تیرے بچپن کے دن

’’ شمسہ رحمٰن،،

نہ اپنی ذات کا غم نہ دنیا کے تفکرات، کھلونوں سے بہل جانا یا دوستوں کے ساتھ گپ شپ کر کے وقت گزار لینا۔ ۔ ۔ یہ ہے بچپن۔ بچپن انسانی زندگی کا وہ حصہ ہے جس میں دیگر جسمانی اعضاء کیساتھ عقل و شعور بھی آہستہ آہستہ اپنی ارتقائی منازل طے کرتے ہیں۔ اس عمر میں انسانی شخصیت پر جس چیز کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے وہ اس کے گردو نواح میں پایا جانے والا ماحول ہے۔ اگر انسان کو اس ابتدائی عمر میں گھر کا اچھا ماحول میسر آجائے تو نہ صرف انسان کی ابتدائی عمر میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے بلکہ اس کی آئندہ زندگی بھی سنور جاتی ہے۔ ایک بچے کا ذہن صاف تختی کی مانند ہوتا ہے، اہلِ خانہ یا گرد و نواح کے اعزاء اقارب اس پر جو تحریر لکھ دیتے ہیں وہ ہمیشہ کیلئے بچے کی شخصیت کاحصہ بن جاتی ہے اور بچہ انہی نقوش پر اپنی آئندہ زندگی استوار کرتا ہے۔

تاریخ کے مطالعہ سے اس حقیقت سے آگاہی ہوتی ہے کہ آج تک جتنی بھی شخصیات نے اس جہانِ رنگ و بو میں قابلِ ذکر مقام حاصل کیا اور بنی نوع انسان کی توجہ کا مرکز بن کر لاکھوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکنوں میں شامل ہوئیں انہوں نے یہ مقام اچانک حاصل نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے ان کی پوری زندگی کار فرما ہوتی ہے۔ اگرآپ کہیں کہ کئی لوگ کسی ایک واقعہ کے پیشِ نظر بھی شہرت کی بلندیوں کو پالیتے ہیں تو وہ ایک واقعہ بھی ان کی پوری زندگی کا تسلسل ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کی صلاحیت کا اظہار کسی ایک واقعہ کی بنا پر ہوا ہو۔ ان راہنما اور قابلِ تقلیدشخصیات کے بچپن پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ان کی زندگی کا یہ حصہ بھی غیر معمولی محنت اور کاوشوں سے لبریز ہوگا۔

آیئے! آئندہ سطور میں ایک ایسی ہی راہنما ہستی کے بچپن کا تذکرہ کرتے ہیں جو آج ہر پاکستانی کی آرو ز بن چکی ہے اور مصطفوی مشن کا جھنڈا لہرانے کیلئے ظالم، طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ نبردآزما ہے۔ جھنگ کا شہر جس نے اس دھرتی کو کئی قابلِقدر شخصیات سے نوازا، اسی شہر میں 19 فروری 1951ء کو ایک بچہ پیدا ہوا جس شخص نے بھی اس بچے کی پیدائش کی بابت سنا، خوشی سے جھوم اٹھا۔ ہر کوئی خوش کیوں نہ ہوتا کیونکہ سب جانتے تھے کہ یہ کوئی معمولی بچہ نہیں بلکہ اللہ نے جو نعمت ہمیں عطا کی ہے اس کے حصول کیلئے کعبۃ اللہ میں دعائیں مانگی گئی اور لاکھوں آرزؤوں کا مرکز و محور تھا۔ اس بچے نے شعور کی منازل طے کرنا شروع کیں تو گھر کے پاکیزہ اورعلمی ماحول نے اسے وہ سب کچھ سکھانا شروع کر دیاجس کی تبلیغ اس نے آئندہ پوری ملتِ اسلامیہ کو کرنا تھی۔ اس بچے کے اسلاف اور بزرگوں کو دین، دینی علوم، روحانیت اور اسلامی تعلیمات سے گہری دلچسپی اور وابستگی تھی۔ اس ہر دلعزیز بچے کے والدِگرامی اپنے وقت کے جید عالم، محقق اور فاضل شخصیت تھے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر تھے لیکن زندگی کا زیادہ تر حصہ دینی تعلیم کے حصول اور دوسروں کو اس سے مستفیض کرنے میں صرف ہوا تھا۔

