تیری خوشبو بس گئی ہر ایک در دیوار میں

سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: براہ کرم اصلاح فرما دیجئے۔

افاعیل :- فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

تیری خوشبو بس گئی ، ہر ایک در دیوار میں
تتلیوں نے بھی بنایا آ کے گھر دیوار میں

اپنے ہاتھوں سے ہمیں اپنا مکاں ڈھانا پڑا
سانپ رہتے تھے بری یادوں کے ہر دیوار میں

کھل گئی آنکھوں پہ جو پٹی بندھی تھی وہم کی
ہوش آیا ، جا لگا جب اپنا سر دیوار میں

بس ذرا سا دھیان دو مل جائے گا رستہ تمہیں
خفیہ رکھا گیا ہے ، ایک در دیوار میں

دیکھنے لائق نہ تھی حالت ہمارے شہر کی
سو چھپانا پڑ گیا ظالم کو سر دیوار میں

ہاتھ کاٹے کس لیے اہلِ ہنر کے آپ نے
کس لیے چنوا دیئے سب کاری گر دیوار میں

مر رہا ہے پیاس سے ، عمران کوئی بھوک سے
رکھ رہے ہیں اہل ثروت مال و زر دیوار میں

شکریہ
 
اچھی کاوش ہے عمران بھائی، کچھ نکات سامنے کے نظر آتے ہیں، انہیں دیکھ لیجئے۔

تیری خوشبو بس گئی ، ہر ایک در دیوار میں
تتلیوں نے بھی بنایا آ کے گھر دیوار میں
محاورے میں در اور دیوار ہمیشہ واؤِ عطف کے ساتھ ہی مستعمل دیکھے ہیں، اس لئے میرے خیال میں پہلے مصرعے میں ’’در، دیوار‘‘ کہنا شاید درست نہ ہو۔

بس ذرا سا دھیان دو مل جائے گا رستہ تمہیں
خفیہ رکھا گیا ہے ، ایک در دیوار میں
دوسرا مصرعہ بحر میں نہیں ہے۔ آپ نے خفیہ کا تلفظ ٹھیک نہیں کیا، اس وزن میں خُو+فِ+یہ ہی آسکتا ہے جو غلط ہے۔ درست تلفظ میں خ مضموم اور ہجائے کوتاہ ہے، جبکہ ف ساکن ہوتی ہے اور ی مفتوح جبکہ ہائے ہوّز کا وزن شمار نہیں کیا جاتا، سو اس کا درست تلفظ خُ+فْ+یَہ ہوتا ہے۔

دیکھنے لائق نہ تھی حالت ہمارے شہر کی
سو چھپانا پڑ گیا ظالم کو سر دیوار میں
’’دیکھنے لائق‘‘ کہنا فصاحت کے خلاف ہے، دیکھنے کے لائق کہنا افصح ہوگا۔
دوسرے یہ کہ ’’دیوار میں سر چھپانا‘‘ جیسا کوئی محاورہ پہلے کبھی نہیں سنا، اس لئے عجیب لگ رہا ہے۔

ہاتھ کاٹے کس لیے اہلِ ہنر کے آپ نے
کس لیے چنوا دیئے سب کاری گر دیوار میں
اہلِ ہنر کے ہاتھ کاٹنے کو تو تلمیحاً ذکر کیا جاسکتا ہے، مگر اہل ہنر کو دیوار میں چنوائے جانے کا ذکر بھی تاریخ میں معروف ہے کیا؟

مر رہا ہے پیاس سے ، عمران کوئی بھوک سے
رکھ رہے ہیں اہل ثروت مال و زر دیوار میں
پہلے مصرعے میں بھوک و پیاس کی ترکیب ہی استعمال کریں، تو بیان زیادہ بامحاورہ ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں رکھنے کے بجائے کسی طرح چھپانا لے آئیں تو مفہوم کو مزید تقویت ملے گی۔

دعاگو،
راحلؔ
 
اچھی کاوش ہے عمران بھائی، کچھ نکات سامنے کے نظر آتے ہیں، انہیں دیکھ لیجئے۔


محاورے میں در اور دیوار ہمیشہ واؤِ عطف کے ساتھ ہی مستعمل دیکھے ہیں، اس لئے میرے خیال میں پہلے مصرعے میں ’’در، دیوار‘‘ کہنا شاید درست نہ ہو۔


