتے ہیں۔افراد کی غلطی قوموں کی غلطی میں تبدیل ہورہی ہے۔مشرق و مغرب کے ذمہ دار نہایت درجے غیر ذمہ دار ہوتے جارہے ہیں۔آنکھوں پر حیوانیت کی چربی چڑھ گئی اور دلوں پر زنگ آلود تالے ہیں جو افکار و جذبا ت کی سچائی کو چھپائے ہوئے ہیں۔ حاکم و محکوم ، غنی و فقیر اور ہر چھوٹے بڑے کی نیت میں ایسا فتور ہے جو زبان کو درست نہیںرہنے دیتا۔اصلاح کی بات کرنے والوں کو فاضل پرزہ سمجھ کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ ہر دجال و مکار نے آنکھوں پر رنگین چشمے چڑھائے ہوئے ہیں اور حسب ضرورت رنگوں کی مناسبت سے تبدیل کرتے رہتے ہیں اور قاتلوں نے ہاتھوں پر دلفریب اور خوشنما دستانے پہنے ہوئے ہیں۔ اس لئے بیچارے غریب عوام بد کردار رہبروں اور سفا ک ممالک کے قدموں پر ایسے وفادار کی طرح لوٹتے ہیں جیسے ایک بیمار و مجروح مسیحا کی دہلیز پر ماتھا رگڑتا ہے۔
غریب مسلمان حکمران حالات کی دہلیز پر اسی طرح سے ماتھا ٹیک رہے ہیں لیکن یہ بے چارے منگتے حکمران جن کا کشکول خیرات خوف کی مٹی سے بنا ہوا ہے اور ان کی صدائے گدائی میں اس حد تک لرزش اور کپکپاہٹ ہے کہ ان کی زبان پر کلمہ خیر بھی ندامت اور شرمندگی کے ساتھ برآمد ہوتا ہے۔ان کے نزدیک صبح کو شام اور شام کو صبح تک پہنچانا ہی اہم ترین فریضہ ہے۔ان کے مردہ دل کسی بھی ملی غیرت اور انسانی حمیت سے بالکل ہی خالی ہیں لیکن یہ حکمران عوام کے نمائندے نہیں ہوتے خارجی قوتوں کی داخلی نمائندہ قوتیں نظام انتخاب کو اس الٹ پھیر سے مرتب کرتی ہیں کہ ہر لومڑی شریف زادی نظر آتی ہے اور بھیڑیا نسلی بطل حریت شمار ہوتا ہے۔اس نظام انتخاب میں ہر سفاک رہبر دین و ملت دکھائی دیتا ہے اور ہر بے دین لبادہ¿ دین اوڑھے اپنے آپ کو قرون اولیٰ کا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر غیرت زیادہ بڑھ جائے تو قوم کو خودکشی پر ابھارتے ہیں۔ قوم آمادہ نہ ہوتو خودکش حملے سے قوم کو واصلِ جنت کرنے کا اہتمام فرماتے ہیں۔کتنی کہانیاں ہماری قومی بد نیتی اور بے حسی سے جنم لیتی ہیںاور ہر کہانی کا اخلاقی سبق یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنی کھال بچانے کیلئے امریکہ کی غلامی اختیار کرلیں۔
قارئین معاف فرمائیے گا راقم نے اخلاقی سبق کی ترکیب استعمال کی ہے ۔یہ دراصل بد اخلاقی کا سبق ہوناچاہئے لیکن جب قومیں بد اخلاق رہنماﺅں اور بد کردار حکمرانوں کی ہوسناکی کا شکار ہوں تو یہ ترکیب تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
تصادم کا بگل بج رہا ہے اور ان کے کانوں پر سخت مہریں لگی ہوئی ہیں۔ زبانوں پر تالے ہیں اور ان تالوں کی چابیاں امریکہ کی جیب میں ہیں اس لئے ان کی ہر وفاداری کی ڈور بھی وہیں سے ہلتی ہے۔ پہلے ڈور حکمران ہلاتے تھے اب وہاں کا ہر دھتکارا ہوا سرکاری اہلکار بھی ہماری ٹوپی اچھالتا ہے اور ہماری چھڑی کو ہماری ہی کمر پر برسانے کی دھمکی دیتا ہے۔
تصادم کی فضا اپنے تکمیلی مراحل میں ہے۔ میدان ہمارا کونسا خطہ بنے گا؟ اور کب بھاگو دوڑو کا ماحول پیدا ہوگا؟ اس کا اندازہ کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے امریکی عام انتخابات سے پہلے ہی اس کام کی منحوس ابتدا کردی جائیگی۔ ہر صوبہ اور ہر خطہ اس بے برکت اور وحشت ناک کام کیلئے استعمال کیاجارہا ہے اور مزید کیا جائےگا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی نژاد امریکی شہری اس سلسلے میں اہم کردار ادا کریںگے۔ اندرون ملک سے مذہبی پیشواﺅں کو نئے کھیل کا تازہ ترین کردار دیاجائیگا جو فی الحال ہمارے تصور سے بھی ماورا ہے۔ پاکستان بھر کی مواصلاتی فضا کو مکمل طور پر قبضے میں لے لیاجائیگا۔ پارلیمنٹ میں فون کی گفتگو کا ریکارڈ رکھنے کے سلسلے میں جو بل پیش کیاجارہا ہے۔وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔پاکستانی عوام شاید یہ سمجھتے ہیں کہ لڑائی سرحدات پر ہوگی اور ہم شہری کسی درجہ محفوظ ہونگے اور پھر امن و امان قائم ہوجائیگا۔ شہری زندگی معمول پر آجائیگی ایسا ہرگز ہر گز نہیں ہے۔ خاکم بدہن امریکہ پاکستان کو اس برے انداز سے صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ عراق اور افغانستان کی تباہی بھی اس کے مقابلے میں صفر کے برابر نظر آئیگی۔ امریکہ کے موجودہ صدر اور آئندہ آنے والے ممکنہ صدر کے درمیان اس بات پر یہ اتفاق کہ پاکستان پر ڈرون حملے جاری رہیں گے اور بڑھا دئیے جائیں گے۔ ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ پاکستان کی داخلی خود مختاری ان کی نظر میں مکمل طورپر ختم ہوچکی ہے۔ داخلی اور عسکری قوتیں ان کی طعنہ زنی کی نوک پر ہیں۔ اب عسکری تصادم یا جبری حملے سے پہلے پاکستان کے ہر طبقے کو بری طرح سے داخلی تصادم میں دھکیل دیاجائیگا اور پھر عسکری قوت کو مجبور کیاجائیگاکہ وہ شہریوں کے سامنے برائے امن صف آرا ہوجائے عوام اور فوج کا تصادم کا ناپاک ارادہ اور پھر ناکام ریاست کا جبری اعلان کرتے ہوئے ڈرون حملوںکا سلسلہ چاروں صوبوں اور کشمیر پر ہوگا اور بھارت کو آزاد کشمیر کی طرف سے حملے کا حکم ہوگا۔ مزید کشیدگی بڑھے گی تو ہمارے سفیروں کی روزانہ سرزنش ہوگی۔عوام کے جذبات کو مذہب کی مخالفت میں تبدیل کرنے کیلئے جعلی ملاﺅں کو الیکٹرانک میڈیا پر براجمان کرکے اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کا بھیانک سلسلہ اور اس کے بعد بین المذاہب مکالمہ کی ابتداءہوگی۔قادیانی لابی کو اسلام کا حقیقی نمائندہ بنا کر حقوقِ اقلیت کیلئے نیا ڈرامہ رچایاجائیگا۔ آنے والے انتخابات میں پر اسرار انداز سے بے دین،بے حس اور بے حمیت پارلیمنٹ کو وجود میں لایاجائیگا اور اس کیلئے ابھی سے بھتہ خور ملت دشمن دانشوروں نے سیکولر نظام کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی غیر محسوساتی کارروائی شروع کردی ہے اور آئندہ چند سالوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام بدل کر سیکولر پاکستان بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اب بھی پارلیمنٹ دباﺅ میں ہے اور آنے والے سالوں میں پارلیمنٹ بالکل دبا دی جائیگی ارکان اسمبلی کو چکنا چپڑا دانہ ڈالا جائیگا۔
