سلیم احمد تیرے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں

ظفری

لائبریرین

تیرے سانچے میں ڈھلتا جارہا ہوں
تجھے بھی کچھ بدلتا جارہا ہوں

نہ جانے تجھ کو بھولا ہوں کہ خود کو
بہر صورت سنبھلتا جارہا ہوں

طبعیت ہے ابھی طفلانہ میری
کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں

حقیقت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہوں
نظر کے رخ بدلتا جا رہا ہوں

چلا ہے مجھ سے آگے میرا سایہ
سو میں بھی ساتھ چلتا جارہا ہوں

یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کر جی لوں
سو اندر سے پگھلتا جا رہا ہوں


بہت نازاں ہوں محرومی پہ اپنی
اسی پر ہاتھ ملتا جارہا ہوں

کسی کا وعدہ فردا نہیں ہوں میں
تو کیوں فردا پہ ٹلتا جارہا ہوں


سلیم احمد​
 

ظفری

لائبریرین
ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں ( سلیم احمد)

آج ابو شامل بھائی کی پوسٹ کردہ سلیم احمد صاحب کی نظم پڑھی ۔ اس حوالے سے مجھے سلیم احمد کی شاعری یاد آگئی ۔ سوچا آپ کے ساتھ بھی شئیر کروں ۔

ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں
تجھے بھی کچھ بدلتا جا رہا ہوں

نہ جانے تجھ کو بھولا ہوں کہ خود کو
بہر صورت سنبھلتا جا رہا ہوں

طبعیت ہے ابھی طفلانہ میری
کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں

حقیقت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہوں
نظر کے رخ بدلتا جا رہا ہوں

چلا ہے مجھ سے آگے میرا سایہ
سو میں بھی ساتھ چلتا جارہا ہوں

یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں
سو اندر سے پگھلتا جارہا ہوں

بہت نازاں ہوں محرومی پر اپنی
اسی پہ ہاتھ ملتا جا رہا ہوں

کسی کا وعدہ فردا نہیں ہوں
تو کیوں فردا پہ ٹلتا جا رہا ہوں
 

ظفری

لائبریرین
تمام دوستوں کی پسندیدگی کا شکریہ ۔
ابو شامل بھائی ضرور ۔۔۔۔ انشاء اللہ ضرور غزلیں شئیر کروں گا ۔
وارث بھائی آپ کی طرف سے کچھ دن ہوگئے کوئی غزل نہیں پڑھی ۔
 

شیہک طاہر

محفلین
مجھے سلیم احمد صاحب کی ایک نظم کی ضرورت ہے جو مجھے نہیں مل رہی، کیا آپ مجھے اس متعلق مدد کرسکتے ہیں؟
نظم کا پہلا مصرع ہے،
ہاتھ کچھ کہ بھی نہیں سکتے ہیں۔
بڑی مہربانی ہوگی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مجھے سلیم احمد صاحب کی ایک نظم کی ضرورت ہے جو مجھے نہیں مل رہی، کیا آپ مجھے اس متعلق مدد کرسکتے ہیں؟
نظم کا پہلا مصرع ہے،
ہاتھ کچھ کہ بھی نہیں سکتے ہیں۔
بڑی مہربانی ہوگی۔


محفل میں خوش آمدید بھائی۔۔۔۔!

یہ نظم میرے علم میں تو نہیں ہے شاید کوئی اور دوست بتا سکے۔ کیا نظم کا عنوان یاد نہیں آپ کو۔
 

شیہک طاہر

محفلین
مجھے سلیم احمد صاحب کی ایک نظم کی ضرورت ہے جو مجھے نہیں مل رہی، کیا آپ مجھے اس متعلق مدد کرسکتے ہیں؟
نظم کا پہلا مصرع ہے،
ہاتھ کچھ کہ بھی نہیں سکتے ہیں۔
بڑی مہربانی ہوگی۔
 

عمراعظم

محفلین
یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں
سو اندر سے پگھلتا جارہا ہوں
واہ ! کیا ہی خوبصورت غزل شیئر کی ہے ظفری صاحب۔ بہت شکریہ۔
 
Top