دوسرا مصرعہ بحر میں نہیں ہے۔ آپ نے خفیہ کا تلفظ ٹھیک نہیں کیا، اس وزن میں خُو+فِ+یہ ہی آسکتا ہے جو غلط ہے۔ درست تلفظ میں خ مضموم اور ہجائے کوتاہ ہے، جبکہ ف ساکن ہوتی ہے اور ی مفتوح جبکہ ہائے ہوّز کا وزن شمار نہیں کیا جاتا، سو اس کا درست تلفظ خُ+فْ+یَہ ہوتا ہے۔


’’دیکھنے لائق‘‘ کہنا فصاحت کے خلاف ہے، دیکھنے کے لائق کہنا افصح ہوگا۔
دوسرے یہ کہ ’’دیوار میں سر چھپانا‘‘ جیسا کوئی محاورہ پہلے کبھی نہیں سنا، اس لئے عجیب لگ رہا ہے۔


اہلِ ہنر کے ہاتھ کاٹنے کو تو تلمیحاً ذکر کیا جاسکتا ہے، مگر اہل ہنر کو دیوار میں چنوائے جانے کا ذکر بھی تاریخ میں معروف ہے کیا؟


پہلے مصرعے میں بھوک و پیاس کی ترکیب ہی استعمال کریں، تو بیان زیادہ بامحاورہ ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں رکھنے کے بجائے کسی طرح چھپانا لے آئیں تو مفہوم کو مزید تقویت ملے گی۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت شکریہ محترم ، اچھی آراء سے آپ نے نوازا۔۔۔
 
سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: دوبارہ دیکھیے۔

بس گئی خوشبو ہماری ، خوں سے تر دیوار میں
تتلیوں نے بھی بنایا آ کے گھر دیوار میں

اپنے ہاتھوں سے ہمیں اپنا مکاں ڈھانا پڑا
سانپ رہتے تھے بری یادوں کے ہر دیوار میں

کھل گئی آنکھوں پہ جو پٹی بندھی تھی وہم کی
ہوش آیا ، جا لگا جب اپنا سر دیوار میں

زندہ ہیں زندان میں ہم تو اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا خفیہ در دیوار میں

زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
ہمسفر کرتے رہے ہیں ، ہم سفر دیوار میں

اس سے بہتر کاٹیے اہلِ ہنر کے ہاتھ آپ
کیوں نہ چنوا دیجئے سب کاری گر دیوار میں

مر رہی ہےقوم بھوک و پیاس سے عمران آج
تم چھپاتے پھر رہے ہو مال و زر دیوار میں

شکریہ
 
باقی اشعار تو ماشاءاللہ اب اچھے لگ رہے ہیں، مطلع اور ذیل کا شعر واضح نہیں ہیں۔
زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
ہم سفر کرتے رہے ہیں ، ہم سفر دیوار میں

اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شعر میں تو طویل کھنچ رہا ہے، اس کو اب سے بدل دیں تو بہتر رہے گا۔
دوسرے مصرعے میں اگر خفیہ کی جگہ ’’کوئی‘‘ ہو تو؟
زندہ ہیں زندان میں ہم تو اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا خفیہ در دیوار میں
بلکہ ایک اور تجویز ذہن میں آئی، مناسب لگے تو غور کیجئے گا۔
قید میں زندہ ہیں بس ہم اب اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا کوئی در، دیوار میں
 
باقی اشعار تو ماشاءاللہ اب اچھے لگ رہے ہیں، مطلع اور ذیل کا شعر واضح نہیں ہیں۔


اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شعر میں تو طویل کھنچ رہا ہے، اس کو اب سے بدل دیں تو بہتر رہے گا۔
دوسرے مصرعے میں اگر خفیہ کی جگہ ’’کوئی‘‘ ہو تو؟

بلکہ ایک اور تجویز ذہن میں آئی، مناسب لگے تو غور کیجئے گا۔
قید میں زندہ ہیں بس ہم اب اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا کوئی در، دیوار میں
یہ شعر دراصل یوں ہے۔

زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
ہمسفر ! کرتے رہے ہیں ہم سفر دیوار میں
 
باقی اشعار تو ماشاءاللہ اب اچھے لگ رہے ہیں، مطلع اور ذیل کا شعر واضح نہیں ہیں۔


اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شعر میں تو طویل کھنچ رہا ہے، اس کو اب سے بدل دیں تو بہتر رہے گا۔
دوسرے مصرعے میں اگر خفیہ کی جگہ ’’کوئی‘‘ ہو تو؟

بلکہ ایک اور تجویز ذہن میں آئی، مناسب لگے تو غور کیجئے گا۔
قید میں زندہ ہیں بس ہم اب اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا کوئی در، دیوار میں
آخری تجویز آپ کی بہت پسند آئی۔
 