صاحبو! یہ تو مستقبل کا منظر نامہ سامنے آرہا ہے۔ موجودہ حالات میں عوام کی معاشی اور معاشرتی ناکہ بندی کیلئے جو ڈراﺅنے حملے کیے جارہے ہیں وہ بہت ہی خطرناک اور مایوسی بھرے ہیں ۔مہنگائی کا جن عوام کے بال نوچتا ہے اور ناخن اکھیڑتا ہے لیکن حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے ’غلام حاضر ‘ہے کی صدا لگاتا ہے۔عدالت نے حکم دیا تھا کہ چینی 40 روپے فی کلو بیچو، بگڑے دل سرمایہ داروں نے حکم عدالت کی طرف پشت کرلی اور عوام کو آنکھیں دکھائیں کہ خبردار آئندہ عدالت میں مت جانا ورنہ ورنہ .... عوام بے چارے شکست کھا گئے کیونکہ عوام کو ہر انتخاب میں شکست کھانے کی مشق ہے اور سیاستدانوں کو ہر انتخاب میں جیت جانے کی بیرونی آشیر باد حاصل ہے۔ عوام ہارتے رہیں گے، سیاستدان کھیلتے رہیں گے اور امریکہ ہر کھیل کا مستقل ریفری ہے۔اب وہ پوری قوم کو ہراناچاہتا ہے قوم سو رہی ہے۔جگانے والے چور کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے کہ....
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پر
بشکریہ: نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/26-Oct-2012/138378
کالم نگار | نذیر احمد غازی
26 اکتوبر 2012
0
حق و باطل کا معرکہ بہت تیزی سے ایک براہ راست تصادم کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہم خاموش تماشائی بن کر اس آنے والے تصادم کو بطور مبصر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن فطرت کا قانون اور فطرت کا فیصلہ ایسے نہیں ہوتا جس طرح سے ہم خیال کرتے ہیں۔افراد کی غلطی قوموں کی غلطی میں تبدیل ہورہی ہے۔مشرق و مغرب کے ذمہ دار نہایت درجے غیر ذمہ دار ہوتے جارہے ہیں۔آنکھوں پر حیوانیت کی چربی چڑھ گئی اور دلوں پر زنگ آلود تالے ہیں جو افکار و جذبا ت کی سچائی کو چھپائے ہوئے ہیں۔ حاکم و محکوم ، غنی و فقیر اور ہر چھوٹے بڑے کی نیت میں ایسا فتور ہے جو زبان کو درست نہیںرہنے دیتا۔اصلاح کی بات کرنے والوں کو فاضل پرزہ سمجھ کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ ہر دجال و مکار نے آنکھوں پر رنگین چشمے چڑھائے ہوئے ہیں اور حسب ضرورت رنگوں کی مناسبت سے تبدیل کرتے رہتے ہیں اور قاتلوں نے ہاتھوں پر دلفریب اور خوشنما دستانے پہنے ہوئے ہیں۔ اس لئے بیچارے غریب عوام بد کردار رہبروں اور سفا ک ممالک کے قدموں پر ایسے وفادار کی طرح لوٹتے ہیں جیسے ایک بیمار و مجروح مسیحا کی دہلیز پر ماتھا رگڑتا ہے۔