بچے کے والدِ گرامی مرحوم صاحبِ دیوان اور صاحبِ طرز شاعر بھی تھے۔ تصوف اور روحانیت میں ان کا شغف دیدنی تھا۔ سیرت و کردار، تقویٰ، شب بیداری اور روحانی خصائل کے اعتبار سے وہ بلاشبہ اپنے وقت کے ولی تھے۔ اس بچے کی والدہ محترمہ بھی ایک نیک سیرت خاتون تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلِبیت کی محبت کے ساتھ ساتھ روحانی ذوق بھی ان کی زندگی کا خاصہ تھا۔ انہوں نے بھی اپنے اس بیٹے کی تربیت میں خصوصی دلچسپی لی اور ہر ممکن طور پر اپنے مضبوط تعلق کا حق ادا کیا۔ والدین کے ان روحانی خصائل نے گھر کے ماحول کو اہلِ علاقہ کیلئے قابلِ رشک بنادیا تھا۔ یوں اس پاکیزہ صحبت میں اس بچے کی پرورش ہونے لگی۔

جب یہ بچہ طاہر 4 سال کا ہوا تو اسے جھنگ کے اس وقت کے سب سے اچھے سکول سیکرڈ ہارٹ میں داخل کروا دیا گیا۔ اسی وقت سے ہی محسوس ہونے لگا کہ آپ کا بچپن تمام بچوں کی طرح نہیں بلکہ دوسروں سے غیر معمولی طور پر مختلف ہے۔ گھرکا ماحول چونکہ مذہبی تھا اس لئے ابتداء سے ہی اس کمسن پر مذہب کا رنگ غالب رہا۔ پرائمری سکول کی تعلیم کے دوران ہی عالم یہ تھا کہ دیگر کلاس فیلو جب کھیل میں مصروف ہوتے تو طاہر اپنے محبوبِ حقیقی کی یاد میں محو ہوتا۔ دوسرے بچوں کو جب والدین ڈانٹتے تو یہ محوِ حیرت ہوتا کہ یہ میرے ساتھی ایسے کام کیوں کرتے ہیں جن کی وجہ سے والدین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی خشیتِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ اکثر ایسا ہوتا کہ رات کے آخری پہر اپنے والد ماجد کے ساتھ اٹھ جاتے اور نمازِ تہجد پڑھ کر ذکرِ الہٰی میں مصروف ہوجاتے۔ علاقہ بھر میں ہونے والی روحانی محافل میں شرکت اور نمازِ پنجگانہ کا اہتمام اس بچے نے ابتدائی ایام سے ہی اپنی زندگی کا وطیرہ بنا لیا تھا۔ اہلِ علم کی صحبت اور والدین کی تربیت سے مستفیض ہونے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتا اور یوں مستقبل کا معمار آہستہ آہستہ اپنی شخصیت کو آنے والے چیلنجز کے لئے تیار کرتا رہا۔

محمد طاہر کے بچپن کی ایک اور بات جو نہایت قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ وہ صرف حقوق العباد پرہی توجہ نہیں دیتا تھا بلکہ حقوق العباد کا تصور بھی ان کے ذہن میں شروع دن سے ہی پختہ ہوچکا تھا۔ وہ والدین کے حقوق کی کماحقہ پاسداری کے بعد سکول میں اپنے ہم مکتب دوستوں کے حقوق کا بھی ہمیشہ خیال رکھتا۔ اگر کوئی طالبعلم غریب ہے تو اس کی فیس ادا کردینا، اگر کوئی اپنا کھانا نہیں لاسکا تو اسے اپنے ساتھ شریک کرنا، کتب اور دیگر ضروری چیزیں اپنے ساتھیوں کو دے دینا، کمزور طلباء کی پڑھائی میں مدد کرنا اور پریشان حال ساتھیوں کے آنسو پونچھنا اس بچے کی زندگی کا من پسند مشغلہ تھا۔ حقوق العباد کے اس قدر خیال اور اپنے دوستوں کو اس قدر توجہ دینے کی وجہ سے تمام ہم عمر اس سے بے حد محبت کرتے اور اپنا حقیقی غم خوار مانتے تھے۔

محمد طاہر کی محنت اور مثبت سرگرمیوں کا اثر تھا کہ والدین اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر اسے خصوصی توجہ سے نوازتے اور اس کی تعلیم و تربیت کا ہمہ وقت خیال رکھتے تھے۔ اس کی تعلیم و تربیت کیلئے والدِ گرامی نے نہ کبھی جھنگ سے باہر سروس کی اور نہ ہی کہیں خود شفٹ ہوئے۔ یہاں تک کہ والدِ محترم کو طبیہ کالج لاہور میں وائس چانسلر شپ کی پیشکش ہوئی۔ اسی طرح سعودی عرب اور مدینہ طیبہ میں بھی اچھے مواقع کی پیشکش ہوئی لیکن وہ کہا کرتے تھے کہ میں طاہر کی تربیت کی خاطر کوئی پیشکش قبول نہیں کروں گا۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ محمد طاہر نے بھی اپنے والد کی صحبت کا حق ادا کر دیا اور عزم و ہمت کو ہمیشہ اپنا رختِ سفر رکھا۔