باقی اشعار تو ماشاءاللہ اب اچھے لگ رہے ہیں، مطلع اور ذیل کا شعر واضح نہیں ہیں۔


اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شعر میں تو طویل کھنچ رہا ہے، اس کو اب سے بدل دیں تو بہتر رہے گا۔
دوسرے مصرعے میں اگر خفیہ کی جگہ ’’کوئی‘‘ ہو تو؟

بلکہ ایک اور تجویز ذہن میں آئی، مناسب لگے تو غور کیجئے گا۔
قید میں زندہ ہیں بس ہم اب اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا کوئی در، دیوار میں
اگر مطلع یوں کر دیا جائے،

تیری خوشبو بس گئی اشکوں سے تر دیوار میں
تتلیوں نے بھی بنایا آ کے گھر دیوار میں
 
یہ شعر دراصل یوں ہے۔

زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
ہمسفر ! کرتے رہے ہیں ہم سفر دیوار میں
اس طرح تو ہمسفر بھرتی کا ہی کہلائے گا، کہ اس کو حذف کردیں تب بھی شعر کا مفہوم بدلتا نہیں۔
کچھ اس طرح ہوسکتا ہے
وائے قسمت! ہم رہے محوِ سفر دیوار میں!
 
اس طرح تو ہمسفر بھرتی کا ہی کہلائے گا، کہ اس کو حذف کردیں تب بھی شعر کا مفہوم بدلتا نہیں۔
کچھ اس طرح ہوسکتا ہے
وائے قسمت! ہم رہے محوِ سفر دیوار میں!
چلیں اس پر سوچ و بچار کرتا ہوں ، میں سوچ رہا تھا جس طرح " کھو دی " اور '' کھودی '' آیا ہے ویسے دوسرے مصرعے میں " ہمسفر " اور " ہم سفر " آئے۔
 
یوں تری خوشبو بسی اشکوں سے تر دیوار میں
تتلیاں، بھنورے بناتے اب ہیں گھر دیوار میں
شاید اس طرح زیادہ واضح ہو؟
بہترین ،
ایک بات جو میرے ذہن میں گھوم رہی ہے اشکوں سے دیوار کا تر ہونا ممکن نہیں ، خون سے دیوار کا تر ہونا ممکن ہے۔
آپ کیا کہتے ہیں اس بارے؟
 
بہترین ،
ایک بات جو میرے ذہن میں گھوم رہی ہے اشکوں سے دیوار کا تر ہونا ممکن نہیں ، خون سے دیوار کا تر ہونا ممکن ہے۔
آپ کیا کہتے ہیں اس بارے؟
کیوں ممکن نہیں؟ دیوار پر منہ رکھ کر، ہاتھوں سے چہرہ چھپائے رونا تو بہت عام بات ہے :)
انتباہ: ویسے یہ میرا ذاتی خیال ہے، فی الوقت میرے پاس اس کے لئے سند نہیں)۔
 
سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: اسے فائنل کیا ہے ، کوئی کمی ہے تو بتائیے۔۔۔

یوں بسی خوشبو ہماری خوں سے تر دیوار میں
تتلیاں بھنورے بناتے ، اب ہیں گھر دیوار میں

اپنے ہاتھوں سے ہمیں اپنا مکاں ڈھانا پڑا
سانپ رہتے تھے بری یادوں کے ہر دیوار میں

کھل گئی آنکھوں پہ جو پٹی بندھی تھی وہم کی
ہوش آیا ، جا لگا جب اپنا سر دیوار میں

قید میں زندہ ہیں ہم بس اب اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا کوئی در دیوار میں

زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
وائے قسمت ہم رہے محوِ سفر دیوار میں

اس سے بہتر کاٹیے اہلِ ہنر کے ہاتھ آپ
کیوں نہ چنوا دیجئے سب کاری گر دیوار میں

مر رہی ہےقوم بھوک و پیاس سے عمران آج
تم چھپاتے پھر رہے ہو مال و زر دیوار میں
 

الف عین

لائبریرین
یوں بسی خوشبو ہماری خوں سے تر دیوار میں
تتلیاں بھنورے بناتے ، اب ہیں گھر دیوار میں
.. مطلع کا دوسرا مصرع چست نہیں، ترتیب بدلنے کی ضرورت ہے

اپنے ہاتھوں سے ہمیں اپنا مکاں ڈھانا پڑا
سانپ رہتے تھے بری یادوں کے ہر دیوار میں
... مکاں غنہ کے ساتھ ڈھانا اچھا نہیں لگ رہا، 'گھر ڈھانا کہیں جیسے
اپنے ہاتھوں سے ہی ہم کو اپنا گھر ڈھانا پڑا

کھل گئی آنکھوں پہ جو پٹی بندھی تھی وہم کی
ہوش آیا ، جا لگا جب اپنا سر دیوار میں
.. درست

قید میں زندہ ہیں ہم بس اب اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا کوئی در دیوار میں
... درست

زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
وائے قسمت ہم رہے محوِ سفر دیوار میں
.. درست اگرچہ مفہوم سمجھ نہیں سکا

اس سے بہتر کاٹیے اہلِ ہنر کے ہاتھ آپ
کیوں نہ چنوا دیجئے سب کاری گر دیوار میں
... کارگر تقطیع ہوتا ہے

مر رہی ہےقوم بھوک و پیاس سے عمران آج
تم چھپاتے پھر رہے ہو مال و زر دیوار میں
.. بھوک و پیاس؟ درست نہیں
 
.. بھوک و پیاس؟ درست نہیں
اوہ! یہ تو اصل میں میری غلطی ہے، مجھے خیال نہیں رہا کہ دونوں ہندی الفاظ ہیں، واو عطف یہاں ٹھیک نہیں رہے گا.
نشاندہی کے لئے استاد محترم کا شکر گزار ہوں.
عمران بھائی سے معذرت.
 
اوہ! یہ تو اصل میں میری غلطی ہے، مجھے خیال نہیں رہا کہ دونوں ہندی الفاظ ہیں، واو عطف یہاں ٹھیک نہیں رہے گا.
نشاندہی کے لئے استاد محترم کا شکر گزار ہوں.
عمران بھائی سے معذرت.
کوئی بات نہیں برادر ، میرے ذہن میں بھی یہ بات آئی تھی ، پھر میں نے سوچا شاید غلط العوام ہونے کی وجہ سے مستعمل ہو۔
 
یوں بسی خوشبو ہماری خوں سے تر دیوار میں
تتلیاں بھنورے بناتے ، اب ہیں گھر دیوار میں
.. مطلع کا دوسرا مصرع چست نہیں، ترتیب بدلنے کی ضرورت ہے

اپنے ہاتھوں سے ہمیں اپنا مکاں ڈھانا پڑا
سانپ رہتے تھے بری یادوں کے ہر دیوار میں
... مکاں غنہ کے ساتھ ڈھانا اچھا نہیں لگ رہا، 'گھر ڈھانا کہیں جیسے
اپنے ہاتھوں سے ہی ہم کو اپنا گھر ڈھانا پڑا

کھل گئی آنکھوں پہ جو پٹی بندھی تھی وہم کی
ہوش آیا ، جا لگا جب اپنا سر دیوار میں
.. درست

قید میں زندہ ہیں ہم بس اب اسی امید پر
ایک دن رب کھول دے گا کوئی در دیوار میں
... درست

زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
وائے قسمت ہم رہے محوِ سفر دیوار میں
.. درست اگرچہ مفہوم سمجھ نہیں سکا

اس سے بہتر کاٹیے اہلِ ہنر کے ہاتھ آپ
کیوں نہ چنوا دیجئے سب کاری گر دیوار میں
... کارگر تقطیع ہوتا ہے

مر رہی ہےقوم بھوک و پیاس سے عمران آج
تم چھپاتے پھر رہے ہو مال و زر دیوار میں
.. بھوک و پیاس؟ درست نہیں
بہت شکریہ استاذ محترم ، آپ نے جن اغلاط کی نشاندہی کی انہیں درست کرنے کی کوشش کی ہے۔

یوں بسی خوشبو ہماری ، خوں سے تر دیوار میں
تتلیاں بھنورے بنا بیٹھے ہیں گھر دیوار میں

اپنے ہاتھوں سے ہمیں ڈھانا پڑا اپنا مکان
سانپ رہتے تھے بری یادوں کے ہر دیوار میں

رہ بنانے کے لیے ہر آڑ میں کھودی سرنگ
عمر بھر کرتے رہے ہیں ہم ، سفر دیوار میں
یا
زندگی کھو دی اسی میں ، عمر بھر کھودی سرنگ
رہ بنانے کو کیا ہم نے سفر دیوار میں

اس سے بہتر کاٹیے کاری گروں کے ہاتھ آپ
کیوں نہ چنوا دیجئے اہلِ ہنر دیوار میں

مر رہی ہے قوم بھوک اور پیاس سے عمران آج
تم چھپاتے پھر رہے ہو مال و زر دیوار میں
 
Top