غریب مسلمان حکمران حالات کی دہلیز پر اسی طرح سے ماتھا ٹیک رہے ہیں لیکن یہ بے چارے منگتے حکمران جن کا کشکول خیرات خوف کی مٹی سے بنا ہوا ہے اور ان کی صدائے گدائی میں اس حد تک لرزش اور کپکپاہٹ ہے کہ ان کی زبان پر کلمہ خیر بھی ندامت اور شرمندگی کے ساتھ برآمد ہوتا ہے۔ان کے نزدیک صبح کو شام اور شام کو صبح تک پہنچانا ہی اہم ترین فریضہ ہے۔ان کے مردہ دل کسی بھی ملی غیرت اور انسانی حمیت سے بالکل ہی خالی ہیں لیکن یہ حکمران عوام کے نمائندے نہیں ہوتے خارجی قوتوں کی داخلی نمائندہ قوتیں نظام انتخاب کو اس الٹ پھیر سے مرتب کرتی ہیں کہ ہر لومڑی شریف زادی نظر آتی ہے اور بھیڑیا نسلی بطل حریت شمار ہوتا ہے۔اس نظام انتخاب میں ہر سفاک رہبر دین و ملت دکھائی دیتا ہے اور ہر بے دین لبادہ¿ دین اوڑھے اپنے آپ کو قرون اولیٰ کا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر غیرت زیادہ بڑھ جائے تو قوم کو خودکشی پر ابھارتے ہیں۔ قوم آمادہ نہ ہوتو خودکش حملے سے قوم کو واصلِ جنت کرنے کا اہتمام فرماتے ہیں۔کتنی کہانیاں ہماری قومی بد نیتی اور بے حسی سے جنم لیتی ہیںاور ہر کہانی کا اخلاقی سبق یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنی کھال بچانے کیلئے امریکہ کی غلامی اختیار کرلیں۔
قارئین معاف فرمائیے گا راقم نے اخلاقی سبق کی ترکیب استعمال کی ہے ۔یہ دراصل بد اخلاقی کا سبق ہوناچاہئے لیکن جب قومیں بد اخلاق رہنماﺅں اور بد کردار حکمرانوں کی ہوسناکی کا شکار ہوں تو یہ ترکیب تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
تصادم کا بگل بج رہا ہے اور ان کے کانوں پر سخت مہریں لگی ہوئی ہیں۔ زبانوں پر تالے ہیں اور ان تالوں کی چابیاں امریکہ کی جیب میں ہیں اس لئے ان کی ہر وفاداری کی ڈور بھی وہیں سے ہلتی ہے۔ پہلے ڈور حکمران ہلاتے تھے اب وہاں کا ہر دھتکارا ہوا سرکاری اہلکار بھی ہماری ٹوپی اچھالتا ہے اور ہماری چھڑی کو ہماری ہی کمر پر برسانے کی دھمکی دیتا ہے۔
تصادم کی فضا اپنے تکمیلی مراحل میں ہے۔ میدان ہمارا کونسا خطہ بنے گا؟ اور کب بھاگو دوڑو کا ماحول پیدا ہوگا؟ اس کا اندازہ کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے امریکی عام انتخابات سے پہلے ہی اس کام کی منحوس ابتدا کردی جائیگی۔ ہر صوبہ اور ہر خطہ اس بے برکت اور وحشت ناک کام کیلئے استعمال کیاجارہا ہے اور مزید کیا جائےگا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی نژاد امریکی شہری اس سلسلے میں اہم کردار ادا کریںگے۔ اندرون ملک سے مذہبی پیشواﺅں کو نئے کھیل کا تازہ ترین کردار دیاجائیگا جو فی الحال ہمارے تصور سے بھی ماورا ہے۔ پاکستان بھر کی مواصلاتی فضا کو مکمل طور پر قبضے میں لے لیاجائیگا۔ پارلیمنٹ میں فون کی گفتگو کا ریکارڈ رکھنے کے سلسلے میں جو بل پیش کیاجارہا ہے۔وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔پاکستانی عوام شاید یہ سمجھتے ہیں کہ لڑائی سرحدات پر ہوگی اور ہم شہری کسی درجہ محفوظ ہونگے اور پھر امن و امان قائم ہوجائیگا۔ شہری زندگی معمول پر آجائیگی ایسا ہرگز ہر گز نہیں ہے۔ خاکم بدہن امریکہ پاکستان کو اس برے انداز سے صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ عراق اور افغانستان کی تباہی بھی اس کے مقابلے میں صفر کے برابر نظر آئیگی۔ امریکہ کے موجودہ صدر اور آئندہ آنے والے ممکنہ صدر کے درمیان اس بات پر یہ اتفاق کہ پاکستان پر ڈرون حملے جاری رہیں گے اور بڑھا دئیے جائیں گے۔ ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ پاکستان کی داخلی خود مختاری ان کی نظر میں مکمل طورپر ختم ہوچکی ہے۔ داخلی اور عسکری قوتیں ان کی طعنہ زنی کی نوک پر ہیں۔ اب عسکری تصادم یا جبری حملے سے پہلے پاکستان کے ہر طبقے کو بری طرح سے داخلی تصادم میں دھکیل دیاجائیگا اور پھر عسکری قوت کو مجبور کیاجائیگاکہ وہ شہریوں کے سامنے برائے امن صف آرا ہوجائے عوام اور فوج کا تصادم کا ناپاک ارادہ اور پھر ناکام ریاست کا جبری اعلان کرتے ہوئے ڈرون حملوںکا سلسلہ چاروں صوبوں اور کشمیر پر ہوگا اور بھارت کو آزاد کشمیر کی طرف سے حملے کا حکم ہوگا۔ مزید کشیدگی بڑھے گی تو ہمارے سفیروں کی روزانہ سرزنش ہوگی۔عوام کے جذبات کو مذہب کی مخالفت میں تبدیل کرنے کیلئے جعلی ملاﺅں کو الیکٹرانک میڈیا پر براجمان کرکے اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کا بھیانک سلسلہ اور اس کے بعد بین المذاہب مکالمہ کی ابتداءہوگی۔قادیانی لابی کو اسلام کا حقیقی نمائندہ بنا کر حقوقِ اقلیت کیلئے نیا ڈرامہ رچایاجائیگا۔ آنے والے انتخابات میں پر اسرار انداز سے بے دین،بے حس اور بے حمیت پارلیمنٹ کو وجود میں لایاجائیگا اور اس کیلئے ابھی سے بھتہ خور ملت دشمن دانشوروں نے سیکولر نظام کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی غیر محسوساتی کارروائی شروع کردی ہے اور آئندہ چند سالوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام بدل کر سیکولر پاکستان بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اب بھی پارلیمنٹ دباﺅ میں ہے اور آنے والے سالوں میں پارلیمنٹ بالکل دبا دی جائیگی ارکان اسمبلی کو چکنا چپڑا دانہ ڈالا جائیگا۔
صاحبو! یہ تو مستقبل کا منظر نامہ سامنے آرہا ہے۔ موجودہ حالات میں عوام کی معاشی اور معاشرتی ناکہ بندی کیلئے جو ڈراﺅنے حملے کیے جارہے ہیں وہ بہت ہی خطرناک اور مایوسی بھرے ہیں ۔مہنگائی کا جن عوام کے بال نوچتا ہے اور ناخن اکھیڑتا ہے لیکن حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے ’غلام حاضر ‘ہے کی صدا لگاتا ہے۔عدالت نے حکم دیا تھا کہ چینی 40 روپے فی کلو بیچو، بگڑے دل سرمایہ داروں نے حکم عدالت کی طرف پشت کرلی اور عوام کو آنکھیں دکھائیں کہ خبردار آئندہ عدالت میں مت جانا ورنہ ورنہ .... عوام بے چارے شکست کھا گئے کیونکہ عوام کو ہر انتخاب میں شکست کھانے کی مشق ہے اور سیاستدانوں کو ہر انتخاب میں جیت جانے کی بیرونی آشیر باد حاصل ہے۔ عوام ہارتے رہیں گے، سیاستدان کھیلتے رہیں گے اور امریکہ ہر کھیل کا مستقل ریفری ہے۔اب وہ پوری قوم کو ہراناچاہتا ہے قوم سو رہی ہے۔جگانے والے چور کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے کہ....
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پر
بشکریہ: نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/26-Oct-2012/138378