حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل !
ترے جمال سے ہے انجمن میں آگ لگی
فضاء میں روشنی پھیلی گگن میں آگ لگی
جلا کے رکھے تھے ہم نے تو روشنی کے لیے
یہ کس چراغ سے میرے چمن میں آگ لگی
کسی کے حسن کا سورج نکل رہا ہے کہیں
دیار عشق میں کوہ و دمن میں آگ لگی
کچھ اس ادا سے وہ محفل میں آج آئے ہیں
ہے انگ انگ میں بھڑکی بدن میں آگ لگی
نجانے کیسی یہ تلخی در آ ئی لہجے میں
ہے بات بات میں سوزش سخن میں آگ لگی
میرے خدا میرے مالک تو بھیج ابر کرم
بجھا دے اے مرے مولیٰ وطن میں آگ لگی
یہ اسکا جسم ہے شعلہ ہے آگ ہے کہ شرار
جو دھوئے پیر تو اس نے ، لگن میں آگ لگی
یہ کس کی گرمی گفتار کی وجہ سے حسیب
ہر ایک شیریں سخن کے دھن میں آگ لگی
حسیب احمد حسیب
ترے جمال سے ہے انجمن میں آگ لگی
فضاء میں روشنی پھیلی گگن میں آگ لگی
جلا کے رکھے تھے ہم نے تو روشنی کے لیے
یہ کس چراغ سے میرے چمن میں آگ لگی
کسی کے حسن کا سورج نکل رہا ہے کہیں
دیار عشق میں کوہ و دمن میں آگ لگی
کچھ اس ادا سے وہ محفل میں آج آئے ہیں
ہے انگ انگ میں بھڑکی بدن میں آگ لگی
نجانے کیسی یہ تلخی در آ ئی لہجے میں
ہے بات بات میں سوزش سخن میں آگ لگی
میرے خدا میرے مالک تو بھیج ابر کرم
بجھا دے اے مرے مولیٰ وطن میں آگ لگی
یہ اسکا جسم ہے شعلہ ہے آگ ہے کہ شرار
جو دھوئے پیر تو اس نے ، لگن میں آگ لگی
یہ کس کی گرمی گفتار کی وجہ سے حسیب
ہر ایک شیریں سخن کے دھن میں آگ لگی
حسیب احمد حسیب
آخری تدوین: