غزل
تیری صورت کی بات کرتے ہیں
پھول فطرت کی بات کرتے ہیں
چھیڑیے اضطراب کا نغمہ
آج وحشت کی بات کرتے ہیں
سانس کو راستہ نہیں ملتا
آپ ہجرت کی بات کرتے ہیں!
ہم کو نفرت سے دیکھنے والو!
ہم محبت کی بات کرتے ہیں
اتنی تمہید کس لیے آصفؔ
بس ضرورت کی بات کرتے ہیں