تیری ہی یاد تیرا ہی ارمان چاہئیے

تیری ہی یاد تیرا ہی ارمان چاہئیے
راہِ طلب میں بس یہی سامان چاہیئے

مدّت سے موجِ درد میں جنبش نہیں ہوئی
گہرائیوں میں ہے جو، وہ طوفان چاہیئے

بس جذب کا طالب ہوں میں سالک نہیں ہوں میں
مجھ کو فقط نگاہ کا فیضان چاہئیے۔ ۔ ۔ ۔

دل سے نظر کا پھر سے کوئی سلسلہ چلے
جو آکے پھر نہ جائے وہ مہمان چاہئیے

یارب ترے کرم کی تو حد ہی نہیں کوئی
محمود کے بھی درد کا درمان چاہئیے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے محمود، بس یہ مصرع توجہ چاہتا ہے کہ بحر سے خارج ہے۔
بس جذب کا طالب ہوں میں سالک نہیں ہوں میں
اس کو یوں کر سکتے ہیں:
طالب ہوں جذب و عشق کا، سالک نہیں ہوں میں
یا لفظ ’عشق‘ اگر مناسب نہیں ہو تو اسی وزن کا کوئی دوسرا لفظ لایا جا سکتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! خوبصورت غزل ہے۔ مبارک باد۔ خصوصاً مقطع تو بہت ہی خوبصورت لگا۔
یارب ترے کرم کی تو حد ہی نہیں کوئی
محمود کے بھی درد کا درمان چاہیے
اعجاز صاحب کی رائے کا مویّد ہوں۔
 
Top