جب یہ بچہ لڑکپن کی عمر کو پہنچا تو ہائی سکول کی تعلیم شروع ہوچکی تھی تو اس وقت اس کے والدِ گرامی نے اسے اپنی خواہش اور دعا سے مطلع کیا کہ میں تم سے کس کام کی توقع لے کر تمہارے لئے اس قدر محنت کر رہا ہوں۔ والدِگرامی نے بتایا کہ میں نے مقامِ ملتزم پر غلافِ کعبہ کو تھام کر یہ دعا مانگی تھی کہ ’’ باری تعالیٰ مجھے ایک بیٹا عطا کر جو تیرے محبوب کی محبت اور معرفت سے سرشار ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خدمت کرے۔ اس کے ذریعے تو احیائے اسلام اور اتحادِ امت کا کام لے۔ میں بھی اسی خیال کو لے کر اس کی تربیت کروں گا کہ وہ تیرے دین کے مقصد کو لے کر امت کی سطح پر اور عالمی سطح پر آگے بڑھے۔،، اپنے والد حضور کی دعا سن کر اس کم سن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے اور اسی وقت سے یہ عزم و ہمت کا کوہِ گراں بننے کیلئے کوشاں ہوگیا۔ کمر ہمت باندھ لیا اور کھلے ذہن کے ساتھ اس نے اپنے حلقۂ احباب کو وسیع کرنا شروع کردیا اور اپنے والد صاحب کی طرف سے دیئے گئے مشن کی تکمیل کیلئے کوشاں ہوگیا۔ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رحمت سے خود اس کمسن کی سوچ کو وہ سمت دے دی کہ تمام راستے اس کیلئے آسان ہوتے چلے گئے۔

محمد طاہر کے والدِ محترم بھی ہر لمحہ ان کی تربیت میں مگن رہتے اور کوشش کرتے کہ احیائے امت کے عالمی مشن کیلئے اپنے بیٹے کو بہترین انداز میں تیار کر سکوں۔ تربیت کا انداز چونکہ نہایت مصالحانہ اورحکیمانہ ہوتا تھا، اسلئے بیٹا بہت جلد بات کو ذہن میں محفوظ کر لیتا۔ ایک دفعہ اس کمسن کے والد ایک جلسے میں پنجابی زبان میں تقریر کر رہے تھے کہ بیٹے نے کہا ابو جان! مجھے تو آپ پنجابی تقریر سے منع فرماتے ہیں اور خود پنجابی میں تقریرکرتے ہیں۔ اس پر والدِ محترم نے حسبِ طبیعت بڑے اچھے انداز میں سمجھایا کہ بیٹا میں تودین کا کام جھنگ کی سطح پر کر رہا ہوں جبکہ تم نے شرق سے غرب تک پوری دنیا میں احیائے اسلام کا پیغام دینا ہے۔ اسلئے تم انگریزی، عربی اور اردو میں تقاریر کیا کرو۔

شروع دن سے ہی دوسروں کا درد دل میں موجزن تھا، کسی کو اگر تکلیف پہنچتی تو یہ کمسن طالب علم اسے اپنے دل میں ضرور محسوس کرتا اور اس درد کا مداوا کرنے کیلئے بے چین رہتا۔ کہتے ہیں کہ اس بچے کے گاؤں حسوبلیل میں ایک بڑھیا تھی جو نہایت ضعیف اور بے سہارا تھی۔ کوئی شخص اسے کھانا دینے والا یا دوا دینے والا نہ تھا تو محمد طاہر روزانہ اس کے پاس جاتا اور اس کی ہر ممکن مدد کرتا۔ محنت، ہمدردی، ایثار، قربانی اور محبت کا علم تھامے اس کمسن نے اپنا انقلابی سفر جاری رکھا اور آج ایک عظیم راہنما و قائد کی صورت میں دنیا کو امن و آشتی اور انقلاب کا پیغامِ دل نشیں دے رہا ہے۔ جھنگ سے اپنا انقلابی و فکری سفر شروع کرنے والے اس شخص کو دنیا آج شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتی ہے جن کی زندگی کا مقصد مصطفوی انقلاب اور اتحاد امت ان شاء اللہ بہت جلد اپنی منزل کو پانے کا مژدہ جانفزا پوری عالمی برادری کو سنائے گا۔

بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ
 
Top