تیری طرح کوئی بھی، غمگسار ہو نہیں سکا
بچھڑ کے تجھ سے پھر ، کسی سے پیار ہو نہیں سکا
جو خونِ دل کے رنگ میں ، ٹپک پڑے تھے آنکھ سے
ان آنسوؤں کا مجھ سے ، کاروبار ہو نہیں سکا
وہی تھا وہ , وہی تھا میں , شکستِ دل کے بعد بھی
وہ مجھ سے اور میں اس سے ، شرمسار ہو نہیں سکا
سپاٹ خال و خد لئے کھڑا تھا اس کے سامنے
دکھاوے کے لئے بھی ، سوگوار ہو نہیں سکا
پلیٹ فارم پر تھا جس کا جسم , روح ریل میں
اک ایسا شخص ریل میں ، سوار ہو نہیں سکا
جہاں گیا, میرے ہی اپنے لوگ منتظر ملے
میں بے دیار ہو کے بھی ، بے دیار ہو نہیں سکا
( اعتبار ساجد )