تیرے جمال سے ہے انجمن میں آگ لگی

غزل !

ترے جمال سے ہے انجمن میں آگ لگی
فضاء میں روشنی پھیلی گگن میں آگ لگی

جلا کے رکھے تھے ہم نے تو روشنی کے لیے
یہ کس چراغ سے میرے چمن میں آگ لگی

کسی کے حسن کا سورج نکل رہا ہے کہیں
دیار عشق میں کوہ و دمن میں آگ لگی

کچھ اس ادا سے وہ محفل میں آج آئے ہیں
ہے انگ انگ میں بھڑکی بدن میں آگ لگی

نجانے کیسی یہ تلخی در آ ئی لہجے میں
ہے بات بات میں سوزش سخن میں آگ لگی

میرے خدا میرے مالک تو بھیج ابر کرم
بجھا دے اے مرے مولیٰ وطن میں آگ لگی

یہ اسکا جسم ہے شعلہ ہے آگ ہے کہ شرار
جو دھوئے پیر تو اس نے ، لگن میں آگ لگی

یہ کس کی گرمی گفتار کی وجہ سے حسیب
ہر ایک شیریں سخن کے دھن میں آگ لگی

حسیب احمد حسیب
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
شرار‘ بہتر ہوگاپہلی بات تو قوافی کے بارے میں ہے۔ مطلع میں انجمن اور زمن کے قوافی غزل کا قافیہ مقرر کرتے ہیں، جس میں ’من‘ پر اختتام ہوتا ہے۔ اگلے دو اشعار میں بھی چمن اور دمن اس قوافی کے نظام کو مزید تویت پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس کے بعدبدن، لگن دہن وغیرہ میں محض ’ن‘ والے قوافی ہیں۔
اب ایک ایک کر کے
تیرے جمال سے ہے انجمن میں آگ لگی
فضاء میں روشنی پھیلی زمن میں آگ لگی
۔۔ ترے کا محل ہے ، مکمل ‘تیرے‘ کا نہیں۔
زمن میں آگ لگنا سمجھ میں نہیں آ سکا۔

کسی کے حسن کا سورج طلوع ہوا ہے کہیں
دیار عشق میں کوہ و دمن میں آگ لگی
۔۔طلوع مکمل نہیں وزن میں آتا۔ ع گر جاتی ہے۔

کچھ اس ادا سے وہ محفل میں آج آئے ہیں
ہے انگ انگ میں بھڑکی بدن میں آگ لگی
،،دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آ سکا۔

میرے خدا میرے مالک تو بھیج ابر کرم
بجھا دے اے میرے مولیٰ وطن میں آگ لگی
ہر جگہ ’میرے‘ کا نہیں، محض ’مرے‘ وزن میں آنا چاہئے۔

یہ اسکا جسم ہے شعلہ ہے آگ ہے یا شرار
جو دھوئے پیر تو اس نے ، لگن میں آگ لگی
۔۔یاشرار‘ میں الف کا گرنا اچھا نہیں لگتا۔ ’کہ شرار بہتر ہو گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
Top