قرۃالعین اعوان
لائبریرین
تیری گلی سے جب ہم نکلے ہم کو یہی محسوس ہوا
جیسے تیری آنکھ کا کاجل سارے جہاں میں پھیل گیا
محوِ تحیرّ سوچ رہے ہیں اب سرِ منزل اہلِ وفا
کیسے آساں آساں گزرے،رستہ کیسا مشکل تھا
ان کی شکایت کیوں کرتے ہو ان کی ہر اک بات بجا
ان پر ہر الزام غلط ہے، راہنما ہیں راہنما
رات ہماری یاد انھیں بھی آہی گئی اس وقت کہ جب
ایک ستارہ چمکا،تڑپا،اور تڑپ کر ڈوب گیا
جس کو ہو فکرِ آبلہ پائی،وہ نہ ہمارے ساتھ چلے
وہ بھی ہمارے ساتھ نہ آئے جس کو جنوں ہو منزل کا
غیر سے تیرا رستہ پوچھوں،اتنا مجھ سے دور نہ ہو
تجھ کو بھلا دوں بے خود ہو کر ،اتنا میرے پاس نہ آ
موج میں آکر جتنے سفینے کھیل چکے ہیں طوفاں سے
ہائے وہی پابستہ ہیں اب لے کے سہارا ساحل کا
دنیا بھر سے میں ہی رسوا،مجھ سے مگر انجان ہے تو
سارے جہاں سے تو چھپ کر بھی میری نظر سے چھپ نہ سکا
قصّہ اس کی ایک نظر کا کہتے کہتے عمر کٹی
پھر بھی جو باتیں اب تک کی ہیں ان سے زیادہ کہ نہ سکا
راہ وفا کے دونوں راہی اہلِ خرد اور اہلِ جنوں
ان کی لغزش ہوش کی لغزش،ان کی لغزش لغزشِ پا
ظلمت شب کی آخری حد پر نورِ سحر کی سر حد تھی
حد سے بڑھی جب شدت غم کی ،راحت کا احساس ہوا
سوچ رہا ہوں اس کو کہوں میں ہجر کی شب یا وصل کی رات
دل پہ کسی کا ہاتھ تھا لیکن کوئی میرے پاس نہ تھا
اہل ہوس اور اہل وفا میں فرٖ ق یہی ہے تھوڑا سا
راحت ان کو غم میں حاصل ان کو غم ہے راحت کا
کیفی کا اب حال عجب ہے عشق کہیں یا پاگل پن
روتے روتے ہنس پڑتا ہے، ہنستے ہنستے رونے لگا
محمد زکی کیفی
جیسے تیری آنکھ کا کاجل سارے جہاں میں پھیل گیا
محوِ تحیرّ سوچ رہے ہیں اب سرِ منزل اہلِ وفا
کیسے آساں آساں گزرے،رستہ کیسا مشکل تھا
ان کی شکایت کیوں کرتے ہو ان کی ہر اک بات بجا
ان پر ہر الزام غلط ہے، راہنما ہیں راہنما
رات ہماری یاد انھیں بھی آہی گئی اس وقت کہ جب
ایک ستارہ چمکا،تڑپا،اور تڑپ کر ڈوب گیا
جس کو ہو فکرِ آبلہ پائی،وہ نہ ہمارے ساتھ چلے
وہ بھی ہمارے ساتھ نہ آئے جس کو جنوں ہو منزل کا
غیر سے تیرا رستہ پوچھوں،اتنا مجھ سے دور نہ ہو
تجھ کو بھلا دوں بے خود ہو کر ،اتنا میرے پاس نہ آ
موج میں آکر جتنے سفینے کھیل چکے ہیں طوفاں سے
ہائے وہی پابستہ ہیں اب لے کے سہارا ساحل کا
دنیا بھر سے میں ہی رسوا،مجھ سے مگر انجان ہے تو
سارے جہاں سے تو چھپ کر بھی میری نظر سے چھپ نہ سکا
قصّہ اس کی ایک نظر کا کہتے کہتے عمر کٹی
پھر بھی جو باتیں اب تک کی ہیں ان سے زیادہ کہ نہ سکا
راہ وفا کے دونوں راہی اہلِ خرد اور اہلِ جنوں
ان کی لغزش ہوش کی لغزش،ان کی لغزش لغزشِ پا
ظلمت شب کی آخری حد پر نورِ سحر کی سر حد تھی
حد سے بڑھی جب شدت غم کی ،راحت کا احساس ہوا
سوچ رہا ہوں اس کو کہوں میں ہجر کی شب یا وصل کی رات
دل پہ کسی کا ہاتھ تھا لیکن کوئی میرے پاس نہ تھا
اہل ہوس اور اہل وفا میں فرٖ ق یہی ہے تھوڑا سا
راحت ان کو غم میں حاصل ان کو غم ہے راحت کا
کیفی کا اب حال عجب ہے عشق کہیں یا پاگل پن
روتے روتے ہنس پڑتا ہے، ہنستے ہنستے رونے لگا
محمد زکی کیفی