تبسم تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی ۔ صوفی تبّم

فرخ منظور

لائبریرین
تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی
ورنہ پینے میں کوئی بات نہیں ہے ساقی
جو ترے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی
وہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقی
اس مئے ناب سے کیا فائدہ، جب ساغر میں
جلوہ افروز تری چینِ جبیں ہے ساقی
ابھی باقی ہے الَم ہائے فراواں کا خمار
ابھی ہلکی سی کسک دل کے قریں ہے ساقی
نظر اٹھتی ہی نہیں ہے ترے میخانے سے
ورنہ دنیا کی ہر اِک چیز حسیں ہے ساقی
بچ کے جائیں گے کہاں عالمِ بالا کے مکیں
آسماں بھی ترے کوچے کی زمیں ہے ساقی
آنکھ نے کھائے ہیں سو بار نظر کے دھوکے
دل بدستور محبت کا امیں ہے ساقی
فقط آنسو ہی نہیں حسنِ وفا کا زیور
یہ تبسّم بھی محبت کا نگیں ہے ساقی
(صوفی تبسّم)
 
Top